خوف و ہراس کی فضاء

Narendra Modi

Narendra Modi

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
بھارت پاکستان کو کمزور کرنے کے خواب دن کی روشنی میں دیکھ رہا ہے، انڈین وزیر اعظم مودی لال قلعے میں کھڑے ہو کر بھاشن دے رہے تھے کہ بلوچستان اور گلگت بلتستان کے لوگ ہم سے رابطے میں ہیں۔
گلگت بلتستان اور بلوچستان کے لوگ بھارت کے مکروہ چہرے سے واقف ہیں البتہ چند ضمیر فروش اور بھارت کے ٹکڑوں پر پلنے والے کچھ ضمیرفروش ضرور رابطے میں ہوں گے،ضمیرفروش غردارِ وطنوں کی بات کوئی نہیں مانتا۔ دشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بننے والے ان غداروں سے گلگت بلتستان اور بلوچستان کے لوگوں سمیت پورے پاکستان کے باسی نفرت کرتے ہیں، جب سے سی پیک پر کام کا آغاز ہوا ہے اسے پاکستان کا ابھرتا ہوا مستقبل اور بھارت کا ڈوبتا ہوا معاشی اور سیاسی مستقبل نظر آرہا ہے،جس کی وجہ سے بھارت کو دست لگ گئے ہیں اسی لئے اسے کسی پل چین نہیں آرہا ہے اور مسلسل ہر محاز پر پاکستان کے خلاف سر گرم عمل ہے،جب بھارت نے یہ دیکھا کہ پاکستان سے کھلم کھلا جنگ نہیں کرسکتے تو اس نے اپنی ناپاک”را”کے ذریعہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کو پروان چڑھاناشروع کردیا ۔

بلوچستان سے پکڑا جانے والا بھارتی خفیہ ایجنسی”را”کا حاضر سروس ایجنٹ کلبھوشن یادو ہے۔.اللہ کا شکر ہے بھارت کا اصل چہرہ ایجنٹ کلبھوشن یادو کی شکل میں سامنے آگیا اور اس کے تمام عزائم خاک میں مل گئے،بھارت جس طرح بلوچستان میں اپنی ناپاک حرکتوں سے بعض نہیں آتا بالکل ایسے ہی اب اس نے اپنے پھن گلگت بلتستان میں بھی پھیلا دئیے ہیں۔ نوجوان نسل کے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے مایوسی اور بددلی پیدا کرنے کے لئے بھارت نے بیرون ملک رہنے والے کچھ ننگ وطنوں کو تیار کیا ہے جو سوشل میڈیا کے زرئیے صبح شام یہ پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ پاکستان گلگت بلتستان کے وسائل پر قابض ہے اور اقتصادی راہداری منصوبے کے بعد نہ صرف گلگت بلتستان کو معاشی حوالوں سے حصہ نہیں ملے گا بلکہ گلگت بلتستان کا کلچر بھی تباہ ہوگا۔حالانکہ حقیقت کا اس سے دور کا واسطہ بھی نہیں ۔

اقتصادی راہداری منصوبے کے بعد بھارت مکمل تکلیف میں ہے اور وہ اس کے خلاف ہر پہلو سے سازشوں میں مصروف عمل ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستانی عوام میں اس منصوبے کے حوالے سے تقسیم کا عمل شروع کیا جائے اور مختلف صوبوں کے درمیان تنازعات کے ساتھ ساتھ سی پیک منصوبے کی مخالفت کے لئے ماحول پیدا کرے لیکن ان شا اللہ بھارت کی یہ کوششیں ناکام ہوں گی گزشتہ عرصے آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو جو معلومات دی ہیں وہ کافی چونکا دینے والی ہیں،خصوصاً جب وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ آئی بی کی معلومات سو فیصد درست ثابت ہوتی ہیں تو پھر سوچنے والی بات یہ ہے کہ سی پیک کے خلاف سازشوں کا جال کتنا مضبوط ہے اور اس کے ڈانڈے کہاں کہاں ملتے ہیں۔ بعض کالعدم تنظیمیں بھی اِس راہداری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے سرگرم ہیں، تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے رابطے ”را” سے بھی ہوں گے، کیونکہ ”را” کے پیشِ نظر بھی سی پیک کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا مذموم مقصد ہے، بلوچستان سے ”را” کا جو افسر گرفتار ہوا ہے وہ بھی اعتراف کر چکا ہے کہ وہ سی پیک کے منصوبے کے راستے میں روڑے اٹکانے کے لئے سرگرم عمل تھا اور اُس نے بلوچستان میں جاسوسی کی سرگرمیوں کا نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا، اِسی طرح افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ وہ بھی سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کی سازشوں میں مصروف ہے،تو لامحالہ بھارتی خفیہ ادارے کے ساتھ بھی اس کا ربط ضبط ہو گا۔

گزشتہ دِنوں ایک افغان افسر بھی گرفتار ہو چکا ہے، جس نے تفتیش میں تسلیم کیا تھا کہ وہ ”را” کے ساتھ مل کر ایسی تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھا،جن کا مُدعا سی پیک کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔انڈیا نے پاکستان کو ترقی کے راستے سے ہٹانے کے لئے دنیا کی سپر پاورز کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔ دشمن نے سوشل میڈیا کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی مضبوط منصوبہ بندی کر لی ہے۔ گزارش ہے بغیر تحقیق کے کسی بھی تحریر یا پوسٹ پر عمل نہ کیا جائے۔ کیونکہ دشمن پاکستان میں خوف و حراس پیدا کر کے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل چاہتا ہے جیسا کہ آج کل ایک تحریر بھی بہت وائرل ہو رہی ہے جس کے مطابق عراق سمیت دیگر مسلم ممالک کی تباہی کے وقت جو سفیر وہاں تعینات تھے وہ حال ہی میں پاکستان تعینات کئے گئے اور اور جانے اب پاکستان کے ساتھ کیا کچھ ہونے لگا ہے۔
امریکہ: آجکل اسلام آباد میں امریکی سفیر کا نام ڈیوڈ ھیل ہے جو کہ دو سال سے یہیں پر تعینات ہے۔ عراق جنگ کے دنوں میں یعنی 2003 میں موصوف واشنگٹن میں تعینات تھے اور اسرائیل اور فلسطین کے تعلقات کے امور کے ڈائریکٹر تھے۔

برطانیہ: سفیر کا نام تھامس ڈریو ہے جسے اسلام آباد میں ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا۔ 2002 سے 2006 تک، یعنی جب عراق جنگ شروع ہو کر ختم بھی ہوچکی تھی، یہ صاحب لندن میں برطانیہ اور یورپ کے درمیان تعلقات کو وسیع کرنے کے مشن پر مامور تھے۔جرمنی: سفیر کا نام مارٹن کوبلر ہے جو حال ہی میں اسلام آباد تعینات ہوا ہے۔ عراق جنگ کے دنوں میں یہ مصر میں تھا اور پھر وہاں سے افریقی ملک چلا گیا۔

کینیڈا: سفیر کا نام پیری کیلڈرووڈ ہے اور یہ بھی حال ہی میں اسلام آباد تعینات ہوا تھا۔ عراق جنگ کے شروع ہونے سے پہلے اور ختم ہونے کے بعد تک یہ صاحب نائجیریا میں تعینات تھے۔
فرانس: خاتون سفیر کا نام مارٹین ڈورانسے ہے جو پچھلے 3 سال سے اسلام آباد میں ہی تعینات ہے اور عراق جنگ کے دنوں میں وہ برازیل میں سفارت کے فرائض سرانجام دے رہی تھی۔

انڈیا: سفیر کا نام گوتم بمبے والا ہے جو کہ دسمبر 2016 سے اسلام آباد میں ہے۔ اس سے پہلے اس کی سفارت کا ریکارڈ صرف چین اور بھوٹان تک کا ہے”(سید بدر سعید)انڈیا کے بڑے اور معروف اخبا ر”ٹائمز آف انڈیا”کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی وزارت دفاع کے ریکارڈ میں تسلیم کیا گیا کہ 1965ء کی جنگ میں بھارت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تاہم یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ختم ہوئی۔جنگ کے دوران بھارت کے 460 طیاروں میں سے 59 اور پاکستان کے 186 میں سے 43 طیارے تباہ ہوئے۔ 1965ء کی جنگ بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی فضائی جنگ تھی۔ بھارتی فضائیہ کو پاک فضائیہ پر عددی لحاظ سے برتری حاصل تھی لیکن پاکستانی طیارے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھارت کے مقابلے میں زیادہ جدید تھے۔

جنگ کے وقت بھارتی فضائیہ کے پاس 28 لڑاکا اسکوڈرن جبکہ پاکستان کے پاس صرف 11 اسکواڈرن تھے۔ پاک فضائیہ نے آناً فاناً دو دن میں بھارت کے 35 طیارے تباہ کردیئے جن میں 6 ستمبر کو پٹھان کوٹ اور سات ستمبر کلائکندا میں بھارت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ بھارت نے اس جنگ کے دوران اپنے 28 اسکواڈرن میں سے 13 اسکواڈرن چینی خطرے کے پیش نظر مشرقی اور وسطی سیکٹر پر تعینات کیے۔بھارتی اخبار کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی فضائیہ کا بہت زیادہ نقصان ہو ا جسے پاکستان کی فتح سمجھا گیا۔ بھارتی اخبار نے اس سے پہلے کی ایک رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ مودی حکومت کی طرف سے 1965ء کی جنگ کو ایک عظیم فتح کے طور پر منانے کے فیصلے پر بھارت میں تنقید کی جارہی ہے اورکئی حلقوں میں سوال پیدا ہو رہے ہیں کہ 1965ء کی جنگ تو ہار جیت کے بغیر ختم ہو ئی تھی تو پھر یہ فتح کا جشن کیوں منایا جا رہا ہے۔ بھارتی وزارت دفاع کی سرکاری جنگی تاریخ بتاتی ہے کہ 1965ء کی جنگ کا خاتمہ بغیر ہار جیت کے ہوا۔ یہ جنگ 22 دن تک جاری رہی اور 22 ستمبر کو جنگ بندی ہو گئی۔ وزارت دفاع نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مجموعی طور پرفضائی جنگ میں کسی نے بھی فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ واضح پلان کے بغیردونوں اطراف نے آپریشن کیا۔بھارت نے 1965ء کی جنگ کے زخم کا بدلہ لینے کیلئے 1971ء میں پاکستان کو بھاری نقصان پہنچایا۔

غیر مسلم ” مسلمانوں کے معاملے میں ” ایک ہیں اور پوری دنیا کی آنکھ اسلامی جموریہ پاکستان کے ” ایٹم بم ”کی طرف لگی ہوئی ہے۔ اور یہ سفارت کار بڑے ہوشیار اور چالاک ہیں ۔ انہوں نے ہر قسم کی سازشوں کے جھال تیار کئے ہوئے ہیں اور پوری تیاری میں ہیں ۔ ماہ محرم کی آمد آمد ہے اور فرقہ واردیت کے پتوں کا یہ کھیل ان کا پسندیدہ شغل ہے۔

1971 والہ یہ پاکستان نہیں اصل میں” دشمن”کامیاب نہیں ہو سکتا تھا ۔ 1965 کا بدلہ لینے کے لئے ” بھارت نے چھ سال ” ہوم ورک کیا ۔ اگر ہم عجلت ، لاپروائی اور اندرونی سازشوں کو اہمیت دیتے تو نتیجہ مختلف ہوتا،
آج پھرپاکستان مخالف قوتیںاور بھارت ایک ساتھ کھڑاہیں زرا سی غلطی یا لاپرواہی اسلامی جموریہ پاکستان کے لئے” نقصان دہ ” ہوسکتی ہے۔!

دشمن نے ” اسلامی جموریہ پاکستان ” کو نقصان پہنچانے کے لئے ” خوف ” کی فضا ء پیدا کرناہے۔ جب تک ہم پر خوف مسلط نہیں ہوتا کوئی دنیا کی طاقت ہم کو زیر نہیں کر سکتی ۔ محب وطنوں سے گزارش ہے کسی بھی خبر یا پوست پر تحقیق کے بغیر یقین نہ کریں جس سے خوف و ہراس پیدا ہوتا ہو۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا