جو جیتا سکندر

Football World Cup

Football World Cup

تحریر : شاہ بانو میر

میں 1994 میں مستقل رہائش کیلئے پاکستان جا چکی تھی جون کی 10 تاریخ سن 1998 انٹرنیشنل ورلڈ کپ کا آغاز تھا کارڈ ختم ہونے والا تھا تو اس دن پاکستان سے آئی فرانس کی میزبانی کی وجہ سے بے انتہاء شائقین فٹ بال کا دوسرے ممالک سے فٹ بال دیکھنے آ رہے تھے وہ ورلڈ کپ فرانس میں رہ کر دیکھا بیٹا ہمراہ تھا اس نے خوب انجوائے کیا
سٹڈ دو فرانس میں تمام میچز تھے
اور
نجانے کس گھڑی میرے منہ سے یہ دعا نکلی
کہ
اللہ جی ہم آئے ہیں دور سے فرانس کو جتوا دے
اور
ہسٹری میں پہلی بار فرانس جیت گیا
ہم لوگ تب شانزے لیزے کے پاس رہتے تھے
میچ ختم ہوتے ہی انسانوں کا سمندر تھا جس کا کہیں اختتام نہیں تھا
اپنے ہی گھر فتح کا تاج پہننا کس قدر پسندیدہ لگا
اس رات شائد پیرس میں کوئی نہیں سویا ہوگا
سیٹیاں بجتی رہیں باجے بجتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ جیت کے نعرے
بیس سال کے طویل انتظار کے بعد
آج فرانس نے کامیابی کا دوسرا اسٹار اپنی شرٹس پے سجا لیا ہے
ہفتوں سے جاری جولائی 2018 کے بین القوامی فٹ بال میچ بلاخر اختتام پزیر ہوئے
اور
جس قدر یہاں نوجوان بچے ان میچز کو گہرائی سے دیکھتے ہیں
اُن دنوں نہ انہیں بولنا اچھا لگتا ہے اور نہ کچھ کھانا
اور
اگر ٹیم ہار جائے تو بس غصہ اللہ کی پناہ
مگر آج
الحمد للہ
ہمارے بچوں کے مرجھائے ہوئے پریشان چہرے خوشی سے کھِلکھلا اٹھے
فرانس چمپئین بن گیا
پورا ہفتہ اب دوستوں کا جشن ہو گا اور یہ سب پھولے نہیں سمائیں گے
یہ ہے حب الوطنی جو کوٹ کوٹ کر ان میں بھری ہے
فٹبال کا میچ ہر گھر میں ایسے ہی جیسے دشمن سے محاذ پر جنگ
اور
ہار یا جیت کی شدید کیفیت ان کے ہر انداز سے چھلکتی ہے
کبھی سر پے ہاتھ مارتے ہیں
کبھی اٹھ کر مکا ہوا میں بلند کرتے ہیں
کبھی ٹیبل کی شامت آ جاتی ہے
اور
جب فرانس جیت جائے
تو فضا میں ان نوجوان بچوں کی بھاری آواز کی گونج ہی گونج سنائی دیتی ہے
شور ہی شور
آج پھر بیس سال بعد یہی شور مچ گیا ہے
دو گول کے مقابلے میں چار گول سے شکست دینا بہت شاندار مارجن تھا
اس بار بہت بڑے بڑے اپ سیٹ ہوئے اور فرنچ ٹیم ہر مقابلہ بہترین انداز میں جیتتے ہوئے
آج جیت کا تاج یعنی 6 کلو وزنی سونے کی ٹرافی فرانس ٹیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی
میچ کے ختم ہوتے ہی شانزے لیزے فرنچ روایات کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں سے بھر گیا
ان کی ثقافت کا الگ ہی پیارا سا انداز ہے
لوگ صبح سے کامیابی کی توقع پر شانزے لیزے اور ایفل ٹاور پر ایستادہ بڑی سکرینوں پر جمع ہونا شروع ہوتے ہیں
مل کر میچ دیکھنا پسند کرتے ہیں
دوسری طرف دور شہروں میں رہنے والے جیسے ہی میچ کے جیتنے کا اعلان ہوتا ہے
ہر طرف سے ہارن گاڑیاں ٹڈی دل کی طرح یوں سڑکوں کو بھر دیتی ہیں جیسے ٹڈی دل کا لشکر ہو
یوں
آدھ گھنٹے سے ایک گھنٹے کے اندر اندر شانزے لیزے میں جو جو جا سکتا ہے پہنچنا فرض سمجھتا ہے
پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے رہ جاتے ہیں جو باہر نکل کر باجے بجا کر وسلز بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں
گزرنے والی گاڑیوں کو دیکھ کر مزید زور زور سے باجے سیٹیاں بجاتے ہیں
جواب میں گاڑی میں بیٹھے نوجوان لوگ اپنے ہارن اور تیزی سے بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
چیخ و پکار اور ساتھ ساتھ گاڑیوں کے ہارن کئی گھنٹوں تک آپ کے کانوں کو متاثر کرتے ہیں
یہاں کا پرسکون خاموش ماحول سوچنے پر آمادہ کرتا ہے اور یہ آمادگی قدرت کی طرف توجہ بڑہاتی ہے
اور
وہ توجہ بڑہتے بڑہتے آخر کار اپنے رب کے ساتھ جا ملتی ہے
یہاں شور کا کوئی واسطہ نہیں بارش کی رم جھم بھی اتنی ملائم ہوتی ہے
کہ
نہ اس کے برسنے کا پتہ چلتا ہے اور نہ اس کے ختم ہونے کا احساس
بادلوں کی گرج چمک اور بجلی کی بوندیں ضرور احساس دلاتی ہیں کہ موسم پھر ابر آلود ہے
ایسے میں یہ شور سمع خراشی تو کرتا ہے
مگر
ان کے جذبوں کی توانائی کی خوشی بھی دیتا ہے
رنگ نسل مذہب کا فرق اس وقت نہیں رہتا
سب فرانسیسی ہیں اور بہت کڑی مشقت کے بعد جیت گئے ہیں
یہاں ٹی وی پر ہر دوسرے دن حب الوطنی کو جگانے
اور
بچوں کو فرانس سے جڑے رہنے کیلئے ملی نغمے نہیں سنائے جاتے ہیں
اور
نہ ہی بار بار انہیں بھاشن دیے جاتے ہیں
مگر
پیدا ہوتے ہی ان کے اخراجات ان کی تعلیمی ذمہ داری
سب سے بڑی بات ان کی سوچ رحجان شوق کو دیکھتے ہوئے والدین نہیں معاون تعلیمی درسگاہوں سے
انکی رہنمائی کرتے ہیں
اور
یوں وہ صرف وطن عزیز کی طرح ڈاکٹر اور انجنئیر ہی نہیں بنتے
وہ کچھ بھی بن جاتے ہیں اپنے شوق سوچ کے مطابق
اور
اس میں ہی نام دولت شہرت کامیابی کماتے ہیں
یہی وجہ ہے ٌ
کہ
بچہ بچہ حکومت کو والدین سے زیادہ دوست اور ہمدرد خیر خواہ سمجھتا ہے
یہ ہوتا ہے نظام اور جو دیا ہو اس کی قدر
جبکہ
ہمیں ملک کی قدر تو سکھائئ جاتی ہے
مگر
اس ملک کی قدر ہمارے دلوں میں از خود کیسے پیدا ہو
وہ نظام نہیں بنایا جاتا
بھوک ملے افلاس ملے ذہنی جہالت ملے دین کا دور دور تک پتہ نہ ہو
نہ ماضی خوشگوار نہ حال اچھا اور نہ ہی مستقبل سے کوئی امید
ایسے میں صرف زور اعلانات پر ہی رہ جاتے ہیں
جہاں عمل نہ ہو وہاں رٹانا پڑتا ہے
اور
جہاں شہری کو باعزت مقام پیدا ہوتے ہی مل جائے
وہ خود ہر سہولت کو پرکھتا ہے اور اس کے بعد اس کے یقین کو کوئی متزلزل نہیں کر سکتا
آج ایک سبق مجھے ملا فرانس کی جیت سے
فرانس کے جیتتے ہی اس کی خوبیاں بڑائیاں اور گن گائے جانے لگے
آج فرانس کا کوئی ٹی وی کوئی نیوز پیپر کھلاڑیوں سے لے کر کوچ تک کوئی برائی
بیان نہیں کرے گا
لوگ اس وقت صرف اور صرف تعریف سننا چاہتے ہیں
یہ ہے اعجاز کامیابی کا
کامیابی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے
فرانس کے کوچ کو کھلاڑیوں نے جس پیار کے ساتھ کامیابی کے جشن میں فضا میں اچھال کر شکریہ ادا کیا
وہ الگ انداز تھا خوشی کا سب لطف اندوز ہوئے
میکرون صدر فرانس نے میچ کے اختتام پر بے ساختہ کھڑے ہو کر جس طرح ہاتھ لہرائے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لئے
عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور فرانس کے ساتھ اظہار یکجہتی
نئی کامیاب تاریخ محفوظ ہو گئی
حاصل مطالعہ یہ ٹھہرا کہ
محنت کر کے اپنی کوشش سے
“” جو کامیاب ہو “”
وہ اصل سکندر ہے
یاد رہے
صرف اور صرف اپنی”” قوت بازو”” سے
“”جیتنے والا سکندر ہے””

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر