فیس بک۔ بگاڑ کا سب سے بڑا ذریعہ

Facebook

Facebook

تحریر: عبدالوارث ساجد
اور وہ فیل ہوگئی
میٹرک کا رزلٹ آیاتو گھر میں کہرام مچ گیا۔ فاطمہ چار مضامین میں فیل ہوگئی تھی یہ سنتے ہی اس کی ماں نے اسے جی بھر کر پیٹا۔ شام ہوئی ‘ فاطمہ کا باپ گھر آیا تو باپ سے بھی جھڑک پڑی۔ ماں کا کہنا تھا اس کے فیل ہونے کی وجہ صرف اور صرف ”فیس بک”ہے کیونکہ فاطمہ گھنٹوں کے حساب سے انٹرنیٹ پر سماجی رابطے کی بڑی ویب سائٹ ”فیس بک” استعمال کرتی تھی۔ وہ فیس بک پر اپنی تصاویر لگاتی۔ دوستوں کے ساتھ اظہار خیال کرتی اور جو کوئی بھی پسند آتا’ بنا جانے پہچانے اس سے دوستی کرلیتی۔ یہ اس کی روز کی سرگرمی تھی’ دن کو بھی اور رات کو بھی۔ وہ فیس بک پر ہی مگن رہتی’ اسے کھانے پینے اور پڑھنے کی کوئی فکر نہ تھی۔ اس کی امی گھر کے کام میں ہاتھ بٹانے کے لئے کہتی تو وہ پڑھائی کا بہانہ کرکے انہیں ٹال دیتی۔ اس کی امی اپنی جگہ خوش تھی کہ اس کی بیٹی بڑی دلجمعی کے ساتھ پڑھائی کر رہی ہے ۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھی کہ فاطمہ بڑی محنت کرکے انٹرنیٹ سے تعلیم میں مدد لے رہی ہے’ اسے کیا خبر تھی کہ بیٹی محض وقت گزاری کے لئے فیس بک پر بیشتر نوجوان لڑکے لڑکیوں کی طرح کھوئی رہتی ہے۔ رزلٹ آیا تو اس کی آنکھیں کھل گئیں لیکن تب تک پانی سر سے گزر چکا تھا’ اسے اب پتہ چلا تھا کہ اس کی بیٹی ہر وقت ”فیس بک” پر اپنا اسٹیٹس اَپ لوڈ کرتی رہتی ہے یا اپنے دوستوں کی تصویروں پر تبصرہ کرتی رہتی ہے۔ پڑھائی کو نہ توجہ دیتی اور نہ وقت جب سارا دن”فیس بک” پر برباد کرے گی تو امتحان میں پاس خاک ہوگی۔

منگنی ٹوٹ گئی
حیا کا تعلق کراچی کے مذہبی گھرانے سے ہے۔ بڑی تلاش بسیار کے بعد اس کی منگنی کراچی کے ایک نوجوان سے ہوگئی۔ لڑکا ایک ایسی فرم میں کام کرتا تھا جہاں عورتیں بھی کام کرتی ہیں۔ منگنی کے ایک ماہ بعد ہی حیا نے فیس بک پر اپنے منگیتر کا اکاؤنٹ چیک کیا تو اس کی بہت سی تصاویر لڑکیوں کے ساتھ شیئر تھیں’ اس کے فرینڈز میں لڑکیاں بھی شامل تھیں، لڑکی والوں نے یہ سب دیکھ کر لڑکے والوں سے شکوہ کیا تو انھوں نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا چنانچہ لڑکی والوں نے اگلے روز ہی منگنی توڑ دی۔

بہن کے منہ پر تھپڑ
لاہور کی رخسانہ تبسم وہ دن کبھی نہیں بھول سکتی جب اس کے بھائی نے سب گھر والوں کے سامنے اسے تھپڑ مارا۔ وہ شام کو جس اکیڈمی میں پڑھنے جاتی تھی’ اس اکیڈمی کا فیس بک پر بھی اکاؤنٹ تھا۔ ایک روز اس نے وزٹ کیا تو کئی سٹوڈنٹ اکیڈمی کے فرینڈز کی لسٹ میں تھے۔ رخسانہ بھی ان میں شامل ہوگئی۔ وہیں اس کی بات چیت رضوان سے بڑھنا شروع ہوگئی۔ رضوان سے دوستی کے بعد انھوں نے ایک دوسرے سے تصاویر بھی شیئر کیں۔ آخر ایک روز اس کے پاؤںتلے سے زمین نکل گئی جب اس نے دیکھا کہ رضوان نے اس کی تصویر کوا یڈٹ کر کے اسے عریاں کر دیا تھا تاکہ رخسانہ کو بلیک میل کر سکے۔ اسی بات پر ان کی لڑائی ہوئی تو وہ تصاویر رضوان نے اَپ لوڈ کر دیں۔ یہ تصویر اس کے بھائی نے بھی دیکھ لی۔ اور پھر رخسانہ کو سب گھر والوں کے سامنے نہ صرف مار کھانا پڑی بلکہ بے عزتی الگ سے ہوئی۔

Friendship

Friendship

فیس بک پر دوستی کا نتیجہ
گوجرانوالہ کی خصوصی عدالت میں اس روز بہت رش تھا’ جو سنتا توبہ توبہ کرتا’ وہاں ایک ایسی لڑکی کو پیش کیا گیاتھا جس پر الزام تھا کہ وہ فیس بک پر لڑکوں سے دوستی کر کے انہیں ڈیٹ پر بلاتی ہے اور پھر اغوا کر کے پیسے بٹورتی ہے۔ خصوصی عدالت نے فیس بک پر امیرزادوں سے دوستی اور ڈیٹ پر بلوا کر لاکھوں روپے تاوان کے لیے اغوا کرنے والی گجرات یونیورسٹی کی اس طالبہ سمیت پانچ ملزموں کو 4روزہ جسمانی ریمانڈ پر بھیج دیا۔ پولیس نے ملزمہ شیزہ سے تاوان کی رقم میں سے ایک لاکھ روپے برآمدبھی کیے۔

فیس بک پر روز بروز پیش آنے والے واقعات کی یہ چند جھلکیاں ہیں۔ اس ایک ویب سائٹ کی وجہ سے جتنا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لڑکیوں کی لڑکوں سے دوستیاں اور اس کے بعد لڑکیوں کا گھروں سے فرار ہونا’ موبائل فون کے بعد اب فیس بک سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے … خاص طور پر نوجوان اور نوجوانوں میں بھی طلباء کا طبقہ گمراہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ رشتوں میں تقدس ختم ہو رہا ہے اور اغوا و ڈکیتی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

دوستی کی آڑ میں
گزشتہ دنوں فیس بک پر ہی لڑکے کے اغوا کی ایک افسوس ناک خبر سامنے آئی۔ نیو ٹاؤن کراچی کا 13سالہ مصطفی فیس بک استعمال کرتا تھا۔ وہیں اس کی دوستی کراچی کے ہی ایک لڑکے ارسلان سے ہوگئی اور دونوں دوستوں کی فیس بک پر خوب گپ شپ ہوتی تھی۔ جب اس کے دوست کو پتہ چلا کہ لڑکا امیر ہے تو اس نے مصطفی کو اغوا کرنے کا پروگرام بنایا اور طے شدہ منصوبہ کے تحت ایک روز اسے ملنے کا کہا۔ مصطفی نئے دوست سے ملنے ڈیفنس گیا جہاں ارسلان کے بھائی تیمور نے اسے اغوا کر لیا اور رہائی کے لیے اس کے گھر والوں سے پانچ کروڑ روپے تاوان طلب کیا۔بات پولیس تک پہنچی تو انھوں نے ملزمان کا سراغ لگا نا شروع کیا اور آخر نشاندہی پر جب چوکی کے قریب کارروائی کر کے مغوی مصطفی کو بازیاب کرالیا، مقابلے کے دوران 4اغوا کار مارے گئے ایک اغوا کار بھی زخمی ہوا اور فائرنگ کے تبادلے میں 2پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ مصطفی کی واپسی کے بعد اس کی والدہ نے اپیل کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کے سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کے استعمال پر پابندی لگا دیں۔

Robber

Robber

فیس بک پر ڈاکو بھی سرگرم
ایسا ہی ایک واقعہ گوجرانولہ میں بھی پیش آیا جہاں فیس بک پر ایک منظم گروہ لڑکیوں کے ذریعے بہت سے نوجوانوں کو لوٹ چکا تھا ۔ ایک دن خبر آئی کہ گوجرانوالہ کی لڑکی کے ذریعے ٹیلی فون اور فیس بک پر دوستی کر کے لڑکوں کو اغوا کر کے تاوان وصول کرنے والا گروہ پکڑا گیا ہے اور ان کے قبضے سے 9لاکھ روپے، متعدد سمیں اور کاریں برآمد کر لیں گئیں،حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ملزمان میں ایس ایچ او کا بیٹا، کانسٹیبل اوروکیل شامل ہیں۔ یہ سب کچھ یوں ہوا کہ ایک روز تتلے عالی کے رہائشی محسن وقار نے تھانہ صدر گوجرانوالہ میں درخواست دی کہ اس کے بھائی احسن وقار کو 22اگست سے نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا ہے۔ ملزموں نے اس کی رہائی کے لیے 17لاکھ تاوان وصول کیا، تاوان لینے کے بعد اس کے بھائی کو تھانہ صدر کے علاقہ میں ہی چھوڑ دیاگیا، مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس نے موبائل کال ٹریس کرتے ہوئے ایک خاتون اور اس کے خاوند عدیل اکبر سمیت 5ملزمان کو گرفتار کر لیا۔اس کے بعد سی سی پی او گرجوانوالہ راجہ رفعت مختار نے بتایا کہ گرفتار ملزمان نے انکشاف کیا کہ عدیل اکبر اپنی بیوی شیزا کی ٹیلی فون اور فیس بک کے ذریعے لڑکوں سے دوستی کرواتا تھا اور لڑکی سے ملنے کے بہانے لڑکوں کو بلا کر انہیں اغوا کر لیتا تھا۔ ملزمان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انھوں نے کامونکی کے 2لڑکوں احمد رضا اور عامر سہیل کو بھی اس طرح اغوا کیا اور 10لاکھ تاوان وصول کیا تھا۔گرفتار ہونے والے لوگ کوئی ان پڑھ جاہل ڈاکو نہ تھے بلکہ ملزمان کے سرغنہ عدیل اکبر نے قانون کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے جب کہ اس کی بیوی شیزا آئی کام کی طالبہ ہے، ان کے ایک ساتھی عمر عرف رومی کا والد آصف ندیم ایس ایچ اوہے، ان کا چوتھا ساتھی محمد عامر کانسٹیبل ہے۔ ملزمہ شیزا نے بتایا کہ میں صرف فون پر ایک بار بات کرتی تھی، دیگر کام میر اشوہر اور اس کے ساتھی کرتے تھے، تاوان کی رقم وصول کرنے کے بعد اپنے شوہر کے ہمراہ سوات اور کاغان گھومنے گئی۔

والدین کی ذمہ داری
جب ایسی ویب سائٹ پر گھناؤنے جرائم پیشہ افراد کے ٹھکانے بن جائیں تو لامحالہ والدین کو اپنی آنکھیں کھول لینی چاہئیں اور جس قدر یہ گندے لوگ سرگرم ہیں اس کے پیش نظر اپنے بچوں کو تحفظ کے لیے ان پر نظر رکھنی چاہیے کہ ان کی اولاد کیا پڑھ رہی ہے’ کیا دیکھ رہی ہے۔والدین کو پڑھنے کے لئے بچوں کو انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت کے ساتھ ساتھ بچوں کی باقاعدہ نگرانی بھی رکھنی چاہئے بلکہ کمپیوٹر’ لیپ ٹاپ ایسی جگہ پر ہوں جہاں آتے جاتے نگاہ رکھی جا سکے۔ ایسے میں حکومتی اداروں کو بھی سخت انٹرنیٹ پالیسی تشکیل دینی چاہئے۔ نامناسب صفحات پر پابندی لگائی جائے اور اگرکوئی ایسا صفحہ ہو جہاں غلط معلومات فراہم ہوں’ اس کے خلاف فوری کارروائی ہو۔ اب تو شاید ہی پاکستان کا کوئی گھر ہو جس کا کوئی فرد فیس بک ٹوئیٹر جیسی سوشل ویب سائٹ استعمال نہ کرتا ہو۔ طلباء میں تو فیس بک کے جراثیم حد سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ وہ آنے والے خطرے سے بے خطر فیس بک استعمال کرتے ہیں اور اپنے حالات و واقعات، خاندان بھر کی سرگرمیاں ‘خوشی غمی کی تمام خبریں، دن رات کے احوال سب کچھ دوستوں کے ساتھ شیئر ہوتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں بھی کچھ کم پیچھے نہیں۔ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ فیملی تصاویر تک شیئر کرتی ہیں جس کا بعد میں بہت ہی بھیانک نقصان سامنے آتا ہے۔ فیس بک کے لوگوں میں بڑھتے رحجان ہی کے پیش نظر اس ویب سائٹ پر گھناؤنے کام کرنے والے لوگوں نے ڈیرے جما لیے ہیں۔ ان کی تعداد دیکھیں تو آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ جاتی ہیں۔

لوگوں کے جعلی اکائونٹ
فیس بک کے مطابق اس ویب سائٹ پر اس وقت آٹھ کروڑ تیس لاکھ سے زائد غیر قانونی اکاؤنٹس یا جعلی صارفین ہیں۔ فیس بک کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت فیس بک کے صارفین کی تعداد پچانوے کروڑ پچاس لاکھ ہے اور ان میں سے آٹھ اعشاریہ سات فیصد نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ دوہرے اکاؤنٹس یا دوہری شناخت رکھنے والے صارفین کل تعدا کا چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ کاروبار یا پالتو جانوروں کے لیے ذاتی پروفائلز یا معلومات کا غیر درجہ بندی تناسب دو اعشاریہ چار فیصد ہے جب کہ ایک اعشاریہ پانچ فیصد صارفین کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ فیس بک کی جانب سے یہ اعداد و شمار ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب اس پر دیے جانے والے اشتہارات کے مؤثر ثابت ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ فیس بک کے مطابق دوہرے اکاؤنٹس وہ ہیں جس میں صارف اپنے بنیادی اکاؤنٹ کے علاوہ دوسرے اکاؤنٹ کو استعمال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ناپسندیدہ اکاؤنٹس وہ ہیں جس میں صارف جعلی نام استعمال کرتا ہے اور ایسا کرنے کا ارادہ کمپنی کے سپیمنگ جیسے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ فیس بک کے کاوباری ماڈل کا انحصار اشتہارات کے ایک مخصوص انداز پر ہے اور اس میں صارفین کی جانب سے مصنوعات یا اشتہارات کو پسند کرنے کے طریق کار کی چھان بین کو مزید سخت کیا جارہا ہے۔ فیس بک کے مطابق آمدنی کا ایک معقول حصہ اشتہارات سے حاصل کیا جاتا ہے اور اشتہارات سے محروم ہونا یا فیس بک پر اشتہار دینے والوں کی تعداد میں کمی سے ہمارے کاروبارپر انتہائی بُرا اثر پڑسکتا ہے۔

فیس بک پر لائیکس حاصل کرنے کے لیے اشتہارات دینے پر کمپنیاں خطیر رقم ضائع کر رہی ہیں جن کا شاید ان کی مصنوعات سے دُور تک کا تعلق نہیں ہے۔ اس حوالے سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جعلی کمپنی کو پسند کرنے والے صارفین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق مشرق وسطیٰ اور ایشیا سے تھا۔ اس میںکئی صارفین نقلی تھے جیسا کہ احمد رونالڈو جو بظاہر مصر میں مقیم تھے۔اور ایک ہسپانوی فٹبال کلب رئیل میڈرڈ کے ملازم تھے۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے ایک ڈیجیٹل ڈسٹری بیوشن لمیٹڈ پریس نے اپنے طور پر ایک سافٹ وئیر کے ذریعے کی گئی تحقیق میں فیس بک پر الزام لگایا تھا کہ اس کے اشتہارات کو پسند یا کلک کرنے والوں کی 80فیصد تعداد جعلی تھی۔ دوسری جانب یہ شکایات بھی بڑھ رہی ہیں کہ مرد خواتین تصاویر اور نام استعمال کر کے جعلی اکاؤنٹ بنا رہے ہیں۔ جب کہ فیس بک انتظامیہ اس اقدام کو روکنے کا کوئی مؤثر اقدام کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔

Womens

Womens

خواتین کے لئے لمحہ فکریہ
حیرت انگیز اور افسو ناک بات یہ ہے کہ دھوکے دہی کے اس بازار میں جانے کے لیے پھر بھی نوجوان نسل دھڑا دھڑ آگے آرہی ہے۔ نہ اسے روکنے والے والدین ہیں نہ ان کا خیر خواہ کوئی اور طبقہ ۔حالانکہ پاکستان میں سوشل میڈیا خصوصاًفیس بک استعمال کرنے والے سینکڑوں صارفین روزانہ بلیک میلنگ اور ہیکنگ کا شکار ہو رہے ہیں۔ بلیک میلنگ کا شکار ہونے والے صارفین میں 95فیصد خواتین ہیں۔ پاکستان بھر میں خصوصاً شہر کراچی میں فیس بک کے ذریعے خواتین کو بلیک میل کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ایک ماہر شاہد عباسی نے بتایا کہ فیس بک اکاؤنٹ میں خواتین کی اپ ڈیٹ کی ہوئی تصاویر کو بعض لوگ ایڈٹ کر کے ایسی تصاویر میں بدل دیتے ہیں جو کسی کو دکھانے کے قابل نہیں ہوتیں۔ اس طرح کے افراد خواتین کو یہ کہہ کر بلیک میل کرتے ہیں کہ اگر خواتین نے ان کا کہا نہ مانا تو ان کی ایڈٹ کی گئی تصاویر کو فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر مشتہر کر دیا جائے گا۔ یہ تصاویر ان کے گھر بھی بھیج دی جائیں گی جس کی وجہ سے خواتین خصوصاً کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی طالبات اس طرح کے ملزمان کے ہاتھوں بلیک میلنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بلیک میلر افراد زیادہ تر فیک (جعلی) اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہیں جس سے ان کا پکڑا جانا مشکل ہوتا ہے۔ ایف آئی اے سائبرکرائم سرکل نے حال ہی میں عزیز آباد کراچی میں کارروائی کرتے ہوئے ایک ملزم حفیظ کو گرفتار کیا ہے جس نے فیک (جعلی) اکاؤنٹ کے ذریعے ایک لڑکی کی برہنہ تصاویر بنا کر فیس بک اور لڑکی کے قریبی عزیزوں کے اکاؤنٹس پر شیئر کی تھیں۔

زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے
زمانہ جس تیزی سے ترقی کے ادوار طے کر رہا ہے’ روز بروز نت نئی ایجادات منظر عام پر آرہی ہیں۔ فیس بکس’ ٹوئٹر جیسی سائٹس جہاں لوگوں کے درمیان باہمی رابطے کو فروغ دیتی ہیں’ وہیں ان کے باعث منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ نوجوان ان سوشل ویب سائٹس کے عادی ہوچکے ہیں اور ہر عمرو سن کے افراد انہیں استعمال کر رہے ہیں۔ کم عمر بچے’ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں’ گھریلو خواتین ‘ مرد غرض تمام ہی عمروں کے لوگوں میں ان کا استعمال دن بدن بڑھ رہا ہے۔ بغیر کسی مقصد کے ان کااستعمال وقت کا ضیاع اور نقصان کا باعث ہے۔
فیس بک دنیا بھر کی طرح پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا سماجی رابطہ ہے۔ والدین کی کثیر تعداد کے مطابق یہ ویب سائیٹ کم عمر بچوں اور نوجوان نسل کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ فیس بک کے منفی اثرات پر روشنی ڈالیں تو سب سے پہلے تعلیمی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے’ نوجوان گھنٹوں فیس بک پر بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں ‘ مختلف کمپیوٹر گیمز اور پسندیدہ صفحات ”Like” کرتے ہیں۔ کبھی دوستوں اور عموماً اجنبیوں سے بات چیت میں وقت گزارتے ہیں۔ فیس بک کی یہ لت تیزی سے پاکستان میں پھیل کر ایک بڑے مسئلے کو پیدا کر رہی ہے جو پاکستانی والدین کے لئے سنگین پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔
فیس بک پر بچے مختلف صفحات پر جاکر غیر ضروری کمنٹس کرتے ‘ اپنی عمر سے بڑے بڑے موضوعات زیر بحث لاتے ہیں۔ فیس بک کے استعمال کا باقاعدہ طریقہ معلوم نہ ہونے پر بہت سے لڑکے لڑکیاں ہیکرزکے جال میں پھنس رہے ہیں۔ نوجوان لڑکوں لڑکیوں کی بڑی تعداد کو اکائونٹ محفوظ بنانے’ پرائیویسی سیٹ کرنے کا درست طریقہ معلوم نہیں ہوتا۔ نوجوان لڑکیاں بغیر پرائیویسی سیٹ کئے تصاویر شیئر کر رہے ہوتے ہیں جن کا ہیکرز باآسانی غلط استعمال کرتے ہیں۔

”فیس بک” دین سے دوری کا سبب بھی
رات دن گھنٹوں کے حساب سے بلامقصد انٹرنیٹ کا استعمال جسمانی حرکت کے نہ ہونے سے بھوک کو بڑھاتا ہے جو جسم کی کمزوری کا سبب بنتا ہے۔ سب سے بڑا نقصان پڑھائی کامتاثر ہونا’ مکمل وقت نصاب کو نہ دے پانااور ذہنی یک سوئی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ صرف جلد بازی میں اپنا ہوم ورک محض خانہ پری کے لئے کیا جاتا ہے۔ ایک بڑا نقصان نوجوانوں کی دین سے دوری بھی ہے۔ جو وقت نماز وقرآن کا وقت ہے’ وہ فیس بک کے غیر معیاری صفحات پر کمنٹس کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ اس دوران نوجوانوں پر جنون کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ بارہا اپنا کائونٹ چیک کرتے ہیں نوجوان محض فیس بک پروفائل کی بنیاد پر ایک دوسرے کو جانتے ہیں جو اکثرجھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ فیس بک پر اخلاقی ضابطے کے نہ ہونے سے بچے وقت سے پہلے ذہنی و جسمانی بلوغت کو پہنچ رہے ہیں۔ مغربی روایات جن میں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کا رجحان ہے’ پاکستانی معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔

آج کے جدید دور میں کسی بھی طرح رابطے کے ان ذرائع سے انکار ممکن نہیں۔ ایجادات تو ہوتی ہیں انسان کی آسانی اور ترقی کے لئے۔ یہ انسان کی اپنی ذات پر منحصر ہے’ وہ کب ‘کیسے اور کس طرح اسے اپنے لئے کارآمد بناتا ہے۔ ہم فیس بک کو یک سر خراب یا منفی بھی نہیں کہہ سکتے لیکن ہمیں اس کے استعمال کا باقاعدہ طریقہ کار طے کرنا ہوگا جس کی ذمے داری گورنمنٹ ‘والدین اور خود نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے۔

Abdul Waris Sajid

Abdul Waris Sajid

تحریر: عبدالوارث ساجد