آخر ایسا کیا ہوا

ALLAH

ALLAH

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
بلال مسجد کے پہلو میں واقع اس گلی پر واقعی اللہ کی رحمت کا سایہ تھا ،بچوں کو اسکول سے لاتے ہوئے میں اکثر ڈرئیور کو اسی گلی کا راستہ اختیار کرنے کو کہتی ،ایک تو اس گلی کے تندور کی روٹیاں مجھے بہت پسند تھیں پھر وہاں کا ماحول ۔۔۔۔۔ٹیڑھی میڑھی چارپائیوں پر بیٹھے مزدور اتنی آسودگی اور رغبت سے کھانا کھاتے نظر آتے جیسے زمانے میں کوئی دکھ نہیں اس گلی میں چند ہی گھر تھے ،تین ڈھابے ،جن پہ دال ،سبزی،پائے اور کھوئے والا زردہ ملتا تھا ،ایک چھوٹا سا جنرل سٹور جس پہ ضرورت کی ہر چیز مل جاتی تھی ،ساتھ ہی مسجد سے اندر باہر آتے جاتے سر پہ ٹوپیاں پہنے معصوم سے بچے ،تندور پہ روٹیاں لگواتی بوڑھی عورتیں اور بچے ،لمبے سے قد کا دبلا پتلا تندور والا بڑی پھرتی سے روٹیاں لگائے جاتا ۔تندور ٹھنڈا ہونے کے بعد بھی اگر کوئی روٹیاں لگوانے آجاتا تو وہ اللہ کا بندہ بڑی خندہ پیشانی سے دوبارہ تندور جلا کر روٹیاں لگاتا۔

میں اپنے ڈرئیور سے کہتی اتنی گرمی میں یہ بندہ کتنی خوشی خوشی روٹیاں لگاتا ہے ۔اس نے یہی بات ایک دن اس سے پوچھ لی تو وہ آدمی مسکرا کر بولا میں بھی مزدوری کرتا تھا ظاہر ہے مزدوری کے لیئے در بدر ہونا پڑتا ہے کئی کئی دن گذر جاتے بیوی کے ہاتھ کی روٹی کھائے ،اچھی نرم روٹی میری کمزوری ہے مجھے روٹی پسند نہ آتی،کبھی زہر مار کر لیتا کبھی بھوکے گذار لیتا ،ایک دن اس گلی میں آیا تو تندور والا جو گرمی سے بیزار تھا کہنے لگا یار میں تو ابھی بیٹھا ہوں ۔” میں نے کہا اجازت دو تو میں خود دو روٹیاں تھاپ لوں اس نے اجازت دے دی میں نے دو کے بدلے چار روٹیاں لگائیں اور تندور والے کے پاس جا بیٹھا۔

اس نے نوالہ توڑا اور سوچتی نظروں سے مجھے دیکھ کر بولاروٹیاں لگائے گا ؟ دیہاڑی لگا لے یا مہینہ تیری مرضی ۔۔۔میں نے حامی بھر لی میں نے روٹیاں لگانی شروع کیں رش بڑھتا گیا وہ تندور میرے حوالے کر کے اپنے گوٹھ واپس چلا گیا ۔پہلے میں لوگوں کی روٹیاں لگاتا رہا ۔پھر خود اپنا آٹا دال لے آیا کبھی سبزی بھی بنا لیتا ہوں ۔یہ سب کئی کئی روٹیاں کھا جاتے ہیں ادھار بھی کرتا ہوں کسی کے پاس نہ ہو تو اللہ کے نام پر روٹی دے دیتا ہوں مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔یہ مزدور بڑے خود دار ہوتے ہیں ورنہ مزدوری کیوں کریں بھیک نہ مانگ لیں ۔بس یار اللہ مالک ہے کام چل رہا ہے بڑا سکون ہے یہاں ۔۔۔۔۔۔۔

Roti

Roti

تب روٹی ایک روپے کی تھی وزن بھی درست آٹا بھی اچھی کوالٹی کا وہ بندہ خود پسوا کے لاتا ۔۔۔۔۔۔اس گلی میں مناسب سے پختہ گھر تھے ایک بڑا سا پیپل اور ایک شریم کا درخت جن کے سائے میں لوگ بیٹھا کرتے ۔ایک دن دیکھا شریم کٹ رہا ہے پھر وہاں ایک عالی شان کوٹھی بننے لگی سننے میں آیا کوٹھی بنوانے والے کو یوٹیلیٹی سٹور کا کام مل گیا ہے ۔شہباز شریف نے سستی روٹی سکیم شروع کی تو تندور اجڑنے لگے ہم بڑے حیران کہ الٹ کام کیوں؟ایک دن ہم وہاں سے گذرے تو دیکھا تندور والا بڑی بے دردی سے اپنا تندور توڑ رہا تھا ۔ڈرئیور نے وجہ پوچھی تو سر جھٹک کے بولا بس یار اپنا رزق اٹھ گیا ہے یہاں سے ۔پر کیوں؟ درئیور کے استفسار پر لپک کے دوسرے تندور پر گیا

ایک روٹی اٹھائی اور دکھا کے بولا اپنے ایمان سے بتا یہ روٹی ہے؟قدرے سرخی مائل آٹے کی روٹی کچی پکی سی لگ رہی تھی کہنے لگا یار گرمیوں کے چھ ماہ روٹیاں لگاتا تھا اور چھ ماہ گھر بیٹھ کے کھاتا تھا کوئی تنگی نہ تھی اس سستی روٹی سکیم نے بیڑہ غرق کر دیا ہے ۔بارش سے بھیگی پھپھوندی لگی گندم کھپائی جا رہی ہے کیسے حکمران ہیں یار اللہ سے بھی فراڈ؟اداسی سے بولا جو روٹی میں خود نہیں کھا سکتا دوسروں کو کیسے کھلا سکتا ہوں یہ آٹا صحیح طور پہ پکتا ہی نہیں ،لوگ بیمار ہونے لگے ہیںتم نے میرے تندور کی روٹی تو کھائی ہے نا ؟وزن میں سواد میں کیسی تھی بڑی بڑی گاڑیوں والے یہاں سے روٹیاں لینے آتے تھے ۔اب جو آتا ہے دوبارہ پلٹ کے نہیں آتا۔

مسجد کے بچوں کی روٹیاں بھی یہیں پکتی تھیں کل ایک بچے کے پیٹ میں ایسا درد اٹھا تو میں نے سوچ لیا اب نہیں غریب کی روٹی چھین لی انہوں نے اب جس کو اچھی روٹی چاہیئے وہ ساتھ والے ہوٹل سے پانچ روپے کی روٹی لیتا ہے (آجکل روٹی دس روپے کی ملتی ہے) میرے ڈرئیور نے کہا تم چلے جائو گے تو کوئی اور یہ تندور چلائے گا ۔” کہنے لگا نہیں یہ تندور اب کبھی نہیں چلے گا نہ ہی میں کبھی واپس آئوں گا۔اور حیرت کی بات ہے اس جگہ پھر کوئی تندور نہیں لگا ۔نہ اب وہاں چار پائیاں نظر آتی ہیں نہ مزدور ۔حالانکہ اب وہاں کافی ہوٹل کھل گئے ہیں لیکن وہ آباد گلی اب ویران نظر آتی ہے لگتا ہے جیسے وہاں سے اللہ کی رحمت اٹھ گئی ہے سستی روٹی سکیم اپنے ساتھ ایسی نحوست لائی کہ ایک روپے والی روٹی اب دس روپے میں ملتی ہے شکر ہے وہ گندم ختم ہوئی کم از کم لوگ مزید بیمار ہونے سے بچ گئے ورنہ گیسٹرو کئیوں کی جان لے گیا یقین کریں

Hospital

Hospital

ہسپتال مریضوں سے بھر گئے تھے ۔یہ اور بات کہ موت نے اب شکل بدل لی ہے ۔کبھی طالبان کی صورت تو کبھی ظالمان کی صورت ۔۔۔۔۔۔اب یہ خود بھی محفوظ نہیں ۔۔۔بھیڑیوں کو گلہ بانی سوپنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو ووٹ اور نوٹ دیتے ہیں اپنی شرائط بھی منواتے ہیں ۔عابد شیر علی نے چٹ پر جو نام لکھ کر میاں صاحب کو بھیجا تھا وہ نام آتے ہی ایک رکن اسمبلی اور اس کے بیٹے کو نگل چکا ہے کیونکہ انہوں نے خوف کا اظہار کیا تھا ہماری جانوں کو خطرہ ہے اور حکمرانوں نے کیسی حفاظت کی ہے۔محمد شاہ بادشاہ دہلی کے زمانے میں ایسی ہی طوائف الملوکی کا زور تھا ۔ملک میں بد امنی ،شورش اور ناانصافی کا دور دورہ تھا

اراکین سلطنت بھی بادشاہ کی غفلت و سرشاری کو اپنی کامیابی سمجھتے تھے ۔نظا م الملک آصف جاہ اول (جس نے بعد میں حیدر آباد دکن میں اپنی الگ مستقل سلطنت قائم کر لی تھی ) یہ حال دیکھتا اور کڑھتا مگر خود غرض اراکین کی کثرت اور بادشاہ کی کم فہمی کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکتا تھا آخر ایک دن جی کڑا کر کے بادشاہ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ملک کی حالت خراب ہو رہی ہے اجارہ دار رعایا پر شدید ظلم کر رہے ہیں

Pakistan Senate

Pakistan Senate

اجارہ داری کا دستور جو ملک کی خرابی اور ویرانی کا باعث بن رہا ہے بر طرف ہو نا چاہیئے ،مگر بادشاہ سمجنے کی بجائے انہی اراکین سلطنت سے مشورہ مانگنے لگا جو ان ساری خرابیوں کی جڑ تھے نتیجہ یہی نکلا کہ انہوں نے بادشاہ کو ایسی پٹیاں پڑھائیں کہ وہ الٹا نظام ا لملک سے ہی بد گمان ہو گیا اور نظام الملک اپنی عاقبت اندیشی اور اپنی آبرو بچا کر جلوس محمد شاہی کو دکن کی طرف چلا گیا ۔چراغ بجھنے سے پہلے چمکتا ضرور ہے لو پھڑ پھراتی ہے اور نادان اپنی غفلت سے اندھروں میں ڈوب جاتے ہیں !

تحریر : مسز جمشید خاکوانی