پیروں کے ڈرامے

Pakistan

Pakistan

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
پاکستان کی بہت بڑی روحانی گدی کا موجودہ جوان گدی نشین اپنی وسیع و عریض جاگیر لمبا چوڑا فارم ہائوس محل نما گھر ڈرائینگ روم جہازی ڈائیننگ ٹیبل پر انواع و اقسام کے کھانے اپنا شاہانہ طرز معاشرت مریدوں اور خادموں کی بہت بڑی فوج معاشرے اور ملکی سطح پر اپنا اثر و رسوخ یہ سب کچھ دکھا کر اب پیر صاحب مغرور اور فاتحانہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ اُسے یقین تھا کہ میں اُس کی قلابازیوں اور لفظوں کی جگالی سے ذبح ہوچکا ہوں گا جبکہ میں اُس کی مادیت پرستی اور ڈرامہ بازیوں سے بہت تنگ آچکا تھا۔ میں اُس کی حرکتوں سے تنگ آکر موبائل سکرین پر لوگوں کے آئے Messages پڑھ اور جواب دے رہا تھا۔

میری یہ حرکت پیر صاحب کے شاہانہ مزاج کو بہت بُری لگی پیر صاحب کے چہرہ غرور تکبر خودستائشی کی آگ سے دہک رہی تھا میری بے نیازی اور موبائل کی طرف توجہ اُن کی شان کے خلاف تھی اُن کے چہرے پر پریشانی اور غصے کے بہت سارے رنگ آچکے تھے ۔ وہ تو اپنی دانست میں اپنی ترکش کے سارے تیر ایک ایک کرکے چلا چکے تھے لیکن اُن کا ایک بھی تیر نشانے پر نہیں لگا تھا باتوں باتوں میں وہ بہت سارے قیمتی تحائف کا بھی ذکر کر چکا تھے جو واپسی پر اُس نے ہمیں دینے تھے اور ایک بہت پرکشش آفر وہ یہ بھی کر چکے تھے کچھ تحائف اناج پھل وغیرہ مختلف موسموں میں آپ کو پہنچ جایا کریں گے۔

wolrld

wolrld

وہ اپنے اخلاقی کردار روحانی ترقی اور تصوف پر مبنی تعلیمات کی بجائے دنیاداری میں لگا ہوا تھا شاید اِس مادی دنیا میں رہ رہ کر وہ بھی مادیت کی عالمگیر تحریک کا حصہ بن چکا تھا۔ ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی حیرت تھی کہ مجھ فقیر عاجز کو وہ کیوں متاثر کرنے پر تلا ہوا تھا ۔ اُسے مجھ فقیر سے کیا کام تھا میں تو صبح سے اُس کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا سب کچھ وہ ہی کہے جارہا تھا میں تو خاموش تماشائی بنا اُس کی مضحکہ خیز حر کتوں کو دیکھتا جا رہا تھا نہ میں اعتراض کر رہا تھا اور ہی خوشامدی قصیدے پڑھ رہا تھا۔

وہ شاید مجھ سے اپنی بہت زیادہ تعریف اور تابعداری مانگ رہا تھا لیکن وہ شاید یہ بھول گیا تھا یا اُس کا میرے جیسے پاگلوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا اُسے اِس حقیقت کا ادراک نہیں تھا کہ جو ایک بار عشق الہی کے سفر پر چل پڑے دنیا پھر اُس کے لیے بے معنی ہو جاتی ہے پھر سونے چاندی ہیرے جواہرات اور دنیا کے خزانے اُس کے لیے پتھر کے ٹکڑوں کے برابر ہوتے ہیں اور یہ ہے بھی سچ کہ جس پر خالق کائنات کے عشق کا رنگ چڑھ جائے پھر اُس پر دنیا کے کسی رنگ کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ خدا کے عشق کا رنگ اتنا گہرا اور خوبصورت ہے کہ دنیاوی تمام رنگ پھیکے پڑجاتے ہیں۔

Pir Sahib

Pir Sahib

اور یہ پیر صاحب دنیاوی رنگوں کے چکر میں صبح سے اپنا اور ہمارا وقت برباد کر رہے تھے۔ میں بار بار اپنے دوست سے واپسی کا پوچھ رہا تھا کہ ہم نے واپس کب جانا ہے لیکن میرا دوست تو شاید بہت پرانا اُن کا مرید یا چاہنے والا تھا اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ واپس جانے کی اجازت مانگتا ۔ میری بے زاری بے نیازی پیر صاحب کو کھائے جا رہی تھی میرے روئیے کو پیر صاحب نے اپنی توہین سمجھا کہ میں نے اُن کے شاہی دربار میں آکر بہت بڑی گستاخی بلکہ بے شمار گستاخیاں کیں ہیں اب پیر صاحب کے چہرے پر غرور اور فاتحانہ رنگ کی جگہ پریشانی والا رنگ پھیلتا جا رہا تھا ۔ اب پیر صاحب گہری سوچ میں غرق نظر آئے وہ کسی بھی صورت ہار ماننے کو تیار نہیں تھے کیونکہ اُنہوں نے زندگی میں کبھی ہار کا ذائقہ نہیں چکھا تھا۔ پیر صاحب نے ساری زندگی انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روندا تھا مسلا تھا۔

اُن کو ہمیشہ برتری کی عادت تھی لہذا اُسی برتری جیت کے لیے وہ یقینا کسی نئی سوچ میں گم تھے اور پھر اچانک اُن کی پریشانی دو ر ہوتی نظر آئی ایک دم وہ چست ہوگئے شاید اُن کے دماغ میں کوئی نیا خیال یا چال آگئی تھی اَس نئے خیال کے ساتھ ہی اُن کا چہرہ ایک بار پھر تکبر غرور کے رنگ سے چمکنے لگا پیر صاحب کو اپنی اِس چال کے کامیاب ہونے کا پورا یقین تھا اب انہوں نے اپنے ایک خادم کو اشارہ کیا وہ دوڑتا ہوا آکر جھک کر کھڑا ہوگیا پیر صاحب نے آہستہ سے اُسے کچھ کہا تو وہ تیزی سے باہر چلا گیا۔ پیرصاحب کے اچانک بدلتے روئیے سے ہم بھی الرٹ ہوگئے کہ پتہ نہیں اب پیر صاحب کونسی نئی حرکت کرتے ہیں اب کیا نیا ڈرامہ کرتے ہیں اب ہم سب اشتیاق اور متجسس نظروں سے پیر صاحب کو دیکھ رہے تھے وہ ملازم جلد ہی واپس آگیا اُس کے ہا تھ میں تھال نما برتن تھا جس پر سفید ریشمی ہاتھو ں کے دستانے پڑے تھے۔

پورے ادب و احترام سے پیر صاحب کو ریشمی دستانے پیش کئے گئے ہم حیران تھے کہ اچانک دستانے پہننے کی ضرورت کیوں پیش آگئی ابھی ہم دستانوں کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک بیس پچیس لوگ انتہائی مودب ہو کر کمرے میں آکر سر جھکائے کھڑے ہو گئے ہم حیران کہ اب کو نسا ڈرامہ ہونے جا رہا ہے اب پھر پیر صاحب نے اپنے ترکش کا آخری تیر بھی چلا دیا مغرور اور گہری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے باواز بلند بولے یہ لوگ ہم سے بیعت ہونے آئے ہیں۔ اب انہوں نے ہمیں آفر کی کہ اگر آپ بھی روحانیت تصوف کی لا زوا ل دولت لوٹنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بھی بیعت کر لیتے ہیں انہیں یقین تھا کہ ہم بھی بیعت کی غرض سے آئے غلاموں میں شامل ہو جائیں گے۔ اُن کی اِس پر کشش آفر کے جواب میں میں خا موش گہری نظروں سے اُن کو دیکھتا رہا اور اپنے چہرے کے تاثرات سے پیر صاحب کو بتا دیا کہ اُن کے اِس خزانے کو لوٹنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ پیر صاحب نے ہما ری عدم دل چسپی دیکھ کر آنے والے غلام نما انسانوں کو قریب آنے کا اشارہ کیا اب پیر صاحب کا خلیفہ حرکت میں آیا آنے والوں کو لائن میں کھڑا کیا پھر لائن کے شروع میں بندہ پیر صاحب کے پیروں میں بیٹھ گیا باقی سارے اُس کے پیچھے لائن میں بیٹھ گئے۔ پیر صاحب نے اپنے گلے میں پڑے ہوئے چادر نما کپڑے کو اتارا اور قدموں میں بیٹھے ہوئے مرد کو ایک کونا پکڑا دیا اُس شخص کے پیچھے والے نے پہلے کی کمر پر ہا تھ رکھ دیا اِسی طرح آنے والوں نے ایک لا ئن میں ایک دوسرے کی کمر پر ہاتھ رکھ دیا تمام افراد زمین پر اپنی گر دنیں جھکائے بیعت کی سعادت سے سرفراز ہونے جا رہے تھے۔

Rawalpindi

Rawalpindi

پیر صاحب کے ہا تھوں میں دستانوں کی وجہ، میں وطن عزیز کی اور بھی بہت ساری گدیوں پر دیکھ چکا تھا کہ اکثر پیر صاحب بیعت کرنے سے پہلے ہا تھو ں میں دستانے اِس لیے پہنتے ہیں کہ کہیں الرجی نہ ہو جائے کسی کی بیماری پیر صاحب کو نہ لگ جائے یا جوش عقیدت میں اگر کوئی مرید مرشد کے ہا تھ چومنا چاہے تو جلد بازی میں مرید کا ناخن مرشد کریم کو زخمی نہ کر دے راولپنڈی کی بہت بڑی روحانی گدی پر جب میں نے پہلی دفعہ اپنے پسندیدہ پیر صاحب کو دستانے پہنے دیکھا اور وہ بیعت ہونے والوں کو دھکے دے کر آگے کر رہے تھے مرید بیچارے اپنی روحانی پیاس کی بات کر نا چاہتے تھے لیکن ان کی بات سنے بغیر انہیں تقریباً دھکے دے کر آگے کر دیا جاتا ۔ میں جو اُن پیر صاحب کا عقیدت مند تھا اُن کی اِس چھوٹی حرکت کے بعد آج تک اُن کی طرف مُڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ محترم قارئین آپ نے بھی وطن عزیز کی بے شما ر روحانی گدیوں پر اِن دلہا نما فلمی اداکاروں کو ریشمی دستانوں میں دیکھا ہوگا ۔

اب جو پیر اپنے مرید سے ہا تھ ملا نا پسند نہیں کر تا روحانی فیض کسی کو کیا دے گا۔ اگر مرید بیچارے عبادت ریاضت مجاہدات ذکر اذکار کے با رے میں پوچھنے کی جسارت کر یں تو اُن کو کہا جاتا ہے کہ وہ اُن کی چھپی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کر یں اُن کتابوں میں سب کچھ بتا دیا گیا ہے اب کوئی ایسے گدی نشینوں سے یہ پو چھے کہ اگر کتابوں کو دیکھ کر ہی راہنمائی اور روحانی پیاس بجھانی ہے تو پھر آپ لوگوں کے دروں پر ماتھے رگڑنے اور حلال کی کمائی نذر نیاز کے طور پر کس لیے دی جا ئے ۔ یہاں بھی ایسا ہی نظارہ تھا سادہ لوح معصوم لوگ آنکھوں میں روحانیت تصوف کے چراغ جلائے اپنے خالی دامن بھرنے اور پیاسی روحوں کی پیاس بجھانے آتے تھے وہ اِس بات سے بے خبر تھے کہ وہ ایک ایسے ٹرانسفارمر کے پاس آئے ہیں جس میں خود ہی کرنٹ نہیں اگر کسی ٹرانسفارمر میں ہی کرنٹ نہیں ہوگا تو وہ آنے والے زائرین کی اندھی بے نور روحوں کو کس طرح روشنی کی دولت عطا کرے گا۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956

Peer Sahib

Peer Sahib