حلقہ فکروفن کی یوم اقبال پر کاشانہءادب پر تقریب

HALQA-E-FIKRO FUNN,

HALQA-E-FIKRO FUNN,

تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری
اقبال کی شاعری فکروفن کا حسین امتزاج ہے اور ان کے الفاظ خوبصورت فطرتی صداقت کی نشاندہی کرتے اور ذہن ذہن سفر کرتے ہیں اقبال کے تازہ بہ تازہ اور نویدنو افکار کو عام انسانی ذہن تک منتقل کرتے ہیں۔ انہوں نے طرز بیدل سے زبان ریختہکا ایسا لحن تیار کیا جو پہلے موجود نہیں تھا۔ انہوں نے غزل کے نقطیات تبدیل کرکے غزل کو نیا آہنگ دیا۔ اور جدید اردو غزل میں کشادگی کی بنیاد رکھی۔موضو عاتی غزل اور غزل مسلسل ان کے ہی انداز فکر کی کارکردگی ہے۔ دور حاضر کا ایک شعر ان کی نظر کرنا چاہتا ہوں۔

جو نظر کے سامنے ہے وہ بھی کچھ کم تو نہیں
لیکن جو ابھی دیکھا نہیں ہے انتہائی خوبصورت ہے

ان خیالات کا اظہار یوم اقبال کی ایک پروقار تقریب میں ناظم تقریب جاوید اختر جاوید نے کیا۔ یہ محفل حلقہ فکروفن کے مرکزی صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کی رہائش گاہ “کاشانہ ادب” پر منعقد ہوئی۔ جس کی صدارت کے فرائض سفیر اسلامی جمہوریہ پاکستان عزت معاب منظور الحق نے ادا کیے اور اس کی مہمان خاص بیگم سفیرِ پاکستان تھیں جبکہ اعزازی مہمان برگیڈیر جاوید اشرف تھے۔

HALQA-E-FIKRO FUNN,

HALQA-E-FIKRO FUNN,

تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ حلقہ فکروفن کے مرکزی صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے کاشانہءادبپر مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے اظہاریہ میں فکر اقبال کے پہلووںپر تنقیدی جائزہ پیش کیا اور خاص طور پر اقبال کے تصور شاہین پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اقبال نے جن فکری اثرات کو قبول کیا ان میں نطشے کا فلسفہ قوت و زندگی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ جرمن قوم کی فعالیت، بلند نظری اور جرمن مرد کی خود شناسی اور خود اعتمادی نے اقبال کے نظامِ فکر پر گہرا اثر ڈالا-اقبال کا تصور شاہین قوت، تیزی، وسعت نظر، دور بینی اور بلند پرواز پر محیط ہے ۔ اقبال نے اپنے شاہین کو دوراندیشی، قلندری،اور خودار یوبے نیاز یکیاعلٰیصفا تسے بھیمز ینکیا ہے اور اپنیقو مکے نوجوانوں کے سامنے اسے زندگیکا بہتریننمونہبناکرپیش کیا ۔شاہینِ اقبالکیسیر تکیا یکجھلکبا لِجبرائیل کی مشہور نظممیں یوں نظرآتیہے۔

کیا میں نے اس خاکدان سے کنارہ
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ

بیابانوں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ

حلقہ فکرو فن کے سیکریٹری وقار نسیم وامق نے بحضور اقبال منظوم خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا۔

پیغام جس کا نوعِ انسانیت کے نام تھا
وہ کوئی گلفام تھا یا لالہ فام تھا

جس نے سرور آگاہی سب کو عطا کیا
وہ بے کدہ فلسفہ کا ایسا جام تھا

HALQA-E-FIKRO FUNN,

HALQA-E-FIKRO FUNN,

ڈاکٹر ھنا امبرین طارق نے اقبال کے فکرو فن پر بھرپور تبصرہ کرتے ہوئے زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر محمد اصغر چشتی، ڈاکٹر سعید احمد بٹ، عبدالرزاق تبسم، تنویر میاں نے کلامِ اقبال فن کارانہ ترنم پیش کرتے ہوئے سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی کا عملی مظاہرہ کیا۔

برگیڈیر جاوید اشرف نے کہا کہ فی زمانہ اقبال کے افکار کو نوجوان نسل تک منتقل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ فکرِ اقبال کے چراغ کو روشن کرنے سے ذہن کو سکون اور روح کو تازگی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقبال مجموعہ صفات ہیں وہ بیک وقت سکالر، ایک عظیم شاعر، بلند پایہ مفکر، اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وکیل بھی تھے۔محمد صابر کشنگ نے اپنی منظوم پنجابی نظم ” اقبال دی گل” پیش کر کے بے ساختہ داد وصول کی۔جبکہ بیگم صابر کشنگ نے اپنی فارسی اظہاریہ میں جوبصورت تبصرہ پیش کیا۔ اور اقبال کا فارسی کلام پیش کرکے سماں باندھ دیا جس کی تعریف سفیر محترم نے بھی کی۔

HALQA-E-FIKRO FUNN,

HALQA-E-FIKRO FUNN,

ڈاکٹر جاوید نے فکر اقبال کا موازنہ مغربی فلاسفر کے افکار سے کرتے ہوئے اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا اور کلام اقبال کے فکر انگیز اثرات پر روشنی ڈالی۔سفیرِ پاکستان نے فرمایا آج کی یہ خوبصورت محفل فکروفن کا خوبصورت امتزاج ہے۔ جس میں فکر اقبال پر پٌرمغز خیالات کا اظہار کیا گیا۔ انہوں نے فرمایا اقبال صدیوں کے شاعر ہیں اور فکر اقبال صدیوں پر محیط ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو کلام اقبال سے فیض یاب کرنا چاہیے۔ تاکہ فکر اقبال کی روشنی قریہبہ قریہ پہنچائی جا سکے۔ اقبال پوری دنیا کے شاعر ہیں ۔ انہوں نے وقت کے مطابق شاعری کی۔ ان کی شاعری دوسری زبانوں میں بھی خاص اثر رکھتی ہے۔ انہوں نے عرب دنیا میں اقبال کے پیغام نے جو اہم مقام حاصل کیا اس کا خاص طور پر تفصیل سے ذکر کیا۔

پاکستانی ادب کی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے اور علاقائی ادب اور ثقافت کی ترویج اور سعودی عرب میں بھرپور انداز میں عکاسی اور نقاشی کرنے پر حلقہ فکر و فن نے سفیرِ پاکستان کو خصوصی ٹرافی پیش کی۔ جو بیگم سفیرِ پاکستان نے پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے سفیر پاکستان کو دی۔آخر میں میزبان ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری کی طرف سے مہمان گرامی اور معزین شہر جن میں شاعر، دانشور، محقق، ادیب، اساتذہ اور ماہرین شامل تھے کا کاشانہءادبمیں تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور محل کا اختتام شرکاء کے اعزاز میں پر تکلف عشائیہ پر ہوا۔

تحریر: ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری