ڈر لگتا ہے

سنگ باری سے نہ دشنام سے ڈر لگتا ہے
ہم کو بس درد کے الہام سے ڈر لگتا ہے

ہم نے اس گھر میں گزاری ہے جوانی اپنی
جِس کے دیوار و در و بام سے ڈر لگتا ہے

ہم سے آوارہ مزاجوں کو بھری دنیا میں
اب تو ہر رسم و رہ عام سے ڈر لگتا ہے

ان کی قسمت میں کسی صبح کا اجالا ہی نہیں
جِن کو اُس زلف سیاہ فام سے ڈر لگتا ہے

شہرِ نا پرساں کی انجان گزر گاہوں میں
دن گزر جاتا ہے پر شام سے ڈر لگتا ہے

Sahil Munir

Sahil Munir

تحریر : ساحل منیر