فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام

FATA Khyber Pakhtunkhwa Integration

FATA Khyber Pakhtunkhwa Integration

تحریر : قادر خان
وفاقی کابینہ نے فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے منظوری دے دی ، جس پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے ۔ کسی نے فاٹا اصلاحات کے حو الے سے پختون دشمنی تو کسی نے تمام تر تحفظات کے باوجود ایک مثبت اقدام قرار دیا ۔ جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ نے تو باقاعدہ اصلاحات کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم سے براہ راست احتجاج کا بھی اعلان کردیا ۔پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سنیئر رہنما تو ایسے پنجاب کی استعماری قوتوں کی سازش قرار دیتے ہوئے، پشتونوں سے پاکستان مسلم لیگ ن کی دشمنی کے مترادف قرار دیتے ہیں ۔ ۔فاٹا اصلاحات کو پاکستان مسلم لیگ ن کا تاخیری حربہ بھی قرار دیا جا رہا ہے ۔ یہ بات شائد کسی کیلئے اتنی حیران کن نہیں ہوگی جتنی پاکستان میں رہنے والے اُن شہریوں کیلئے رہی ہے جنھیں پاکستان کے انضمام کے وقت سے اور اس سے پہلے انگریزوں کی سازش کے تحت علاقہ غیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ 27ہزار220مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ علاقہ وفاق ، کے زیر انتظام آتا ہے ۔ یہاں انگریز کا دیا گیا نظام ایف سی آرابھی تک قائم ہے اور پاکستان کے قوانین و آئین کے بجائے FRCکے تحت یہاں فیصلے کئے جاتے ہیں۔مغرب میں قبائلی علاقے جات کی سرحدیں افغانستان سے ملنے کے سبب ” ڈیورنڈ لائن” انہیں افغانستان سے جدا کرتی ہیں ، ان قبائلی علاقے جات کی کل آبادی ایک اندازے کے مطابق 50لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ قبائلی علاقے پاکستان کا حصہ تو کہلاتے ہیں لیکن انھیں پاکستان بننے کے بعد بھی آج تک خود مختاری و تشخص نہیں ملا ، ان قبائلی علاقوں کو مختلف ایجنسیوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ان میں خیبر ایجنسی ، کرم ایجنسی ، باجوڑ ایجنسی، مہمند ایجنسی،اورکزئی ایجنسی، شمالی وزیر ستان اور جنوبی وزیر ستان شامل ہیں ، جبکہ ان کے علاوہ پشاور ، ٹانک ، کوہاٹ اور ڈیرہ اسمعیل خان سے ملحقہ6سرحدی علاقے بھی موجود ہیں ، ان میں سرحدی علاقہ ، بنوں ، ڈیرہ اسمعیل خان ، کوہاٹ ، لکی مروت، پشاور اور ٹانک کے سرحدی علاقے شامل ہیں ۔یہ قبائل پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح تعلیم صحت اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ۔ خصوصاََ دیگر صوبوں کا تقابل فاٹا سے نہیں کیا جا سکتا ۔فاٹا کی عوام کیا چاہتے ہیں اور فاٹا کی ضروریات کس حد تک پوری ہو رہی ہیں اور خیبر پختونخوا میں فاٹا کے علاقوں کو شامل کرنے اور فاٹا کو ایک علیحدہ تشخص دینے کے مطالبے میں وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد بھی شدت میں کمی نہیں آسکی۔

