آس کِرچی کِرچی ہو گیا

 People

People

سُن تو یہی رکھا ہے کہ جب وقت بُرا آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے، کچھ ایسا ہی آج کل عوام کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ جب پچھلی حکومت عروج پر تھی تو ان کے لیڈروں کا دماغ ساتویں آسمان سے بھی تجاوز کرنے لگا تھا۔اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ نئی حکومت کے بھی لیڈر ان کا دماغ ساتویں آسمان پرہی نظر آرہا ہے۔ اور اب تویہ لیڈران اپنے قدم جمانے کے لئے زمین ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ تاکہ اگلے پانچ سالوں تک عوام کو کس کس طرح بے کس و بے یار و مددگار چھوڑا جا سکے۔ ذرایع ابلاغ کا وہ ٹولہ بھی جو موجودہ حکومت کے لئے سایہ بنے ہوئے تھے۔

اب برسات کے مینڈکوں کا رول ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخر یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہاں کی عوام ان کی کھیتی نہیں ہیں بلکہ اسی گھروندے کے پروردہ ہیں جہاں صرف خود غرضی، مطلب پرستی، کی تربیت نہیں ہونی چاہیئے بلکہ عوامی بھلائی کے کام بھی ہونا چاہیئے۔ اگر نئی حکومت اس بات پر ہی غور کر لے کہ پچھلی حکومت کا عوام نے کیا انجام کیاہے توکم از کم اتناتو ضرور ہوگا کہ وہ اپنی ساکھ بحال رکھنے کے لئے عوامی کام ضرور کرے گی۔ وگرنہ پھر عوام ہونگے اور یہ حکمران اس لئے بہتر عمل یہی ہوگا جو اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

کیونکہ عوامی غیض و غضب سے کوئی بھی کبھی بھی بچ نہ پایا ہے۔ بجٹ کا اعلان کیا ہوا مہنگائی کا ایک سیلِ رواں عوام پر نازل ہوگیا ہے۔ ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے۔ اور تنخواہوں میں اضافہ صرف دس فیصد امن و امان ناپید ہے اور وفاقی و صوبائی حکومت ابھی تک امن و امان بحال کرنے کی طرف توجۂ خاص دینے پر شاید راضی نہیں لگتے۔ کل لاہور کے انار کلی میں بھی دھماکہ ہو گیا اور کئی قیمتی جانیں داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئیں، اور زخمیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔اور اس کے بعد وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔

مرنے والوں کے لئے پانچ پانچ لاکھ روپئے اور زخمیوں کے لئے ایک ایک لاکھ روپے کے ریلیف کا اعلان کر دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ مذمتی بیان بھی نازل کر دیا گیا۔ کیا ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا۔ جن کے اپنے اس دنیا سے ایسے حملوں میں گزر چکے ہیں، کیا ان کے دکھوں کا مداوا یہ روپے ہو سکتے ہیں؟کیا ان روپوں سے ان کے لواحقین واپس آ سکتے ہیں شاید نہیں بلکہ ہرگز نہیں اس لئے کہتا ہوں کہ خدارا امن و امان کی طرف خصوصی توجہ دیجئے، عوام کو مرنے سے بچایئے، یہ اسی ملک کے رہنے والے لوگ ہیں جن پر پتہ نہیں کن کن طریقوں سے حملے ہو رہے ہیں۔

Terror attacks

Terror attacks

کبھی دہشت گردانہ حملے، کبھی نشانہ وار قتل، کبھی ڈرون حملے، کبھی مہنگائی کے حملے، کبھی جی ایس ٹی کے حملے، اور اس پر طُرّہ یہ کہ سہولیات نہ ہونے کے برابر۔ اُف خدایا ہماری یہ عوام کیا کرے، کہاں جائے، کس سے فریاد کرے ،کس سے داد رسی چاہے۔ اب توحال یہ ہے کہ کوئی بھی بندہ بشر کسی جگہ بھی اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کر سکتا۔ کیونکہ کہیں بھی، کسی بھی وقت، کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ حالات و واقعات تو یہی بتا رہے ہیں آگے دیکھئے کہ کیا ہوتا ہے ویسے ایسا محسوس ہوتا ہے۔

کہ وقت کی مار نے عوام اور حکومت (دونوں کو) کہیں کا نہیں رکھا۔ عوام اللہ کو بھول بیٹھی ہے اس لئے ان پر حکومتی سطح کے علاوہ قدرتی آفات بھی وقتاً فوقتاً نازل ہورہے ہیں اور حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ وہ خزانہ خالی ہونے کا رونا روتے ہیں اور پھر سب کچھ ورثے میں ملاہے کاکہہ کا نیا قرض لینا شروع کر دیتے ہیں جن پر سود در سود کا پروگرام طے ہو جاتاہے۔ اب بتایئے کہ سود کے حوالے سے قرآن و حدیث میں کس قدر منع کیا گیا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ سود کی لعنت کو بجائے ختم کرنے کے اس کی طرف ڈھلکتے ہی چلے جا رہے ہیں۔

اللہ ہم سب کو اس سود کی عذاب سے محفوظ فرمائے۔ بس ہر کوئی اتنا یاد رکھے کہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی اور تاریخ اپنے آپ کو دہراتی بھی ہے۔اس لئے مثبت عملی اقدامات کئے جائیں جس سے حکومت کا عوام پر اور عوام کا حکومت پر اعتماد قائم و دائم رہے۔ جب ملک میں امن و امان ہوتا ہے تو ملک بھر میں ترقیاتی کام بھی تیزی سے ہوتے ہیں۔ مگر رواں عرصے میں ہمارا ملک دہشت گردی، افرا تفری کی حدوں کو پار کر رہا ہے۔ کہیں گولی چل رہی ہے اور کہیں بم دھماکے ہو رہے ہیں، کہیں مار ڈھار جاری ہے۔

تو کہیں ہڑتال اور کہیں کرفیو؟ ان تمام حالات کی وجہ سے ملک بھر میں ترقیاتی کاموں میں شدید دشواری کا سامنا بھی ہوتاہے۔ اور یوں ترقی کی دیوی ہم سے روٹھ جاتی ہے۔ جب ریاست میں چین کی بانسری بجے گی تب جاکر ہم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکیں گے۔ امن و امان ہوگا تو بے روزگاری بھی ختم ہو سکتی ہے۔ وگرنہ ہمارے ملک کے نوجوان یونہی ڈگری لے کر نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہیں گے مگر انہیں نوکری نہ مل پائے گی۔ اور ملے بھی کیسے، حالات کی وجہ سے انڈسٹریاں بند ہو رہی ہیں۔

Poverty

Poverty

جو چل رہی ہیں انہیں بھتہ خوری اور کء دوسری طرح کے مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ نئے لوگوں کو نوکری دینا تو کُجا پرانے لوگوں کو بھی نوکریوں سے بے دخل کر رہے ہیں کہ کاروبار ہے نہیں تو تنخواہیں کہاں سے دیں گے۔ اس لئے حکومتوں کا اوّلین کام اس وقت امن و امان کو قائم کرنا ہونا چاہیئے، امن و امان ہوگا تو سب کچھ ملک میں ہوگا، ترقی بھی، نوکری بھی، اور دوسری ضروریات بھی جن کا براہِ راست تعلق عوام سے ہوتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں انتہائی نامساعد حالات، غربت، تنگدستی کا بسیرا ہے۔

لیکن 18 کروڑ عوام صرف اسی امید کے سہارے اپنی نائو کو پار لگانے کے انتظار میں ہیں کہ کبھی تو حالات بدلیں گے۔ اور کبھی تو ہم بھی چہکیں گے اپنی مستقل مزاجی و قوتِ ارادی کی بناء پر نامساعد حالات اور معاشی پسماندگی کو شکستِ فاش دے کر، ویسے بھی کہتے ہیں نا کہ ارادے نیک و مضبوط ہوں تو چٹانیں بھی کھسک جاتی ہیں۔ غلامی میں کام نہیں آتیں نہ تقدیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں بہرِ کیف ہماری تعمیر میں کوئی خرابی کی صورت چھپی ہے۔

یا کوئی بد دعا آسیب بن کر ہماری تعاقب میں ہے، پتہ نہیں۔ بگاڑ ختم ہونے میں نہیں آتا، ہم کروڑوں کی تعداد میں ہیں مگر بے ہنگم بھیر کی طرح راہ و منزل سے بیگانہ ہیں۔ حقوق کے تحفظ اور مستقبل کے بارے میں پُر عزم قوم ابھی تشکیل نہیں ہوپائی ہے۔ ہمارے مسیحائوں کے اپنے نعرے اور اپنے انداز ہیں، لیکن سلامتی اور وجود کو لاحق خطرات کے تئیں لاپرواہی اور اپنی مصلحتوں کے شیش محل سے باہر نہیں نکلتے اور نہ ہی عوامی سمندر میں کوئی اُبال آتاہے۔ان کی ترجیحات بدستور سیاسی، جماعتی اور مسلکی مفادات کے کھونٹے سے بندھی ہیں۔

اور ملت کو بے یقینی کی دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ اسے بے ثمر سیاسی تماشوں کی عادت لگا دی گئی ہے۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی سرکس لگا رہتا ہے اور اصل مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ سازشوں کا ڈت کر سامناکیا جائے۔ مشترکہ پلیٹ فارم بنا کر اس دلدل سے باہر نکلا جائے، اتحاد، یقینِ محکم، ایمان پر قائم ان سیڑھیوں کو مضبوط کیا جائے۔

پیشانی پر لگے دہشت گردی کا داغ دھو نے کی جد و جہد کی جائے۔ قتل و غارتگری اور نفرتوں کے بوئے ہوئے بیج کی بیج کنی کی جائے تاکہ تمام پاکستانی پھر سے خوش و خرم طریقے سے زندگی گزار سکیں۔ ملکی سلامتی کو دائو پر لگانے والے گروہ کو کسی طور بھی نہ بخشا جائے اور ان کی مکمل سرکوبی کیلئے سر جوڑ کر بیٹھاجائے۔ ملک و بیرون ملک اس ملک کے توانا ہنرمندوں کو نوکری فراہم کی جائے تاکہ احساسِ محرومی کا بھی قلعہ قمع ہو سکے۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی