سیلاب کے خدشات کیا ہم تیار ہیں؟

Flood

Flood

تحریر : محمد نواز بشیر
پاکستان میں جب بارشیں نہیں ہوتیں تو خشک سالی آجاتی ہے اور جب بارشیں ہوتیں ہیں تو سیلاب آجاتاہے اس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ عذاب الہی نہیںبلکہ عذاب موجودہ نظام اوراس کو قائم رکھے ہوئے ہمارے حکمران ہیں،کیونکہ بار بار کی سیلابی تباہی کے باوجود اس کے سد باب کے لیے کچھ نہ ہونے سے انتظامیہ حکومت اور نظام کا ناقص پن اور نااہلی ثابت ہوتی ہے مون سون کی بارشوں میں آنے والے دنوں میں یہ پاکستان میں پہلا سیلاب نہیں ہوگا اور سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ سیلاب آخری بھی نہیں ہوگا۔محکمہ موسمیات بار بار خبردار کر رہا ہے کہ رواں سال مون سون سیزن میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوں گی بلکہ پری مون سون کا سلسلہ بھی قدرے طویل ہوگا، مجموعی طور پر اس سال پنجاب،سندھ ، خیبر پختونخوا، بلوچستان کے شمال مشرقی علاقوں اور آزاد کشمیر میں معمول سے 10سے 20 فیصد زیادہ بارشوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

جبکہ بارشوں کا یہ سلسلہ سندھ میں مزید دراز ہوسکتا ہے جہاں کراچی اور حیدر آباد سمیت تھر کے علاقوں میں چالیس فیصد زیادہ بارشوں کاا مکان ظاہر کیا جا رہا ہے، اسی طرح خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور گلیشئر پگھلنے سے بھی سیلابی صورتحال کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے جب قوم کو آزمائش میں ڈالنا ہے تو قوم پہلے کی طرح اپنی ہمت اور جذبے سے آزمائش کی اس گھڑی سے تو نکل آئیں گے ، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ووٹ لے کر ایوانوں میں بیٹھنے والے حکمران ، عوام کے خون پسینے سے کمائی گئی رقم سے بھاری ٹیکس لینے والی حکومت ، عوام کو بیوقوف بنانے والے سیاستدان ، کیا یہ سب ا تنے جاہل ہیں کہ انکو سمجھ نہیں آتا کہ ہر سال برسات کے موسم میں سیلاب آتا ہے۔

قیمتی جانوں کے ساتھ ساتھ ،غریبوں کی سارے سال کی محنت سے اگائی گئی فصلیں تباہ ہونے کے ساتھ ساتھ ،غریبوں کی ساری زندگی کی محنت سے تیارکیے ہوئے چھوٹے چھوٹے جھونپڑی نما گھروں کو بھی سیلابی پانی اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور حکمرانوں کو ہیلی کاپٹروں میں سیلاب زادہ علاقوں میں جا کر تصویریںبنوانے کے سوا اور کوئی کام نہیں آتا۔ بھارت ہمارا مخالف ملک ہے اس کی طرف سے ہر سال مون سون میں پاکستان کے مختلف دریائوں میں سیلابی پانی کا ریلا بھیجا جا تا ہے وہ پاکستان میں داخل ہو کر اپنے ساتھ،کئی دیہات ملیا میٹ کرنے کے ساتھ ساتھ کئی انسانوں کی زندگیوں کے خاتمے کا موجب بنتا ہے ہمارے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کو بھارت کی اس بزدلانہ چال کے بارے میں بھی سوچنا چاہیئے کہ کیا ہمیں دنیا کے سامنے بھارت کی اس سازش کو بے نقاب نہیں کرنا چاہیے؟۔

Flood

Flood

ہمیںبھارت کی سب بزدلانہ چالوں کا پتہ ہوتے ہوئے بھی اس سے بچاؤ اور اسے انسانی زندگیوں سے ایسے ہی ہر سال کھیلتے رہنے دینا ،حکومت کی ناکامی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال ملک میں سیلاب کے خدشات ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہوں گے، مگر اس آنے والے خطرے سے نمٹنے کے انتظامات کی رفتار روایتی نظر آ رہی ہے۔ مون سون کے دنوں میں وزیراعظم ہاوس، وزارت منصوبہ بندی اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے ممکنہ سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومتوں اور مختلف اداروں کو ہدایات جاری کرنے کا سلسلہ تو شروع ہو جاتا ہے پر پھر ہر سال یہی مشق دہرائی جاتی ہے اور بڑے بڑے دعوئے کئے جاتے ہیں کہ سیلاب سے نمٹنے کی تیاریاں مکمل ہیں ، مگر جب ہر سال سیلاب آتا ہے تو بہت سی تباہی مچاتا ہے ،اور ہمار ی حکومت کا کوئی دعویٰ اس کے آگے نہیں ٹھہرپاتا، اسی لیے سیلاب سے بچنے اورپاکستانی قوم کی ترقی کے لئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر نہایت ضروری ہے۔

مگر صوبہ سندھ اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی بعض سیاسی اور غیر سیاسی تنظیموں کے اعتراضات اور احتجاج کی وجہ سے یہ منصوبہ آج بھی التوا کا شکار ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم کو اندھیروں سے نکلنے اور اس کی صنعتی ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ کالا باغ ڈیم ہی ہے ڈیم کی تعمیر نہ کرنے کے اعتراضات صرف غلط فہمیاں ہیں ملک کے اندر بجلی کی کمی کو پورا کرنے کا بہترین حل کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہے اس ڈیم کا پانی باقی صوبوں سے زیادہ سندھ کو ملے گا دوسرا یہ ڈیم بننے سے صوبہ سندھ میں سیلاب کا خطرہ بھی کم ہو جائے گا ۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں ہمیشہ رکاوٹ صوبہ سندھ اور خیبر پختونخواہ کے لوگوں کے خدشات اور اعتراضات ہیں جبکہ دوسری طرف بھارت سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے ہی دریاوں پر اپنے علاقے میں کئی ڈیم بنا چکا ہے۔

جس کے نتیجے میں ہمارے دریا خشک ہو رہے ہیں البتہ بھارت میں جب بھی کبھی سیلاب کا خطرہ ہو تو وہ سیلابی پانی ہمارے دریاؤں میں چھوڑ دیتا ہے۔ اور سیلاب کی صورت میں ہمارے علاقوں میں تباہ کاری کرتا ہے ۔ دنیا میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا حل نہیں نکالا جا سکتا پھر کالا باغ ڈیم ابھی تک لتوا کا شکار کیوں ہے پاکستان میں کالا باغ ڈیم کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہو کر اس مسئلے کا حل چاہتی ہو۔ملک میں اس ڈیم کے نہ بننے کا انجام یہ ہورہا ہے کہ ملک میں لوڈشیڈنگ بڑھتی جا رہی ہے، ہمارے ملک کی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے ایک ماہر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پچھلے چند برسوں میں سیلاب کی شدت میں اضافہ دیکھنے میںآیا ہے ۔ان کے مطابق ہم قدرت سے مقابلہ تو نہیں کرسکتے لیکن ہمیں سیلابوں کے ساتھ جینا تو سیکھ لینا چاہیے ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ دریاؤں کے نزدیک وہ علاقے جہاں انسانی آبادیوں کو سیلاب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے، وہاں سے ان آبادیوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔

Army Flood Operation

Army Flood Operation

سیلاب کے خطرے سے متاثرہ علاقوں کو محدود کاشتکاری کے لیے تو استعمال کر سکتے ہیں لیکن وہاں بستیوں کا بسایا جانا درست نہیں ہے مگر مناسب منصوبہ بندی اور موثر اقدامات سے ہم اربن سینٹرز کو سیلابی نقصانات سے ضرور بچا سکتے ہیں۔ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ جب سیلاب کا واویلا امچایا جاتا ہے تو حکومت اپنے تمام تر وسائل لوگوں کو بچانے کے لئے صرف کردیتی ہے لیکن جیسے ہی سیلابی پانی اترتا ہے، سیلاب زدگان اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو حکومت تمام صورتحال کو ایسے بھول جاتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ایمرجنسی بنیادوں پر تمام حفاظتی پشتوں کو مضبوط کرنے اور ان علاقوں میں مستقبل کے لیے انتظامات کرنے کا کام تو اسی وقت کر سکتے ہیں جب حالات معمول کے مطابق ہوں نہ کہ جب سیلاب سر پر کھڑا ہو۔ لیکن دودراز علاقوں میں دریاؤں کے پشتے بنانا میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی طرح گلیمرس اور رنگین منصوبے تو نہیں ہیں ، جن کی تشہیر کی جا سکے جنہیں دکھا کر اگلے انتخابات میںعوام سے ووٹ لیے جاسکیں۔ اس لئے حکومتوں کی توجہ سیلاب کے پشتے مضبوط کرنے جیسے کاموں کی جانب نہیں جاتی بلکہ میٹرو بس، اورنج ٹرین اور لیپ ٹاپ جیسی سکیموں کی طرف جاتی ہے۔

نتیجے میں ہم ہر سال اربوں روپے کا نقصان اور قیمتی جانوں کا ضیاع برداشت کرتے ہیں۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ اقتصادیات کے ڈاکٹر علی چیمہ کا کہنا ہے کہ پاکستان پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ان کی شدت اور اثرات سے میڈیا، سیاست دان اور پالیسی ساز پوری طرح آگاہ نہیں ہیں، ان کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان میں جتنے اور جیسے سیلاب آئے ، ایسے سیلاب سّتر اور اسّی کی دہائی میں نہیں دیکھے گئے۔ایک سوال کے جواب میںڈاکٹر صاحب نے کہاکہ جدید دنیا میںفلڈ لائنز پر رہنے والے لوگوں نے اپنے تعمیراتی طریقوں اور طرز زندگی میں تبدیلیاں لا کر اپنے نقصانات کو کم کر لیا ہے ،لیکن ہم اتنے عرصے سے دریائی علاقوں میں موجود بستیوں کو نہیں ہٹا سکے ہم پیشگی حفاظتی انتظامات کی بجائے آفت کے آنے پر شور مچانے اور آفت آنے پر کام شروع کرنے کا رویہ اپنائے ہوئے ہیںدنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ کیوں کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گلیشئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور انہی گلیشٔرز کا پانی دریاوں اور ندی نالوں میں شامل ہوکر سیلابی صورتحال پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

اس کی مثال گذشتہ سال چترال میں آنے والا سیلاب تھا جس میں بارشوں سے زیادہ تباہی گلیشئر سے آنے والے پانی نے مچائی اگر ہم پاکستان میں آنے والے سیلاب کو سامنے رکھتے ہوئے چند ضروری پیشگی حفاظتی تدابیر کا جائزہ لیں تو ہمیں وفاقی اور صوبائی سطح پر ان اقدامات پر صرف بیان بازی کی حد تک عمل نظر آتا ہے، جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی ایسے مواقع پر صرف پوائنٹ سکورنگ کرتی نظر آتیں ہیں ۔ کیا اس سال بھی یہی کہانی دہرائی جائے گی؟ سیلاب آئیں گے ، حکومتی ارکان ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کریں گے اور تصویریں بنوایں گے اور امدادی و میڈیکل کیمپس میں سیلاب زدگان کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں گے، اپوزیشن حکومت پر تنقید کرے گی اور جب سیلابی پانی اترجائے گا تو تہہ سے وہی الزامات کی سیاست اور وہی خود غرضی ابھرآئے گی۔

Muhammad Nawaz Bashir

Muhammad Nawaz Bashir

تحریر : محمد نواز بشیر
nawaz.fm51@yahoo.com