فاٹا کے حوالے سے منعقد کانفرنس میں فاٹا کے عمایدین نے خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کو مسترد کردیا تھا ۔ جبکہ قبائلی عوام ایف سی آر جیسے کالے قانون سے نجات حاصل کرنے کے خواہاں ہیں اور فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے اصلاحات بھی کو اولیت دیتے ہیں ، جب سے قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب ، خیبر ون ، اور ٹو میں جب لاکھوں قبائلوں کو آئی ڈی پیز بن کر نقل مکانی کرنی پڑی اور فوج کی جانب سے کہا گیا کہ انتہا پسندوں کا خاتمہ کرکے علاقے کلیئر کردیئے گئے ہیں تو اُس وقت سے ان قبائلی علاقوں سے لاکھوں پاکستانیوں نے عظیم قربانی دیکر اپنی حب الوطنی کو ثابت کیا ۔ گو کہ ماضی میں افغانستان سے موجودہ قبائلی علاقے برٹش سازش کے تحت تقسیم کردیئے گئے تھے ، لیکن پاکستان بننے کے بعد 2600کلومیٹر طویل اس سرحدی حصے کی حفاظت پاکستانی افواج سے زیادہ قبائلی پاکستانی ہی کررہے تھے انتہا پسندی کا عفریت جب ان علاقوں میں گڈ و بیڈ طالبان کے مفروضے کے تحت پیدا ہوا تو ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستان کو اپنی رٹ قائم کرنے کیلئے لازم ہوگیا کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کو پاکستان میں جگہ نہ دی جائے اور پاک افواج نے آپریشن ضرب عضب کے بعد انتہا پسندوں کو ان علاقوں سے صاف کرنا شروع کیا تو یہ انتہا پسند فرار ہوکر افغانستان میں پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے لگے اب ملک گیر سطح پر آپریشن ردالفساد جاری ہے ۔ امریکی افواج اور افغانستان حکومت نے بارڈر سیکورٹی کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا جس کے سبب انتہا پسندوں کو پاکستان میں طویل دشوار گذار پہاڑی علاقوں یا افغانستان کی جانب سے کمک ملنے پر پاکستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ تو نہیں ہوسکا ، لیکن انتہا پسندوں کی کمر ضرور توڑ دی گئی ۔ جس پر شکست خوردہ عناصروں نے سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنانا شروع کردیا ۔جس کی تمام ڈور بھارت اور افغانستان کی موجودہ حکومت ہلا رہی تھی ۔ حکومت پاکستان نے 35لاکھ سے زائد افغانیوں کو بھائیوں کی طرح پاکستان میں تقریباََ 40سال سے انسانی ہمدردری اور بھائی چارے کی بنیادوں پر پناہ دی ہوئی ہے ، لیکن اس کے کئی مضمرات سے پاکستان محفوظ بھی نہیں رہ سکا۔

حالیہ دنوں میں سیاسی جماعتوں نے بھی فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے باقاعدہ مہم شروع کی اور اس کے لئے اسلام آباد میں دھرنے کی بھی دھمکی دی۔ پختون عوام اپنے مطالبات کو تسلیم کرانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوسکتے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی تھی کہ فاٹا کے قبائلی عوام کے دھرنوں کو عام سیاسی دھرنوں کی طرح سمجھنے کی غلطی وزیر اعظم میاں شریف کو نہیں کرنی چاہئے ، تاہم اندازہ ہی نہیں ، بلکہ یقین بھی تھا کہ وزیر اعظم پاکستان نے معاملے کی نزاکت کو بخوبی سمجھتے ہوئے بالاآخر فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے وفاقی کابینہ سے منظوری حاصل کرلیں گے، اب اگلا مرحلہ آئین میں تبدیلی کا ہے ، جس کی منظوری روکنے کے لئے مولانا فضل الرحمن نے اپنی پوری قوت استعمال کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔تاہم سیاسی حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم ایک مرتبہ پھر منا لیں گے ۔یہ بات اظہر من الشمس عیاں ہے قبائلی پاکستانی عوام فاٹا میں انگریزوں کے دیئے گئے قوانین اور پولیٹکل ایجنٹ کے کردار سے مطمئن نہیں ہیں ، اگر ایسے وفاق کی جانب سے آمرانہ طرز حکومت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل ہیں لیکن ایسا کوئی مناسب انتظامی ڈھانچہ تشکیل نہیں دیا گیا جس کے تحت ان علاقوں کو منتظم کیا جاسکے۔ کوئی عدالت ہے، صوبائی اسمبلی ہے اور نہ ہی مقامی حکومتوں کا کوئی نظام ،باعثِ تشویش اَمر تو یہ ہے کہ 18ویں گریڈ کا ایک پولیٹیکل ایجنٹ لاکھوں قبائلیوں پر حکومت کر تاہے’ وہ ان علاقوں کا بے تاج بادشاہ ہے جس کے باعث قبائلیوں میں احساسِ محرومی نے جنم لیا جوان پولیٹیکل ایجنٹوں اور ملِکوں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے تھے۔

FATA

FATA

فاٹا کے عوام کا مطالبہ بھی قابل غور ہے کہ گلگت بلتستان ، جس کی آبادی دس لاکھ سے قریب ہوگی ، جبکہ فاٹا کی آبادی غیر مصدقہ اندازے کے مطابق 50لاکھ سے بھی زیادہ ہے ، تو پھر کیا وجہ ہے کہ فاٹا کو ایک الگ صوبہ بنانے میں کوئی رکائوٹ ہے یا پھر مختلف قوم پرست جماعتوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں فاٹا کو شامل کرنے میں اصرار ہے۔فاٹا کا اس وقت سالانہ بجٹ 18ارب روپے ہے ، جبکہ فاٹا کو اپنا الگ تشخص ملنے کے بعد ہر سال 90ارب ملنے کی امید ہے ، جس سے ان علاقوں کا احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہے ، نیز قبائلی علاقوں کے انفرا سٹرکچر کی بحالی سمیت تعلیم اور صحت جیسے کئی اہم مسائل کا حل ممکن ہے۔فاٹا اصلاحاتی کمیٹی نے فاٹا کونسل کی بھی مخالفت کی کہ ، گلگت بلتستان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ پہلے سیاسی آزادی کے ذریعے عوام میں شعور پیدا کیا گیا اور انھیں سیاسی آزادی دی گئی تو اس کے بعد ایک نوٹی فیکشن کے ذریعے گلگت بلتستان صوبے کی منظوری دے دی گئی ۔وفاقی حکومت اسی اقدام کے تحت فاٹا میں پانچ سال کے دوران اصلاحات لانے کی متمنی ہے۔ حالاں کہ فاٹا کی اکثریت ایک علیحدہ صوبے کی خواہش مند ہے۔ تاہم ایف سی آر جیسے کالے قانون سے نجات کے لئے ابتدائی طور پر فاٹا اصلاحات پر بھی فاٹا کی عوام نے اطمینان کا اظہار کیا ہے ، کیونکہ اصلاحات کے باوجود فاٹا کے عوام اپنے مسائل و تنازعات کو جرگے کے نظام کے تحت ہی حل کریں گے اور انھیں پاکستان کے جوڈیشنل نظام کے سست سسٹم کے ہاتھوں پریشانی کا سامنا نہی ہوگا ۔کیونکہ ایک پاکستانی قبائلی عوام کی بد قسمتی ہے کہ سوا صدی سے انگریزوں نے اپنے مفادات کے لئے جو نظام رائج کیا گیا تھا ۔پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستانی قبائلی عوام کو ان سے نجات حاصل نہیں ہوسکی ۔ایک سروے کے مطابق ان علاقوں میں مجموعی شرح خواندگی 33.3فیصد ہے جبکہ قومی اوسط 58فیصد ہے ، مردوں کے مقابلے میں خواتین میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے ، بالغ مردوں میں شرح خواندگی 45فیصد جبکہ خواتین میں 7.8فیصد ہے، پرائمری سطح پر اسکولوں میں داخلہ حاصل کرنے والے بچوں کی شرح اوسطاََ 52فیصد جبکہ قومی سطح پر یہ شرح اوسطاََ 65ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر تقریباََ25فیصد افراد غربت کی لیکر کے نیچے زندگی گذار رہے ہیں لیکم فاٹا میں اس کیٹگری میں شامل افراد کی تعداد70فیصد ہے۔فاٹا واحد پاکستان کا ایسا حصہ ہے کہ جب1955میں مغربی پاکستان کے صوبوں اور ریاستوں کو ضم کرکے “ون یونٹ”تشکیل دی گئی تھی تو فاٹا کی جغرافیائی حیثیت کو پھر بھی تبدیل نہیں کیا گیا تھا ۔ حالانکہ جغرافیائی ، لسانی ، ثقافتی اور معاشی لحاظ سے خیبر پختونخوا کا حصہ مانا جاتا ہے ، لیکن فاٹا کے عوام اپنا ایک الگ تشخص حاصل کرنے کے خواہاں رہے ہیں۔

جمعیت علما اسلام ف اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی ، اس حوالے سے ریفرنڈم کرانے کی خواہاں تھی ، لیکن سرتاج عزیز کمیٹی نے استصواب رائے کی اس تجویز کو مسترد کرکے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی ، جس میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر لیفٹنٹ جنرل(ر) ناصر خان جنجوعہ ، عبدالقادر بلوچ وفاقی وزیر سرحدی علاقے جات ( سیفران) اور سیکرٹری سیفران بھی شامل تھے۔دونوں سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کرکے اس حوالے سے حمایت حاصل کرلی گئی تھی کہ فاٹا کے علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرلیا جائے گا ۔ پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی جانب سے اس وسیع حمایت کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ7فروری کے کابینہ اجلاس میں تجاویز کو منظور کرلیا جائے گا ، لیکن حیران کن طور پر فاٹا اصلاحات کو کابینہ میں منظور نہیں کیا گیا۔کابینہ کے جانب سے مختلف تحفظات سامنے لائے جاتے رہے ہیں کہ وفاق فاٹا کے اصلاحاتی پیکچ کیلئے 121ارب دینے کو تیار نہیں ، وہ یہ رقم این ایف سی ایوارڈ میں منہا کرنا چاہتا ہے ، جس کیلئے صوبے تیار نہیں ، بنیادی طور پر اس وجہ کو ڈیڈ لاک کا اہم عنصر سمجھا جا رہا تھا ۔ اب یہ طے ہوچکا ہے کہ فاٹا کو تین فیصد اضافی فنڈز دیئے جائیں گے۔ لیکن جمعیت علما اسلام ف جو پہلے فاٹا اصلاحات پر راضی ہوگئی تھی اب دوبارہ ملک کے تمام سیاسی جماعتوں کے برخلاف احتجاجی رویہ اختیار کر رہی ہے۔

فاٹا میں جب اصلاحات کے عمل سے حکومتی دعوے سامنے آرہے تھے تو اس وقت قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے وکلاء کی تنظیم فاٹا لائرز ایسوسی ایشن کے صدر اعجاز مہمند کا کہنا تھا کہ” اگر اس بار بھی حکومت کی طرف سے فاٹا کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں”۔ “جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا سب سے بڑا مطالبہ ہے کہ قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کرنے سے پہلے قبائلی عوام کی رائے جاننا انتہائی ضروری ہے ، قبائلی عوام کی رائے جانے بغیر کوئی بھی فیصلہ مستقبل میں اچھے اثرات نہیں چھوڑے گا ۔ تاہم فاٹا میں جے یو آئی کے جنرل سیکریٹری مفتی اعجاز شنواری کا کہنا تھا کہ انکی جماعت فاٹا میں اصلاحات کی مخالف نہیں ہے ، لیکن قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے بہتر ہوگا کہ ان کو الگ صوبے کا درجہ دیا جائے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے کہا کہ حکومت فاٹا کے ڈیڑھ کروڑ عوام کی مشاورت سے فاٹا اصلاحات کے عمل کو مکمل کرے،پانچ یا چھ بیوروکریٹ ملکر فاٹا اصلاحات کی کتاب نہیں چھاپ سکتے خیر کا کام منفی انداز میں کرنا دکھ کی بات ہے،ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ پشتون تاریخ میں کبھی کوئی دہشت گرد یا فرقہ پرست پیدا نہیں ہوا البتہ وطن کی خاطر مر مٹنے کو تیار رہتے ہیں فاٹا کو علاقہ غیر کہنا مناسب نہیں، فاٹا میں ترقیاتی کاموں پر مجوزہ طور پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کی نگرانی کے لئے فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ پرمشتمل کمیٹی بنائی جائے۔ آج جب فاٹا میں اصلاحات کی بات ہو رہی ہے تو وہاں کے لوگوں سے کوئی نہیں پوچھتا۔

