فیس بک نے بنایا ذہنی مریض

Facebook Users

Facebook Users

تحریر: عارف رمضان جتوئی
فیس بک پر بنائے گئے ایک گروپ میں کمنٹس اور اسٹیٹس کے ذریعے باتوں کی ایسی خون جما دینے والی جنگ ہوئی کچھ لمحوں کے لئے گروپ کھاڑے کا منظر پیش کرنے لگا۔ اس جنگ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ اس جنگ کا اثر فیس بک سے باہر نکل کر متعلقہ افراد کے گھروں کی دہلیز پار کرگیا ہوگا۔ اس جنگ کی وجہ جہاں وہ ممبر تھے وہیں اس کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا میں نمایاں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی ویب سائٹ فیس بک بھی تھی۔ فیس بک نے چند ہی برسوں میں جس قدر برے اثرات ہماری زندگیوں پر مرتب کیے ہیں وہ اثرات وقت کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی زندگی پر نمودار ہورہے ہیں۔ وہ کیا اثرات ہیں اور ان پر خود سمندر پار والے کیا تحقیقات کر رہے ہیں وہ پچھلے دنوں مختلف خبروں کی زینت بننے والی کچھ شہہ سرخیاں ہیں۔

انٹرنیٹ پر سماجی روابط کے حوالے سے مشہور ویب سائٹ فیس بک کا آغاز فروری سنہ 2004 میں امریکی طالبعلم مارک زکر برگ اور اس کے ساتھیوں نے کیا تھا ۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں دھوم مچایا دیا۔ چند ہی سالوں میں کروڑوں صارفین اپنے نام کرلیے۔ مارک زکربرگ اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی کے طالبعلم تھا اور اس نے یہ سہولت اپنے ہاسٹل کے کمرے سے اپنے چند دوستوں کی مدد سے شروع کی تھی اور اس کا مقصد ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے جاننے کے سلسلے میں طلباءکی مدد کرنا تھا۔

فیس بک کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد اس پر سمندر پار تحقیقات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ اس تحقیقات کی وجہ خود فیس بک پر یوزرز کا آنا اور آتے ہی مسائل سے دو چار ہونا تھا۔ اگرچہ ایشیاء میں فیس بک کو اپنی جڑیں پکڑنے میں کچھ وقت لگا مگر مغربی ممالک کی چونکہ اپنی پیدوار تھی اس لئے وہاں پر اس کے اچھے اور برے اثرات رونما ہونا شروع ہوگئے تھے۔ تاہم ماضی قریب میں واشنگٹن میں جاری ایک تحقیق میںانکشاف ہوا ہے کہ فیس بک کا بہت زیادہ استعمال لوگوں کے اندر حسد کا جذبہ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے، جو تبدیل ہو کر مایوسی میں بدل جاتا ہے۔ تحقیق کے دوران رضاکاروں پر کئے گئے تجربات سے یہ بات سامنے آئی کہ فیس بک کا بہت زیادہ استعمال براہ راست مایوسی یا ڈپریشن کا باعث نہیں بنتا بلکہ صارفین پہلے حاسد بنتے ہیں اور وہ حسد بعد میں ذہنی مرض کا باعث بن جاتا ہے جبکہ ایسے افراد میں جلن اور چرچڑا پن دوسرے افراد کی بانسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔

ایک تحقیق یہ بھی سامنے آئی کہ فیس بک لوگوں کے درمیان لڑائی اور جھگڑوں کا بھی سبب بن رہی ہے اور اس کا ایک واقعہ امریکا میں پیش آچکا ہے، جہاں فیس بک پر ہونے والی لڑکیوں کے دو گروپوں کی لفظی جنگ انہیں حقیقی میدان جنگ میں لے آئی اور اس کے نتیجے میں ایک لڑکی اپنی جان گنوا بیٹھی۔فیس بک پر غیر تحقیق اور جعلی یا گرافک کی مدد سے تشکیل دیا جانے والا مواد بھی بڑی تعداد میں معاشرتی برائیوں کو جنم دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹوں کی بانسبت فیس بک پر اپنا کسی بھی غیر اخلاقی یا غیر قانونی مواد کے ذریعے نہ صرف لوگوںکی ذاتی زندگی میں مداخلت کی جاتی بلکہ فحاشی، عریانی، بے حیائی سے لیکر بلیک ملینگ تک سب شامل ہوتا ہے۔

اپریل 2013کو کینیڈا کے صوبے نووا سکوشیا کی رہائشی 17 سالہ ریہتایہ پارسنز نے اس وقت خودکشی کی جب ایک علیٰحدہ شائع ہونے والی تصویر میں مبینہ طور پر چار لڑکوں کو اس سے جنسی زیادتی کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ لڑکی کی ماں کے مطابق تصویر شائع ہونے کے بعد پارسنز کو بہت زیادہ تنگ کیا گیا جس پر اس کی بیٹی نے خودکشی کر لی۔وہ تصویر اس وقت کھینچی گئی جب وہ لڑکی اس نے شراب پی ہوئی تھی۔ جس کے بعد فیس بک پر پابندی لگا دی گئی۔ فیس بک انتظامیہ کا کہنا تھا کہ تصویر حادثاتی طور پر آن لائن جاری ہو گئی، تاہم وہ ایک کینیڈین لڑکی کی عزت اور پھر جان لے گئی۔

فیس بک کی وجہ سے یوزرز میں آئے روز پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس بات کو خود فیس بک انتظامیہ بھی تسلیم کرچکی ہے۔ جس کے پیش نظر انہیں آنے والے وقت میں فیس بک گرتی نظر آرہی ہے۔ اس سلسلے میں فیس بک نے کام شروع کردیا ہے۔ فیس بک انتظامیہ کے مطابق وہ ایسے افراد سے کی پوسٹوں کو ماہرین کے سامنے تجزئیے کے لئے پیش کرے گی جو مذکورہ صارف کو رہنمائی فراہم کریں گے۔ انتظامیہ کی جانب سے پریشان حال صارف کا فیس بک کو اطلاع دینے کے لئے ایک خصوصی آئی کون فراہم کیا جائے گا جسے کلک کرکے ویب سائٹ کو اطلاع دی جاسکے گی۔مگر یہ کب ہوگا اس بات کا تاحال کوئی پتا نہیں ہے۔

فیس بک پر بہت زیادہ معلومات دینے کو غیر محفوظ سمجھا جارہا ہے۔ محتاط انداز ے کے مطابق 1.4 بلین صارفین کم از کم مہینے میں ایک بار فیس بک پر آن لائن ضرور آتے ہیں کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ تاہم فیس بک کے صارفین کے کوائف یا شخصی معلومات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی فیس بک کی لالچ بدستور بڑھتی جارہی ہے۔ آئے روز نت نئی ایپلی کیشنز کو متعارف کروایا جارہا ہے۔ اس لالچ کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی جرمن حکومت بھی اب نئے اصول و ضوابط سے نمٹ رہی ہے۔ قانونی تحفظ کی کمیٹی کی سطح پر پارلیمانی اراکین اور کوائف کے محافظین نے صارفین کے ڈیٹا کے حوالے سے سوشل نیٹ ورک فیس بک کی سرگرمیوں اور رویے کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

فیس بک یوزرز کے لئے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ وہ فیس بک کو ضرورت حد تک استعمال کریں۔ بے فائدہ اور فضول میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ اپنی شخصی اور ذاتی معلومات کو اپنی حد تک محدود رکھیں ایسے کسی بھی نہ جاننے والے شخص سے اپنی ذاتی معلومات ، اپنا مکمل ایڈریس،فون نمبر وغیرہ دینے سے گریز کریں۔ جدید ٹیکنالوجی کا مقصد زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنا ہے نہ کہ دوسروں کی زندگیوں کو تکلیف سے دوچار کرنا۔ کوشش کی جائے کہ فیس بک سے دوری اختیار کی جائے یا صرف اپنا حلقہ احباب کی حد تک رہا جائے۔ فیس بک استعمال کرتے وقت یاد رکھیں کہ جعلی اکاﺅنٹس بھی بنے ہوئے ہیں اس لئے غیر ضروری اور غیر متعلقہ افراد سے روابط اور مراسم ہرگز نہ جوڑیں۔

Arif Jatoi

Arif Jatoi

تحریر: عارف رمضان جتوئی
03136286827.
arif.jatoi1990@gmail.com