ایف 16 تنازع؛ دیکھنا ہوگا کہ امریکی رویہ وقتی ہے یا 80 کا تسلسل

F-16 issue

F-16 issue

اسلام آباد (جیوڈیسک) حال ہی میں امریکا کی جانب سے ایف 16-طیاروں پر پابندی کے فیصلے کے بعد پاکستانی حکام اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ امریکی حکومت کا یہ فیصلہ عارضی ہے یا واشنگٹن نے 80 کی دہائی کی طرح اسلام آباد پر پابندیاں لگا دی ہیں۔

سیکیورٹی اور حکومتی حکام نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ گو کہ ابھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں مکمل بریک ڈائون کی صورت حال پیدا نہیں ہوئی تاہم ہمیں ویسی ہی بدترین صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے جب 1989 میں امریکا نے پاکستان پر جوہری پروگرام سمیت ہر پروگرام پر پابندی لگا دی تھیں۔ حکام کے مطابق اقتصادی راہداری اور بھارتی لابنگ پاکستان کے خلاف امریکا کے موجودہ سخت رویے کے بڑے اسباب ہیں، امریکی کانگریس کی جانب سے 699 ملین ڈالر کی ڈیل روکنے کے بعد مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے پالیسی بیان میں اعتراف کیا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات گزشتہ 3 ماہ سے تنائو کا شکار ہیں۔

دوسری جانب امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ پر نظر رکھنے والے متعدد پالیسی میکرز اور تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکی حکومت کا یہ فیصلہ حیران کن نہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کے امریکا سے تعلقات اس طرح کے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ 1989میں پریسلر ترمیم کے تحت امریکا کے پاکستان پر پابندیاں لگائیں اور 658ملین ڈالر کے ادائیگی کے باوجود 28ایف16- طیارے نہیں دیے تھے۔بعدازاں امریکا میں بہت سے سیاستدانوں اور حکومتی اہلکاروں نے امریکی فیصلے کو غلط قرار دیا تھا۔ امریکا میں اوباما انتظامیہ نے وعدہ کیا تھا کہ ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے۔

اور باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے مذاکرات ہونگے تاہم ایف16-طیاروں کے حوالے سے حالیہ تنازع اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف مزید کارروائی کرنے کے امریکی دبائو کے بعد ایسا لگتا ہے کہ خطے میں امریکی مفادات تبدیل ہورہے ہیں اور امریکی مطالبات سے ایسا لگ رہا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ بھارت کو خوش کرنا چاہتی ہے کیونکہ امریکا اور بھارت کے تعلقات میں تیزی سے بہتری اور استحکام آرہا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کے علاوہ واشنگٹن اور نئی دہلی دونوں کے لیے پاکستان چین اقتصادی راہداری بھی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے ایسا لگتا ہے کہ امریکا کو یقین نہیں تھا کہ کبھی اقتصادی راہداری حقیقت کا روپ دھارے گی۔ سرکاری حکام کے مطابق مسئلہ صرف ایف 16-کا نہیں بلکہ اس میں کچھ اور گیم ہی ہے ، امریکا خطے میں چین سے مقابلے کے لیے اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتا ہے جبکہ یہی چین کی حکمت عملی ہے۔ سابق سفارتکار ریاض کھوکھر کے مطابق حقیقت میں امریکا کے مفادات خطے کے حوالے سے تبدیل ہورہے ہیں، کئی دہائیوں تک امریکا نے بھارت کو پریشان کیا، اب دونوں قریب آرہے ہیں۔ سابق سفارتکار کے مطابق ہمیں ایف16-کے لیے بھیک نہیں مانگنی چاہیے کیونکہ میرے خیال میں ایف16-کوئی بڑا فرق نہیں۔ انطوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکا آئندہ مہینوں میں مزید دبائو ڈالنے کے اقدامات کرسکتا ہے۔