Fata Gathering

Fata Gathering

غلط انداز میں دنیا بھر میں یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ فاٹا قاتلوں اور وحشیوں کا مرکز ہے اور اسے علاقہ غیر کہہ کر پکارا جاتا ہے جو غلط ہے حالانکہ فاٹا محب وطن لوگوں کا وہ ٹکڑا ہے جنہوں نے کبھی مادر وطن کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ ہم تمام پشتونوں اور خاص طور پر فاٹا کو دہشت گردوں کا اڈا اور وحشیوں کا مرکز قرار دینے کی مذمت کرتے ہیں۔ فاٹا کبھی دہشت گرد نہیں رہا۔ صرف حملہ آوروں کے خلاف لڑتا رہا ہے۔ فاٹا کی چھ کی چھ ایجنسیاں محب وطن لوگوں کا مرکز ہیں۔ ہم مولانا فضل الرحمن کے بھی مشکور ہیں کہ انہوں نے فاٹا اصلاحات کے حوالے سے آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے وہاں کے لوگوں سے نہیں پوچھا گیا ہم لوگ مل کر آواز اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ حکومت پاکستان کو تمام فاٹا کے عوام کو بھروسہ دلانا ہو گا کہ فاٹا کے مالک وہاں کے عوام ہیں اور ہم آپ کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں۔ فاٹا کی آبادی بلوچستان سے زیادہ ہے اور بلوچستان سے زیادہ وہاں پر پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں اربوں روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ صرف دو چار بیوروکریٹ خرچ کریں گے؟ اس کے لئے فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ پر مشتمل ایک نگران کمیٹی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کمیٹی نے ساڑھے 8 دنوں میں 7 ایجنسیوں اور ایف آر علاقوں کا دورہ مکمل کیا۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ 35 ہزار مربع میل کا علاقہ ساڑھے 8 دنوں میں مکمل ہو اور لوگوں کی رائے بھی لے لی جائے”۔

“عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فاٹا اصلاحات کو نکالنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنا ان کا اولین ایجنڈاہے اور وہ کسی صورت اپنے اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہونگے اور چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے شہریوں کو گزشتہ70 برسوں سے پاکستان میں مکمل آئینی حقوق حاصل نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا کر قبائلیوں کو ایندھن بنایا گیا۔ لیکن جب آئینی حقوق کی بات آئی تو تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اسفند یا ر ولی خان نے انتباہ کیا تھا کہ فاٹا کو 2018کے انتخابات سے قبل صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیاجائے اور فاٹا کی بھی مکمل مردم شماری کی جائے۔تاکہ آئندہ انتخابات میں فاٹا کے شہریوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی کا حق ملے۔ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ مجموعی طور پر یہ خوش آئند ہے لیکن ایک تو رواج ایکٹ پر ان کے تحفظات ہیں اور دوسرا اوور سایٹ کمیٹی میں صرف افسران کو شامل نہ کیا جائے بلکہ اس میں عوامی نمائندوں کو شریک کرنا چاہیے تاکہ برابری کی بنیاد پر یہ سارا عمل مکمل کیا جا سکے”۔

قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل نے کہا ہے کہ” ان کے لیے آج آزادی کا دن ہے اور وہ اور قبائلی علاقے کے لوگ اس پر خوش ہیں کہ اب انھیں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو ملک کے دیگر علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو حاصل ہیں۔شاہ جی گل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ اس کا نفاذ اب ہو گیا ہے اور نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد تمام اصلاحات ترتیب وار نافذ ہونا شروع ہو جائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اب قبائلی علاقوں کے لوگ بھی صوبائی اسمبلی کا حصہ بن سکیں گے اور بلدیاتی کونسلز بھی قائم ہوں گی اور ایف سی آر کا خاتمہ ہو گا”۔ “فاٹا کے اصلاحات اور ایف سی آر کے حوالے سے جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقے کے ایک کروڑ 20 لاکھ قبائل اس جدید دور میں بھی انگریز کے فرسودہ نظام کے تحت غلامو ں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ سراج الحق کامزید کہنا تھا کہ فاٹا میں بنیادی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلا ف ورزی ہو رہی ہے .FCR کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک فرسودہ نظام ہے جسکی وجہ سے فاٹا میں روز بروز غربت بڑھ رہی ہے ہزاروں ڈگری ہو لڈرز نو جوان بے روزگا ری کیوجہ سے در بدر ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ امیرجماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں صحت و تعلیم کی سہولیات نہ ہو نے کے برابر ہے۔لوگ پینے کے صا ف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ FCR قانون کے تحت فاٹا میں جاری آپریشن سے فاٹا کھنڈرات کی شکل اختیار کرنے لگاہے۔ مختلف ملٹری آپریشنز کیوجہ سے ہزاروں لوگ شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ ہزاروں مکانات مسمار سکو ل،ہسپتال اور سڑک ویران اور انفراسٹر کچر مکمل تبا ہ ہو چکا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کو فوری خیبرپختونخوا ضم کرکے این ایف سی ایوارڈ میں تین کی بجائے چھ فیصد کا حصہ بھی دیا جائے۔وہاں پو لیس کی بجائے خاصہ دار اور لیو یز کو منظم فورس بنا کر مزید تیس ہزار لیو یز کوبھر تی کیا جائے اور ملا کنڈ ڈویژن کی طرز پر فری ٹیکس زون بنا یا جائے”۔

Imran Khan

Imran Khan

“چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں انضمام دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نہایت ضروری امر ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ فاٹا دہشت گردوں کی مرکز بن چکا ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان سے فائدہ اٹھانا ہے جتنا جلد ممکن ہوسکے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کردیا جائے اور اس کام میں تاخیر کی گئی تو اس کا فائدہ دہشت گردوں کو ہوگا۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کے پاس وسائل نہیں ہیں اور قبائلی علاقوں کا سارا نظام تباہ ہوچکا ہے اس لیے اگر وہاں بلدیاتی حکومتیں قائم کردی جائیں تو اس طریقے سے قبائلی عوام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور وہاں بھی ترقی ہو سکتی ہے۔ نہیں ہے۔”۔ملک کی اہم سیاسی جماعتوں اور فاٹا کے پارلیمانی اراکین نے فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد میں تاخیر کے خلاف 12 مارچ کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ریلی منعقد کرنے کا اعلان کیا ہواہے اور تاحال اس ریلی سے دستبرداری کا ابھی تک کوئی اعلان سامنے نہیں آیا ، کیونکہ سیاسی جماعتیں سمجھ رہی ہیں کہ۔’قومی دھارے میں لانا’ ایک مبہم اصطلاح ہے جو اصلاحات کے مکمل منصوبے کی روح کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔”باجوڑایجنسی کے اتمانخیل اور ترکھانی قبائل کے عمائدین نے فاٹا اصلاحات کو وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے نکالنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں نوازشریف، مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کا شکریہ ادا کیا تھا اور کہا تھا کہ قبائل کسی بھی صورت خیبر پختونخواہ میں انضمام نہیں چاہتے ہیں اور قبائلی عوام کو الگ صوبہ دیاجائے، لیکن اب ان کا مطالبہ تسلیم نہیں ہوسکا۔ اس با ت کا مطالبہ باجوڑایجنسی کے سرکردہ قبائلی عمائدین ملک حفظ الرحمن، ملک عبدالناصر، ملک بہادر شاہ، ملک رحمن، ملک حضرت نور، ملک محمد یار، ملک سلطان یار، ملک عبدالحکیم، ملک نوشاد، ملک ساز محمد، ملک محمد اکبر، ملک حبیب اللہ، مفتی حنیف اللہ، ملک شاہی بخت، ملک سلطان زیب، ملک داؤد شاہ، ملک امان اللہ خان اور دیگر نے صدر مقام خار نے کیا تھا۔ انھوں نے سرتاج عزیز اور اصلاحاتی کمیٹی کے ارکان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کمیٹی نے محض چند سو افراد کو قبائل کی رائے قرار دیکر قبائل دشمنی کا ثبوت دیاہے۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں قبائلی عوام کیلئے دہشت گرد اور باغی کے الفاظ استعمال کی ہیں۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کو الگ صوبہ یا منتخب کونسل دیاجائے جہاں قبائلی عوام اپنے رسم ورواج کے مطابق اپنی لئے قانون سازی کرسکیں گے۔ ملک بہادر شاہ نے کہا کہ الگ صوبے قائم ہونے سے قبائلی عوام کو بہت فوائد ملیں گے جہاں ہمارا اپنا گورنر، وزیر اعلیٰ ہوگا اور گریڈ ایک سے لیکر 22تک کے ملازمین فاٹا سے ہوں گے قبائلی عمائدین نے کہا کہ ایف سی آر کے متبادل شریعت نظام ہے اور ہمیں شرعی نظام دیاجائے اور یہی قبائلی عوام کے اکثریت کا مطالبہ ہیں۔ ملک بہادر شاہ نے بتایا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے بھی ہمارے ساتھ رابطہ کیا ہے اور ہمیں اُمید ہیں کہ وہ بھی ہمارا ساتھ دیں گے۔قبائلی عمائدین نے مطالبات کئے جن میں فاٹا کے تباہ شد ہ انفراسٹرکچر کے دوبارہ بحالی کیلئے تین ہزار ارب روپے کا خصوصی پیکج دینے، گورنر کا باجوڑایجنسی کیلئے اعلان کردہ تین کالجز او ربرنگ تخت ٹنل پر کام شروع کرنے، فاٹا کو سی پیک میں حصہ دینے، فاٹا کے میڈیکل اور انجینئر نگ کوٹہ میں آبادی کے تناسب سے اضافہ کرنے، فاٹا کے طلباء کو ماہانہ دس ہزار روپے دینے، پندرہ سال کیلئے داخلہ ٹیوشن اور ہاسٹل فیس معاف کرنے، سرکاری ملازمتوں میں فاٹا کا کوٹہ بڑھانے اور دیگر مطالبات شامل تھے۔ قبائلی عمائدین نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قبائلی عمائدین اور تمام موجودہ وسابق ایم این ایز کا احتساب کیاجائے تاکہ کس نے زیادہ فنڈز ہڑپ کی ہیں.ادھر قبائلی علاقوں سے منتخب اراکینِ پارلمینٹ کا کہنا ہے کہ ‘جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ‘ڈبل گیم’ کھیل رہے ہیں وہ ایک طرف اصلاحات مخالفت کررہے اور دوسری طرف حمایت بھی۔’انھوں نے کہا کہ جے یو آئی اس لئے فاٹا اصلاحات کی مخالفت کررہی ہے کیونکہ فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن جانے سے قبائلی علاقوں میں اس پارٹی کے مینڈیٹ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے”۔

عوامی نیشنل پارٹی نے پارلیمنٹ کے سامنے واضح طور پر کہا کہ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے حکومت70سال بعد کوئی اچھا کام کر رہی ۔ایف سی آر قانون بدترین قانون ہے ، اسی قانون کی وجہ سے فاٹا میں ترقی نہیں ہوسکی۔ انھوں نے اپنے اس عزم کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ اگر فاٹا اصلاحات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا ہے کہ 12مارچ تک فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم نہ کیا گیا تو اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔عوامی نیشنل پارٹی نے حکومت کو خبردار کیا کہ ہمارا دھرنا عمران خان کی طرح نہیں ہوگا ۔1973میں ولی خان کی قیادت میں مطالبات کی منظوری کیلئے25لاشیں اٹھائی گئیں تھیں ۔ اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ پم مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی سے درخواست کریں گے کہ فاٹا اصلاحات کی حمایت کی جائے ، مخالفت نہ کی جائے۔ اسلام آباد میں فاٹا کے صوبے میں ضم کرنے کے حق میں ایک دھرنا شروع ہوسکتا ہے تو دوسری جانب فاٹا کے وہ قبائلی عمائدین جو اس اصلاحات کے مخالف ہیں ، وہ بھی مد مقابل آسکتے ہیں ، گو کہ پاکستان کی سب بڑی سیاسی جماعتیں فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کیلئے اپنی حمایت کا واضح اعلان کرچکی ہیں ، اس صورتحال میں ملک کو مزید آزمائش سے بچانے کیلئے حکومت کو تاخیری حربے استعمال کرنے کے بجائے تمام سیاسی جماعتوں کے متفقہ حمایت کو فوقیت دینا چاہے ، اطلاعات کیمطابق مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کو سرتاج عزیز کمیٹی راضی کرچکی تھی لیکن تادم تحریر دونوں رہنما اپنے پرانے موقف پر دوبارہ کھڑے ہوگئے ہیں ، صوبہ خیبر پختونخوا پہلے ہی نا مساعد حالات سے گذر رہا ہے ، کسی قسم کی بھی انارکی اور انتشار پاک فوج کی محنت کو پانی میں بہا سکتی ہے اور خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ خود بھی چاہتے ہیں کہ فاٹا کی عوام قومی دھارے میں شامل ہوجائے۔

Qadir Khan

Qadir Khan

تحریر : قادر خان