سیرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سالار

Seerat un Nabi

Seerat un Nabi

تحریر : فیضان فیصل، اسلام آباد
احساسات بیان سے باہر ہیں ۔نبی اکرم، سالارِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت لکھنا ہے!۔۔۔ ایک بحرِ بے کراں ہے۔۔۔ آغاز سوجھتا نہیں! اختتام دکھتا نہیں!چودہ صدیوں سے ذیادہ کا عرصہ ہو گیا۔ ایک پیمبر، عظیم تر!۔۔۔۔ سرزمینِ حجاز میں بھیجا گیا۔ تلوار دے کر(1)۔۔ رحمة للعالمین بنا کر! جی ہاں تلوار بھی رحمت ہے۔ جہاد سراپا رحمت ہے۔۔۔ آپ عنوان رحمت کا دے لیں، مضمون جہاد کے بغیر بے وقعت ہے! شہ سرخی جہاد کی ہو تو رحمت کی بات کئے بغیر متن نامکمل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ہر ہر عنوان کامل حیات سے عبارت ہے۔گو بات تب بنے گی جب آغاز قبل از ہجرت سے کیا جائے لیکن ادب کا سلیقہ نہیں، تحریر کا طریقہ نہیں۔۔۔۔ شرائط مانع ہیں، احساسات حائل ہیں! کچھ بھی تو میسر نہیں۔۔۔ انسان اسی کا نام ہے۔

خیر۔۔۔! آغازِ نبوت کے بعد طویل عرصہ تک مصائب و آلام کی بھٹیوں میں کندن بننے والی مقدس سپاہ کے عظیم سالار کو اذنِ قتال ہوتا ہے آفیشل اجازت آتی ہے:”جن لوگوں (صحابہ کرام) سے لڑائی کی گئی انہیں مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں” (الحج: 39)۔اب ایک طریقہ تو یہ ہے کہ انتقام کے جذبے میں، ظلم و ستم سے بیزار!۔۔۔۔ شیروں کی مانند کچھاروں سے نکلیں۔ یا تو عدو پر قہر بن کر نازل ہوں یا اپنا نام و نشاں مٹا ڈالیں۔ لیکن طریقِ احمدی میں تدبیر ہے، تفکیر ہے!بیس کیمپ ہونا چاہئے۔ حفاظتی اقدامات بھی کرنے ہیں۔۔۔ سپاہ کے جذبات و حالات کا بھی اندازہ ہے۔۔ اپنے رب سے بھی مشاورت و مناجات کرنی ہیں۔حکمِ جہاد سے پہلے بیس کیمپ تیار ہو چکا ہے سپاہ اور سالار نے مل کر مسجد نبوی تعمیر کی ہے۔ یہ مسجد بھی ہے۔

ضیافہ بھی!۔۔ ایوان بھی ہے اور عدلیہ بھی!۔۔ بیس کیمپ بھی یہی ہے ٹریننگ سینٹر بھی یہی ہے۔۔۔۔یہ داخلی استحکام ہے۔اب امور خارجہ ہیں!پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ قریب تر سے شروع کیا جائے۔۔۔۔ آلِ ابنِ ابی کی باری پہلے آئے اور پھر یہود کے ساتھ ٹکر ہو۔ قریشِ مکہ سے ٹاکرے سے پہلے ہی خاتمہ ہو جائے، جو بچ جائیں وہ نوالہِ تر ہوں۔ لیکن طریقِ احمدی میں حکمت ہے، مصلحت ہے!سو ہمہ اقسام کی قلت کے باوجود خارجی پالیسی پرتاریخِ انسانی کا رہنما چارٹر”میثاقِ مدینہ”سامنے آتا ہے۔اب داخلی و خارجی طور پر بنیاد مضبوط ہے۔ لیکن افراد نہیں ہیں، سامان نہیں ہے۔ایک طریقہ یہ ہے کہ داخلی و خارجی انتظامات کو کافی سمجھتے ہوئے دشمن کو للکار دیا جائے۔ افرادی و مادی قوت کا کچھ پتہ نہیں۔ لیکن طریقِ احمدی میں منصوبہ سازی ہے، تحمل مزاجی ہے!کہ حسبِ قوت آغاز کیا جائے۔ قرب و جوار میں مختصر مہمات جاری ہوتی ہیں۔ کچھ ساتھی ملتے ہیں۔۔۔ بعض خطرے ٹلتے ہیں! پھر حصولِ سامان کی غرض سے قافلہِ قریش کا تعاقب ہوتا ہے۔ اسے تجارتی ناکہ بندی کی ادنی قسم بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم تیار ہو رہا ہے۔ہجرت سے قبل جسمانی تکالیف کی بھٹی تھی۔ ہجرت کے بعد سے اب تک اعصابی و روحانی بھٹیوں میں کندن بننے کا عمل جاری ہے۔

