آخر ہم کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟

Quetta Blast

Quetta Blast

تحریر : سید توقیر زیدی
سفاک دہشت گردوں نے کوئٹہ میں دہشت گردی کی دو وارداتوں میں وکلائ’ صحافیوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے 70بے گناہوں کو شہید اور تقریباً اتنے ہی لوگوں کو زخمی کردیا۔ دہشت گردی کی پہلی واردات میں پیر کی صبح بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر بلال انور کاسی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور جب انکی میت سول ہسپتال کوئٹہ لائی گئی تو ہسپتال کی ایمرجنسی کے مرکزی دروازے پر خودکش حملہ آور نے ہجوم کے بیچ میں آکر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس وقت وکلائ’ صحافیوں’ مختلف ٹی وی چینلز کے کیمرہ مینوں’ پولیس اہلکاروں اور دیگر افراد سمیت کثیر تعداد میں لوگ جمع تھے جو خودکش دھماکے کی زد میں آئے۔ جاں بحق ہونیوالوں میں بلوچستان بار کے سابق صدر’ ڈان ٹی وی کے کیمرہ مین اور متعدد وکلاء اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ زخمی ہونیوالوں میں بھی وکلائ’ صحافی اور سرکاری اہلکار شامل ہیں۔ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

اس لئے جاںبحق ہونیوالے افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سول ہسپتال میں خودکش دھماکے کے فوری بعد شدید فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا جس سے ہسپتال میں بھگدڑ مچ گئی۔ دہشت گردی کی اس واردات کے بعد مشتعل افراد نے احتجاج کرتے ہوئے ہسپتال کے مختلف شعبوں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی جس کے نتیجہ میں طبی سہولیات کی فراہمی کے سامان اور دوسرے دفتری سامان کو نقصان پہنچا۔ وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگتی نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ سول ہسپتال میں دہشت گردی کی واردات خودکش حملہ تھا جس میں 15 سے 20 کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔

صدر ممنون حسین’ وزیراعظم نوازشریف’ وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری’ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سمیت ملک کی متعدد حکومتی اور سیاسی شخصیات نے بلوچستان میں دہشت گردی کی واردات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردی کا یہ بزدلانہ واقعہ ہے جس میں ملوث افراد کو معاف نہیں کیا جائیگا اور ہم کسی کو بلوچستان کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بلوچستان میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستان بار کونسل’ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن’ ملک بھر کی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنوں اور بار کونسلوں نے کوئٹہ دہشت گردی کیخلاف اپنے اپنے پلیٹ فارم پر احتجاجی مظاہرے کئے۔ سپریم کورٹ بار نے اس واقعہ کیخلاف سات روزہ اور لاہور ہائیکورٹ بار نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔

Ali Zafar

Ali Zafar

صدر سپریم کورٹ بار علی ظفر نے کہا کہ یہ دہشت گردی صرف وکلاء کیخلاف نہیں بلکہ ملک کے ہر شہری پر حملہ کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی کوئٹہ دہشت گردی پر دلی صدمے اور افسوس کا اظہار کیا اور اس واقعہ کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کرلی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کوئٹہ دہشت گردی کی اطلاع ملتے ہی اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے سول ہسپتال کوئٹہ پہنچ گئے’ زخمیوں کی عیادت کی اور جاں بحق و زخمی افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نوازشریف بھی پیر کی شام اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچ گئے اور زخمیوں کی عیادت کرنے کے بعد امن و امان کے حوالے سے ہنگامی طور پر طلب کئے گئے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی جس میں دہشت گردی کے تدارک کیلئے بعض ضروری اور فوری اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔

دہشت گردی کی اس گھنائونی واردات نے بلاشبہ پوری قوم کو سوگ میں مبتلا کر دیا ہے اور قومی’ سیاسی’ عسکری قیادتیں بھی اس سانحہ پر دل گرفتہ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس عزم کا اعادہ بھی کیا جارہا ہے کہ دہشت گرد ہمارے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے اور ہم عوام کی مدد سے دہشت گردوں کو شکست فاش سے دوچار کرینگے۔ حکومتی اور عسکری قیادتوں نے اس سانحہ عظیم کے بعد بھی یہ روایتی فقرہ دہرایا ہے کہ آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ جاری رکھیں گے جبکہ اسکے برعکس دہشت گرد حکمرانوں اور مقتدر طبقات کے ان دعوئوں پر چوٹ لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد جس گھنائونے انداز میں ہسپتال میں خودکش دھماکہ کیا گیا’۔

اس سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہ دونوں وارداتیں کی ہیں’ انہیں یقین تھا کہ بار کے صدر کی نعش ہسپتال لے جائی جائیگی تو وہاں لوگوں کا ہجوم موجود ہوگا جو انکے دہشت گردانہ مکروہ عزائم کا آسانی کے ساتھ چارہ بن جائینگے۔ خودکش حملہ آور کا پہلے ہی سول ہسپتال میں موجود ہونا دہشت گردوں کی پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کی غمازی کرتا ہے جبکہ خودکش حملے کے فوری بعد فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دہشت گرد کافی تعداد میں ہسپتال میں موجود تھے جنہوں نے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی۔

RAW

RAW

اس ننگی بربریت میں بھارتی ایجنسی ”را” کے ملوث ہونے کا امکان بعیدازقیاس قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وہ گوادر پورٹ کیلئے پاکستان چین مشترکہ اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاڑ کرنے کی شروع دن سے بدنیتی رکھتا ہے’ اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ یہ دہشت گردی سی پیک کو نشانہ بنانے کی سازش ہو سکتی ہے۔ حکومتی ایجنسیاں بھی ان خطوط پر تفتیش کررہی ہیں تاہم اس حقیقت سے کیسے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد چاہے جو بھی ہوں’ انہیں ہمارے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں میں موجود خامیوں سے ہی فائدہ اٹھانے اور اپنے متعینہ اہداف تک کامیابی سے پہنچنے کا موقع ملتا ہے۔

اگر سکیورٹی کے اداروں کے خود دہشت گردی کی زد میں آنے کے باوجود دہشت گردوں کو آج بھی کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے تو یہ صورتحال ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے اور اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے تدارک کیلئے مشترکہ طور پر تیار کئے گئے نیشنل ایکشن پروگرام پر ابھی تک اسکی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

اس پروگرام کے تحت تشکیل دی گئی خصوصی فوجی عدالتیں تو اپنی میعاد پوری ہونے کے باعث ختم ہوچکی ہیں مگر دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور سرپرستوں تک کی سرکوبی اور انتہائ پسند تنظیموں کی بیرونی فنڈنگ کی سکروٹنی کرنے سے متعلق شقیں ابھی تک عملدرآمد کی منتظر ہی نظر آتی ہیں جبکہ امن و امان کی بحالی کے اقدامات اور امور حکومت و مملکت کی انجام دہی کے معاملات میں حکومتی اور عسکری قیادتیں ایک صفحے پر نظر نہیں آتیں تو اس سے دہشت گردوں کو ریاستی اتھارٹی کے کمزور ہونے کا پیغام ملتا ہے چنانچہ انہیں اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔

Pak Army

Pak Army

یہ درست ہے کہ ہماری سکیورٹی فورسز کو اپریشن ضرب عضب اور کراچی کے رینجرز ٹارگٹڈ اپریشن میں دہشت گردوں کی سرکوبی کے حوالے سے نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اسی بنیاد پر آرمی چیف نے موجودہ سال کو دہشت گردی کے خاتمہ کا سال قرار دے رکھا ہے مگر یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ دہشت گردی کے تدارک کی حکمت عملی میں سول اور عسکری قیادتوں کی یکسوئی کہیں نظر نہیں آتی اور انکے اپنے اپنے اقدامات’ اعلانات اور فیصلوں سے یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس تناظر میں کوئٹہ دہشت گردی کے موقع پر بھی سول اور عسکری قیادتوں کی پوائنٹ سکورنگ کی پالیسی ہی کارفرما نظر آتی ہے کہ آرمی چیف دہشت گردی کی واردات کے بعد بلاتاخیر کوئٹہ پہنچ گئے اور زخمیوں کی عیادت کے بعد اپنے طور پر سکیورٹی انتظامات سے متعلق فیصلے کئے۔

جبکہ وزیراعظم میاں نوازشریف انکی اس سرگرمی کے بعد کوئٹہ پہنچے اور زخمیوں کی عیادت کے بعد سیکورٹی انتظامات کیلئے اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا۔ اگر سکیورٹی انتظامات سے متعلق فیصلے نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت باہمی اتفاق رائے سے کئے جائیں تو اس سے دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کو بھی ریاستی اتھارٹی کی مضبوطی کا سخت پیغام جا سکتا ہے۔ مگر سکیورٹی انتظامات کے تمام تقاضے ہماری بے رحم سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں اور دہشت گرد بے گناہ عوام کا خونِ ناحق بہاتے حکومتی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔

اس وقت بلاشبہ دہشت گردی کا خاتمہ ہی ہماری ترجیح اول ہونا چاہیے جس کیلئے بالخصوص پاکستان افغانستان سرحد کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے جو بھی انتظامات ممکن ہیں وہ بلاتاخیر مکمل کرلئے جائیں اور کابل انتظامیہ کی ممکنہ مزاحمت کی بھی پرواہ نہ کی جائے کیونکہ یہ شہریوں کی جانوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی کا بھی سوال ہے جس پر کسی قسم کی مفاہمت کی ضرورت ہے نہ کوئی نرم رویہ اختیار کیا جائے۔ ہم پاکستان افغان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت روک کر ہی دہشت گردی کے پھیلتے ناسور کے آگے بند باندھ سکتے ہیں ورنہ ہمیں آئے روز کوئٹہ دہشت گردی جیسے سانحات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اب محض زبانی جمع خرچ کی نہیں’ عملیت پسندی اور مشترکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے جس میں اب کسی پس و پیش کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے۔ آخر ہم کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔۔۔۔۔؟

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی