اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش

Terrorism

Terrorism

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمیں ہوش تب آتا ہے جب پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ پاکستان کے لیے ایک متحرک خارجہ پالیسی کی ہمیشہ شدت سے ضرورت محسوس ہوتی رہی لیکن ہم نے اِس معاملے میں ہمیشہ صرفِ نظر سے کام لیا۔ ہمارا ازلی ابدی دشمن بھارت ہم پر بے بنیاد الزامات لگا کر ہمیں دنیا بھرمیں بدنام کرتا رہا لیکن ہم ہمیشہ دفاعی اورایک لحاظ سے معذرت خواہانہ انداز اختیار کرتے رہے ۔ہم نے اقوامِ عالم میں بھارتی دَراندازی کے ” ڈوزئر” دیئے لیکن اُس کا پرکاہ برابر اثر بھی نہ ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ڈوزئر دینے کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھرکے بیٹھ نہ رہتے بلکہ فعال سفارتکاری کے ذریعے اقوامِ عالم کو بھارتی خباثتوں پر قائل بھی کرتے۔ اِن ڈوزئر کے علاوہ ہمارے پاس کلبھوشن یادیو کی صورت میں ایک ٹھوس ثبوت موجود تھا اور تاحال ہے لیکن یہ معاملہ بھی ”ٹائیںٹائیں فِش” ہوتا نظر آتاہے۔ ٹھوس شواہد کے ساتھ بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن کے اعترافی بیانات کے بعد بھی ہم بھارتی دہشت گردی کے حوالے سے دنیا کو قائل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

ہم گزشتہ سترہ سالوں سے امریکی احکامات پر سرِتسلیم خم کرتے رہے لیکن اُس نے کبھی ہماری کوششوں اور کاوشوں کو کھُلے دِل سے تسلیم نہیں کیا۔ اُسے یقین دلاتے دلاتے ہم نے ستّر ہزار سے زائد شہری شہید کروا لیے، ایک سو بیس ارب ڈالر سے زائد اِس اندھی جنگ میں جھونک دیئے اور اپنی معیشت کو عشروں پیچھے دھکیل دیالیکن نتیجہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی پالیسی کی صورت میں ظاہر ہوا۔
اَسّی کی دہائی سے اب تک ہم نے افغان بھائیوں کی دامے ،درہمے، سخنے، قدمے، ہر لحاظ سے مدد کی۔ چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین اب بھی پاکستان میں موجود ہیں جو ہماری معیشت پر نہ صرف بہت بڑا بوجھ ہیں بلکہ انہی مہاجرین کی بستیوں میں دہشت گرد بھی پناہ لیتے ہیں۔ اتنی قُربانیوں کے باوجود پہلے افغان صدر حامد کرزئی پاکستان کے خلاف زہر اگلتا رہااور اب صدر اشرف غنی بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی کی جھولی میں بیٹھ کر بڑھکیں لگا رہاہے، جبکہ ہم اقوامِ عالم کو یہ یقین بھی نہ دلا سکے کہ فساد کی اصل جَڑتوبھارت ہے جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کروا رہا ہے۔ اگر ہماری خارجہ پالیسی میں ایسے رخنے نہ ہوتے تو امریکی صدر اپنے جنوبی ایشیاء کے پالیسی بیان میں نہ تو پاکستان کو یوں الزامات کا نشانہ بناتا اور نہ ہی بھارت کو افغانستان میں مؤثر کردار دینے کی بات کرتا۔ ہمارے دبنگ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تو اُسی وقت امریکہ کو دنداں شکن جواب دیتے ہوئے کہہ دیا کہ پاکستان کو امریکہ کی مالی امداد کی ضرورت ہے نہ عسکری امداد کی لیکن حکومتِ پاکستان کو یہ فیصلہ کرنے میں تین دِن لگ گئے حالانکہ پہلا ردِعمل ہمارے نومنتخب وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے آنا چاہیے تھا۔

یومِ دفاعِ پاکستان کے موقع پر جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہونے والی اختتامی تقریب میں آرمی چیف کا خطاب بھی انتہائی جامع تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان ، افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں میں امریکہ اور نیٹوکی مدد کے لیے تیار ہے لیکن پاکستان کی سلامتی کو مقدم رکھ کر۔ اُنہوںنے دوٹوک الفاظ میں کہا ” عالمی طاقتیں ہمیں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ اگر پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کام نہیں کیا تو دنیا کے کسی بھی ملک نے کچھ نہیں کیا۔

محدود وسائل کے ساتھ ایسی کامیابی پاکستان ہی کا کمال ہے۔ پاکستان نے بہت کچھ کر لیا ،اب دُنیا ”ڈومور” کرے ۔اسلام آباد ،واشنگٹن سے امداد نہیں ،باعزت تعلقات چاہتا ہے”۔ آرمی چیف نے امریکی وزیرِ خارجہ ٹیلرسن کے جواب میں کہا ”ہم افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑ سکتے”۔۔۔۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس ،پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس اور وزرائے خارجہ ودفاع کے بیانات سے یہ تو واضح ہو گیا کہ پاکستان اب نئی راہوں کا متلاشی ہے۔ سوال مگر یہ کہ آخر پہلے ہی یہ ادراک کیوں نہیں کر لیا گیاکہ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔

امریکی صدر کی پاکستان کے حوالے سے نئی اشتعال انگیز حکمت عملی پر پورے ملک میں شدید احتجاج ہوا اور یہ بھی سمجھا جانے لگاکہ شاید اب امریکی ”دوستی” سے نجات مل جائے گی۔ ہم تو خوش تھے کہ ہمارا عظیم دوست چین ہماری پُشت پر کھڑا ہے لیکن

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

چین کے شہر شیامن میں برِکس سربراہ کانفرنس کا اعلامیہ ہمارے لیے ایٹم بم ثابت ہوا۔ اِس کانفرنس میں چین ،روس ،جنوبی افریقہ ،برازیل اور بھارت کے سربراہان شامل تھے۔ برکس کا گزشتہ اجلاس بھارت میں ہوا تھا جس میں چین نے بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی قرارداد لانے سے روک دیا تھا ۔ اب یہ اجلاس چین کی میزبانی میں ہورہا تھا اور اِس اجلاس کے شروع ہونے سے چند دِن پہلے اُس نے بھارت پر واضح کر دیا تھا کہ وہ اِس تنظیم کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا لیکن ہوا یہ کہ اچانک وہ اعلامیہ سامنے آگیا جس نے ہر پاکستانی کو بے چین کر دیا۔ بھارت کی تو ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی پھیلانے والے ممالک میں شامل کر دیا جائے لیکن چین ہمیشہ مزاحم رہا۔ اِس بارپتہ نہیں کیا ہوا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی تنظیموں سے جوڑتے ہوئے اُسے لشکرِطیبہ ،جیش محمد ،حقانی نیٹ ورک ،داعش اور القاعدہ سے نتھی کر دیا گیا۔ ہمارے وزیرِدفاع خرم دستگیر نے اِس اعلامیے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے تو دہشت گردی کا قلع قمع کرکے ہر جگہ اپنی رِٹ قائم کر دی ہے لیکن افغانستان جہاں امریکہ اور نیٹو افواج گزشتہ سترہ سالوں سے مصروفِ پیکار ہیں ،وہاں چالیس فیصد سے زائد علاقہ اب بھی طالبان کے قبضے میں ہے۔

برکس کانفرنس کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اپنے اور بیگانے ،سبھی ہم سے ناخوش ہوں۔ چین نے برکس اعلامیہ کے بعد یہ کہتے ہوئے ہماری اشک شوئی کرنے کی کوشش کی کہ اِس اعلامیے میں کہیں پاکستان کانام نہیں لیا گیا اور جن تنظیموں کا ذکر کیا گیا ہے ،اُن پر پہلے ہی اقوامِ متحدہ پابندی لگا چکا ہے۔ اِس کے علاوہ 8 ستمبر کو پاکستانی وزیرِخارجہ خواجہ آصف کے ایک روزہ چینی دَورے کے دَوران چینی وزیرِخارجہ وانگ ژی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بدلتی ہوئی علاقائی اور بین الاقوامی صورتِ حال میں چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔ اُنہوں نے کہا ”چین دہشت گردی کے خلاف پاکستانی جنگ کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ پاکستان نے اِنسدادِ دہشت گردی کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں۔ بین الاقوامی برادری کو پاکستان کی اِن کوششوں کا مکمل کریڈٹ دینا چاہیے۔ چین پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرتا رہے گا۔ ہم پاک چین اسٹریٹیجک تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں”۔ چینی وزیرِخارجہ کا یہ بیان حوصلہ افزاء لیکن برکس اعلامیہ اِس کی تصدیق نہیں کرتا۔ ہمارے اِس دوست کو یاد رکھنا ہو گا کہ دشمن کی طرف سے مارے جانے والے پتھر سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی ،جتنی دوست کے پھول مارنے سے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر