کسانوں کو گندم کی فروختگی میں زبردست نقصان

Wheat

Wheat

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
سرکاری بے حسی خصوصاً پنجاب حکومت کی لاپرواہیوں سے سنہرے خوشوں والی گندم کی بوائی کرنے والا کسان خون کے آنسو رو رہا ہے اسے مڈل مین یعنی درمیان میں موجود سود خور سرمایہ دار اور آڑھتی صاحبان دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیںاور اسے گندم کی فروختگی پر اونے پونے دام ہی دے رہے ہیں یہ سراسر حکومتی بیوقوفانہ غلیظ مفاد پرست پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ امسال گندم فروخت کرنے کے لیے کسان مارے مارے پھر رہے ہیں اور وہ سستے داموں گندم فروخت کرنے پر مجبور محض ہیں حکومت کی سرکاری گودواموںپر خریداری کی مہم اپریل کے تیسرے ہفتے میں بھی شروع نہ کرنا صرف مڈل مین کو نوازنے کے لیے ہی ہے۔

سرکاری خریداری کا عمل اب تک مناسب طریقے سے شروع نہ کیا جاسکناحکومتی ناکامی کا واضح ثبوت ہے کاشتکار کو اگلی فصل کی بوائی زمین کی تیاری اور کھاد بیج کی خریداری کے لیے فوری رقم کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ فوراًگندم فروخت نہ کرے تو وہ آئندہ فصل بونہیں سکتا اور گھریلو خرچہ کے بل تو ویسے ہی منہ چڑا رہے ہوتے ہیں وہ نہ ہی آڑھتیوں کا کھادوں والا ادھاراگر گندم کو فوری نہ بیچے تو ادا کرسکتا ہے اس لیے کسان بیچارا مرتا کیا نہ کرتا کی طرح فوری گندم فروخت کرنا اس کی ضروری مجبوری ہے اس طرح کاشتکار کو ان دنوں ایک ہزار روپے یا اس سے بھی کم قیمت پردرمیانی ٹھگ نما گروہوں ،سرمایہ دار طبقوں یا پھر آڑھتیوں کو گندم بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیںاس طرح کسان بیچارے ایسی رقوم پر گندم بیچ کر فی بوری آٹھ سو روپے نقصان برداشت کررہے ہیں صوبائی و وفاقی حکومتوں کی نااہلی کے باعث کسانوں کو باردانہ کی تقسیم کا عمل بھی شروع نہ ہوسکا۔

باردانہ ہر صورت محکمہ خوراک کے ذمہ داران فروخت کرکے ہر سال کروڑوں روپیہ کماتے ہیںجب کہ کسانوں کو مفت سپلائی کرنا بھی ان کی اصل ذمہ داری ہے اب ملک بھر کے کسان ایسی حکومتی نا اہلیوں اور غلط منصوبہ بندیوں کے خلاف احتجاج نہ کریں تو اور کیا کریں؟ وہ سڑکوں پر نکلیں تو ٹریفک کا مسئلہ گھمبیر صورتحال اختیار کرسکتا ہے اگر مسائل میں گھرے کسانوں کے ساتھ بے روزگارمزدور بھی شامل ہو گئے تو حکمرانوں کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا مسئلہ کھڑا ہو جائے گاموجودہ پالیسیوں کو کسان دشمن پالیسی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ کسانوں کو خوامخواہ تنگ کرکے حکمران ان سے پتہ نہیں کون کون سے بدلے رہے ہیں؟دوسری طرف عارضی کھلے آسمان تلے سرکاری گوداموں اور پکے غلہ گوداموں میں پچھلے سال کا بھی سٹاک موجود ہے جس کو ابھی تک نہیں اٹھایا گیا اب نئی گندم کہاں رکھی جائے گی یہی ملٹی ملین سوال ہے جس کو کوئی جواب نہ ہے یہ سوال بھی بہت اہم ہے۔

اگر کھلے آسمان تلے گندم رکھنا مقصود ہے تو مناسب حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو اربوں روپے کی گندم بارشوں کے موسم میں تباہ ہو کر ملک میں قحط کی صورتحال سے بھی عام فرد دوچار ہو سکتا ہے ۔عموماً کھلے آسمان تلے بنائے گئے نام نہاد گندم گوداموں پر متعلقہ محکمہ خوراک کے ذمہ داران سرکاری طور پر دی گئی رقوم کا وافر حصہ ہڑپ کر جاتے ہیں نہ ان عارضی گوداموں کو اونچی جگہ پر مناسب طریقے سے اس کا فرش بناتے ہیں اور نہ ہی اسے موسمی تغیرات سے بچانے کے لیے مناسب انتظامات کرتے ہیں اس طرح ہر سال اربوں روپے محکمہ فوڈ کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں اور ہر سال ہی عدم تحفظ کا شکار گندم خراب ہوتی رہتی ہے مگر حکمرانوں کو “تجھے پرائی کیا پڑی ۔اپنی نبیڑ تو” کی طرح وہ ایسے مسائل پر کیا توجہ کریں انھیں تو پانامہ لیکس بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ نے ہی نک و نک کر رکھا ہے اسے کسانوں کے مسائل سے نپٹنے کی فرصت کہاں۔یہ بات بالکل عیاںہے جب ملک میں چل چلائو کا دور ہو اور حکمران بھی اپنے ذاتی مسائل کی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہوں تو کسان بیچاروں کا کون پرسان حال ہوگا۔

محکمہ خوراک کے اندرونی حلقوں سے چھن چھن کر جو خبریںآئوٹ ہورہی ہیں ان کے مطابق تو اب تک ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولروں اور ڈویژنل ذمہ داران پر پرانے لین دین کے جھگڑے چل رہے ہیں ان کا سابق رشوت بھرا مکروہ کاروبارہی نہیں سمٹ کر پایہ تکمیل کو پہنچ رہاتو وہ اپنے موجودہ سال کے کاروبار پر کیوں توجہ مبذول کریں؟ آپ یہ سن کر سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ محکمہ فوڈ کے ضلعی و ڈویژنل ذمہ داران ہر سیزن پر بالترتیب دو کروڑ اور چھ کروڑکی “نیک کمائیاں ” کرتے ہیں پھر اوپر تک حصہ بقدر جسہ پہنچانے کے بھی انتہائی ماہر ہیں ایسے سلسلوں میں قطعاً ہیرا پھیری سے کام نہیں لیتے جتنا فیصد جہاں پہنچنا ہے وہ ہر ہفتے باقاعدگی سے پہنچایا جاتا ہے تاکہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ چوکھا آوے اب سرکاری خرید کی رقم 1300روپے فی من رکھنے کا کیا فائدہ اگر بہت دیر بعد اس ریٹ پر گندم خریدنے کا عمل شروع ہودیر صرف اس لیے کی جاتی ہے تاکہ درمیانی طبقہ جو کہ ہزاروں من گندم اونے پونے داموںخرید لیتا ہے تو اس سے 1300روپے من گند م خریدتے وقت فوڈ کے ذمہ داران150,200روپے فی من رشوت نما بھتہ باآسانی وصول کرسکیں مڈل مین نے کم ازکم تین سو روپے کمایا تھا تو اسے 150,200روپے دینے میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی اس نے اگر20ہزار من گندم بھی اونے پونے داموں خرید کر اسے سرکاری گوداموں میں فروخت کرڈالا تو کم ازکم 20لاکھ روپے تو پھر بھی بچ رہیں گے۔

رت جگے میں پانی کسان نے لگایازمین کو سیراب کیا حل چلایا بوائی چھدرائی کھاد سب کچھ کسان نے خود کیا اس کے خرچے تک پورے نہ ہو سکے مگر مڈل مین، آڑھتی صاحبان ٹائپ طبقہ اورمحکمہ خوارک کے افسران درمیان سے ہی اربوں روپے اڑا لے جاتے ہیں کسان بدستور آڑھتیوں کے سالہا سال سے مقروض چلے آرہے ہیں بڑی مچھلیوں کے تو اربوں روپے معاف بنکوں سے ہوجاتے ہیں مگر کسانوں کے قرضے معاف کروانے والا شخص شاید ابھی ماں نے نہیں جنا ۔بنک بھی کسانوں کو مرکب سود در سود کے تحت قرضے دیکر دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر کنگال کرڈالتے ہیں آڑھتی اور مڈل مین امسال 300روپے فی من ہی نہیں کمارہے بلکہ چار پانچ کلو کا بٹہ بھی ساتھ لگتا ہے یعنی کتوتی کروانی پڑتی ہے ایک من گندم تولی گئی تو35,36کلو درج کریں گے یا پھر ایک من چار پانچ کلوکو ایک من حساب سے تحریر کیا جاتا ہے پاسکو نے15اپریل کی تاریخ باردانہ تقسیم کرنے کی مقرر کی تھی مگراس پر محکمہ خوراک کی بیورو کریسی عمل درآمد نہیں ہونے دیتی کہ “دیر آئیددرست آئید” کہ جتنی دیر سے سرکاری خریداری شروع ہو گی گندم بھی سوکھ کر خشک ہو چکی ہو گی۔ اور کٹوتی الگ اسطرح ڈھیروں حرام مال پیٹوں میں گھسیڑا جا سکے گااس طرح وزن کم ہو جانے سے محکمہ خوراک کے فراڈیوں کا مفاد موجود ہے۔

Mian Ihsan Bari

Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری