فوڈ اتھارٹی کی آنیاں جانیاں، زہر بِکتا اور خریدتے بچے

Food Authority

Food Authority

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری

عوام کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اشیائے خورد ونوش کی فراہمی ہرصورت یقینی بنانے کے لئے حکومت پنجاب کا ایک اہم قدم پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام تھا وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے واضح اعلان اور احکامات تھے کہ غیرمعیاری دواؤں، جعلی و غیرمعیاری ادویات تیار و فروخت کرنے والوں کی طرح ملاوٹ مافیا کو بھی نشان عبرت بنائیں گے اور ملاوٹ مافیا کوانسانی صحت سے نہیں کھیلنے دیں گے،اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کا دائرہ کار تمام ڈویژنوں کے اضلاع و تحصیل تک بڑھا دیا گیا جدید گاڑیوں میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے افسران اور ملازمین کی آنیاں جانیاں اور چھابڑی، ریڑھی اور کھوکھے والوں کو عقابی نظروں سے ملاوٹ والی اشیاء فروخت کرتے پا کر جرمانوں کا لا متناہی سلسلہ شروع کیا گیا تو ہر طرف واہ واہ ہوگئی ہوتی بھی کیوں نا آخر چند سو کمانے والا جب ہزاروں روپے جرمانہ ادا کرنے کے لئے اپنے گلی محلے کے گھر گھر سے اُدھار مانگے گا تو فوڈ اتھارٹی کا نام ہر شخص کو یاد ہو جائے گا آغاز میںتوقع یہ تھی کہ بہت جلد پنجاب کیا پورا پاکستان ملاوٹ مافیا سے چھٹکارا پالے گا۔

خاص طور پر پنجاب فوڈ تھارٹی کی چھاپہ مار ٹیموں میں خواتین کی ملازمت نے تو کمال ہی کر دیا ایک طرف جرمانوں سزائوں کا اختیار اوپر سے پڑھی لکھی ملازم پیشہ خواتین کی عزت ومرتبہ کا خیال، ورنہ عام شخص کی ماں بیٹی بہن بیوی کی عزت واحترام کتنا ہوتا ہے؟ ؟؟ہم آئے روز خبریں پڑھتے سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں اگر چند جنسی بھیڑیوں سے بچ جائیں تو اُنکی شکایت لے کر تھانہ جانے پر بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہیں ، راقم نے بارہا اپنے شہر میں دیکھا کہ فراٹے بھرتی پنجاب فوڈ اتھارٹی کی بڑی سی گاڑی سے فوڈ اتھارٹی میں ملازم پیشہ خواتین موبائل کیمرہ اور جرمانوں والی کاپی سمیت کسی ریڑھی ،چھابڑی ،کھوکھے ،چھوٹی دوکان کے پاس جاکر اپنی تمام تر شان وشوکت سے سامنے بیٹھے دوکاندار کو دیکھنے کے اُس کے سامان کو اُلٹ پلٹ کرنے اور چند کرخت جملے ادا کرنے کے بعد موبائل سے تصاویرلیتی اور وہاں موجود سامان سیل کرتی جرمانے کی رسید ہزاروں روپے چند سو روپے کمانے والے کوتھمانے کے بعد اگلی منزل کی جانب روانہ ہوجاتی ہیں مانا کہ ہمارے ہاں شہروں دیہاتوں اور چکوک میں کھانے پینے کی اشیاء ایسے مقام پر فروخت کے لئے رکھی جاتی ہیں جہاں سے گندہ نالہ بہہ رہا ہوتا ہے یا گندگی کے ڈھیر قریب ہی ہوتے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ چھابڑی ،کھوکھا ،ریڑھی والوں کو جرمانہ کر کے آپ خورد ونوش کا غیر معیاری سامان بڑے پیمانے پر تیار کرنے والوں کو کیسے روک سکتے ہیں ؟ہر صاحب عقل کا جواب ہو گاکسی صورت نہیں ،تو پھرہم صاحب اقتدار اورپنجاب فوڈ اتھارٹی کے اعلی حکام سے گزارش کرتے ہیں کہ صرف چند گِنے چُنے غیر معیاری ناقص اشیاء بنانے والوں کی فیکٹریوں کو جرمانے اور سیل کرنے سے یہ زہر بازاروں میں فروخت ہونے سے رُکنے والا نہیں وسیع پیمانے پر بِلا تفریق کاروائی کرنے سے ہی یہ غیر معیاری خوردونوش کی ناقص اشیاء چھوٹی دکانوں اور چھابڑی والوں تک نہیں پہنچ پائیں گی ہمارے ہاں قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والے اکثربا اثر قانونی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے بڑے بڑے اشتہار شائع ہوتے ہیں کہ غیر معیاری مشروبات اور ناقص اشیاء بنانے والوں کے خلاف کاروائی ہوگی تو پھر بازاروں میں جگہ جگہ فروخت ہوتی رنگ برنگی بچوں کی ٹافیاں ،سلانٹیاں ،مشروبات کیوں نظر آتے ہیں؟

جنہیں کھا کر بچے بیمار اور مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں آخر گلی محلے تک یہ ناقص اشیاء پہنچنے سے پہلے کہیں تیار بھی ہوتی ہونگی؟ اُنہیں جرمانے اور فیکٹریوں کو سیل کرنے کی ضرورت ہے ۔قارئین کرام !موسم گرما کا آغاز ہو چکا ہے میرے شہر کے گلی کوچوں میں غیر معیاری کھانے پینے کی اشیاء جو خاص طور پر بچوں کے لئے ہی تیار کی جاتی ہیں سرعام فروخت ہورہی ہیں جبکہ محکمہ فوڈ اتھارٹی اپنے تمام تر قانونی اختیارات کے ساتھ بھی یہاں موجود ہے پھر کیا وجہ ہے کہ غیر معیاری خوردونوش خاص طور پر دودھ بھی ملاوٹ سے پاک نہ ہو سکا ہے ہزاروں روپے تنخواہ پر رکھے فوڈ اتھارٹی کے ملازمین اگرسیکورٹی ایجنسیوں سے مل کر ملاوٹ خور مافیا کے خلاف بھر پور کاروائی کریںتو مثبت نتائج نظر آئیں گے معمولی کاروبار کرنے والوں کے خلاف کاروائیوں سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا کاروائی کرنی ہے تو بلا تفریق ملاوٹ خور مافیا کے سرغنوں کے خلاف کریں تاکہ اِس ادارے کے بنانے کا اصل مقصد حاصل ہو سکے۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چودھری
03336963372