سپاہ سالارِ اعظمۖ قافلے کیلئے نکلتے ہیں۔۔۔لیکن حالات یکسر بدل جاتے ہیں۔ دشمن سے مڈبھیڑ ہونی ہے۔ مڈبھیڑ دو طرح کی ہے۔ پہلی قسم ناگہانی ہے جو بدرِ کبری میں درپیش ہے۔ دوسری قسم میعاد و اسباب کی تعیین کے ساتھ ہے جس کی مثال احد ہے۔ایک طریقہ یہ ہے کہ ناگہانی ٹاکرے کے اسباب و عوامل کو مطعون کر کے قسمت کا رونا رویا جائے۔ لیکن طریقِ احمدی میں استشارہ ہے، استخارہ ہے!رب سے بھی مشورے، سپاہ کی بھی آرائ۔ سپاہ سے مشاورت ہوتی ہے۔ وار فیلڈ چن لی جاتی ہے۔ رب سے مناجات ہوتی ہیں اور میدانِ بدر کی وہ لمبی دعا!۔۔ میرے نبی ۖکی وہ کیفیت آج بھی آنکھوں کو نم کر دیتی ہے۔۔۔ افراد نہیں۔۔۔ اسباب نہیں! لیکن وصف پیمبرانہ ہے۔۔ طریق مومنانہ ہے۔۔۔ کہ”بے شک میرے ساتھ میرارب ہے جو مجھے راہ دکھائے گا ”! (الشعرائ: 62)۔جنگ ختم ہوتی ہے، تفصیل کی سکت نہیں۔۔۔ قیدی حاضر ہوتے ہیں۔ایک طریقہ تو یہ ہے کہ گردنیں اڑا کر بدلہ لے لیا جائے۔ دل ٹھنڈے ہو جائیں۔ کفر کو سخت پیغام مل جائے۔ یہ بھی درست تھا۔۔۔! لیکن طریقِ احمدی میں علم ہے، رحم ہے!رہائی کی شرائط اور قیدیوں سے سلوک کا ذکر ہر کتاب میں ملتا ہے۔ یہاں ثابت ہوتا ہے کہ جو پیغمبر تلوار دے کر بھیجا گیا ہے، معلم بھی بنایا گیا ہے۔(2)اب مرحلہ ہے ٹاکرے کی دوسری قسم کا۔ متوقع وقت پر حسبِ وسائل تیاری کے ساتھ۔ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فتح کے نشے میں ہو بہو اسی طرح دشمن سے جا ٹکرایا جائے۔ وہی چال، وہی انداز اور وہی راہ ہو۔ لیکن طریقِ احمدی میں سیاست ہے، سیادت ہے!سیاست حسنِ تدبیر ہے اور خاصہِ نبوت ہے۔ پچاس تیر انداز پہاڑی پر متعین کر دیئے جاتے ہیں۔ حکمتِ عملی بدل دی جاتی ہے۔ اولاََ فتح کے آثار ہیں لیکن پانسہ پلٹ جاتا ہے۔۔۔۔ تفاصیل معروف ہیں۔۔۔۔یہ جنگی تربیت کا فیز ٹو ہے۔ بدر میں بات اور تھی۔ اب انتشاری کیفیت ہے۔۔۔۔ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہڑبونگ، شور اور بھگدڑ میں شامل ہو کر پسپائی اختیار کی جائے۔ لیکن طریقِ احمدی میں شجاعت ہے، استقامت ہے!”اللہ کے بندو!میری طرف آئو”!! کی صدا گونج رہی۔ پیغمبر اسلام کا لہو بہتا ہے، دندان مبارک شہید ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ بالآخر معرکہ ختم ہو جاتا ہے۔

اب دونوں قسم کے (غیر متوقع و متوقع) ٹاکروں اور دونوں قسم کی (اطمینان و انتشار) کیفیات کا سپاہ کو تجربہ ہو چکا ہے۔۔۔ تربیت ہو چکی ہے۔ لہذا مرحلہ ہے آزمائش کا، امتحان کا!یہاں دو طرح کا امتحان ہے۔ پہلی قسم دفاع ہے جو احزاب میں درپیش ہے۔ دوسری قسم اقدام ہے جس کی مثال خیبر ہے۔خندق کا معرکہ ہے، کفر ہمیشہ کی طرح اسلامیوں کے خلاف متحد ہے۔ خوف و ہراس ہے۔ مشاورت ہوتی ہے۔ سلمان کے مشورے کے مطابق خندق کھودنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سالار آرڈر دے۔ ماتحت کام کریں۔۔۔ سالار کی جانب سے جلدی کی طلب ہو۔ سپاہ خون پسینہ ایک کرے کہ یہی رسمِ دنیا ہے۔ لیکن طریقِ احمدی میں مشقت ہے، بشارت ہے!سپہ سالار خود خندق کھودتے ہیں۔ سپاہ شکوہ کناں ہے کہ پیٹ پہ پتھر ہیں، کام نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن سالار کے، آقائے دوعالم کے شکمِ اطہر سے کپڑا اٹھتا ہے تو دو پتھر بندھے ہیں!!کدال کی ضرب پتھر پر لگتی ہے اور بشارت فتحِ فارس و روم کی ملتی ہے۔ یہ تسلی بھی ہے سپاہ کیلئے، خاصہ نبوت کی پیشین گوئی بھی۔احزاب امڈ آتے ہیں۔ انٹیلی جنس حرکت میں آتی ہے۔ حذیفہ لشکر میں گھوم پھر آتے ہیں اور نعیم بن مسعودپھوٹ ڈلواتے ہیں۔۔۔ تفصیل ذکر کروں تو پر جلتے ہیں!۔۔۔ الغرض خدا کی نصرت بھی اتر آتی ہے۔ نامرادی دشمن کا مقدر ہو جاتی ہے!دوسری قسم اقدامی جہاد ہے۔ یہودِ مدینہ عہد شکنی پر نکالے جاتے ہیں تو خیبر کو مسکن بناتے ہیں۔۔۔۔ سالار اپنی سپاہ کو لے کر پہنچتے ہیں۔۔۔۔ دو ایک کوششیں ہوتی ہیں۔ کامیابی نہیں ملتی۔ایک طریقہ یہ ہے کہ مایوسی سے لوٹ جایا جائے یا کمانڈروں پر ناکامی کی مہریں ثبت کر کے عقل کو غصے کے حوالے کیا جائے اور خود قلعے کی دیواروں سے جا ٹکرایا جائے کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں! لیکن طریقِ احمدی میں تدبر ہے، تحمل ہے!علَم علی کو تھماتے ہیں۔ اللہ کی مدد سے فتح ہوتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ غنیمت میں اموال کے ساتھ کوئی علاقہ بھی حاصل ہوتا ہے۔پھر ایک طریقہ یہ ہے کہ چند دن فتح کا جشن ہو۔ سپاہ کیلئے خوب عیش و عشرت کا سامان ہو اور سالار کیلئے دگنا ہو۔۔۔۔اور اپنے علاقے کو لوٹ جایا جائے۔ لیکن طریقِ احمدی میں انتظام ہے، انصرام ہے!اہلِ خیبر کو بعض شرائط کے ساتھ باجگزار بنا لیا جاتا ہے۔ عبداللہ بن رواحہ عامل مقرر ہوتے ہیں۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

اب!!سپاہ و سالار ہر امتحان میں سرخرو ہوتی ہے۔ وقت ہے صلے کا۔۔۔ دنیاوی اکرام کا! سو وعدہِ فتحِ مبین ہوتا ہے۔۔۔ مگر خالق کو یہ بندے اتنے پسند ہیں کہ ایک متحان! سخت تر۔۔۔ طویل تر باقی ہے۔ مقامِ حدیبیہ میں حالات بدل جاتے جاتے ہیں۔ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فطری عجلت اور ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے کلین چٹ تھما دی جائے یا کچھ اپنی اور کچھ ہماری سنو کے تحت چند کڑی شرائط منوا لی جائیں۔۔۔! لیکن طریقِ احمدی میں دور اندیشی ہے، صلح و آتشی ہے!پس فریقِ مخالف کی ہر بات مان لی جاتی ہے۔ نتائج نکلتے ہیں۔۔۔ صلح حدیبیہ تاریخ کے جنگی معاہدوں میں عظیم ترین دستاویز کے طور پر سامنے آتی ہے۔اور پھر لمحہ آتا ہے!!!۔۔سالارِ کریم۔۔۔ سپاہِ عظیم۔۔۔ فتحِ مبین! یہاں جذبات تو ہوتے ہیں زبان نہیں! احساسات تو ہوتے ہیں، تحریر نہیں۔۔۔ بس یہی کافی ہے کہ جس بات سے آغاز کیا تھا، انتہا اس کا ثبوت ہے!! کہ”تلوار بھی رحمت ہے”یہ وقت تھا سب بدلے چکانے کا، موقع بھی ہے۔۔۔ وسائل بھی۔۔۔۔ غلبہ بھی لیکن جس نبی کو تلوار دے کر بھیجا گیا ہے اسے اخلاقِ عالیہ کا کمال دے کر بھیجا گیا ہے۔۔۔۔! (3)واللہ! باللہ! تاللہ! کوئی سالار اس شانِ احمدی ۖکی خاک کو نہیں پا سکتا کہ قسم ہا قسم کے اعداء و ستم گر سامنے ہیں اور سالارِ اعظمۖ کی زباں سے نکلتا ہے تو کیا:”آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ” (یوسف:92)۔اور پھر ہمیشہ کیلئے جنگ کے اصول جو سراپا رحم ہیں مقرر ہوتے ہیں!! جی ہاں رحمت۔مثلہ منع، لوٹ مار منع، جلانا اذیت دینا منع، بچے بوڑھے عورت راہب پر ہاتھ اٹھانا منع، فصلوں کو نقصان پہنچانا منع، بدعہدی خیانت منع، عمارتیں گرانا منع!!مگر افسوس صد افسوس۔۔۔ آج امن کے نام لیوا ہر اس اصول کی دھجیاں اڑاتے ہیں جس سے امن کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو۔ اللھم علیک بھم! طوالت کا خوف ہے!مختصرا یہ کہ حنین میں شجاعت و استقامت، طائف میں رحمت و عظمت۔۔۔۔۔ اور تبوک میں مشقت و عزیمت کے سبق دہرا? جاتے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد کے مسلمانوں کیلئے تربیت کے یہ تین مراحل ہوتے ہیں۔ اور پھر۔۔۔۔ جب کسان کی کھیتی تیار ہوتی ہے تو وقتِ فراق آ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ نبی الملاحم، نبی الرحمة۔۔۔ سالارِ بے مثل کو خالق اپنی جناب میں بلا لیتا ہے۔ترکہ میں کیا چھوڑتے ہیں؟؟ رہنے دیجئے دل کو ہمت نہیں، لب کو یارا نہیں۔۔۔۔۔! رہتی دنیا تک کیلئے اپنا پیغام چھوڑنے والے کے حجرے میں وقتِ وفات کیا تھا!! پڑھ لیجئے گا۔۔۔ میرا پیمبر عظیم تر ہے۔

ہم ہیں منت گزارِ، شہِ انبیائ!!
جس نے خوں سے شریعت کو توقیر دی
جس کے شکمِ مبارک پہ پتھر بندھے
جس نے ورثے میں امت کو شمشیر دی
حوالہ جات
(1) بعثت بالسیف بین یدی الساعہ (مسنداحمد)،(2) نما بعثت معلما (مسند طیالس)،(3) بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (مؤطا امام مالک)

تحریر : فیضان فیصل، اسلام آباد
Faizanfaisal999@gmail.com