دھوکے کا سامان

ALLAH

ALLAH

تحریر: محمد معراج قریشی
مجھے نہیں معلوم کہ آج عرصے بعد کچھ لکھنے کو دل کیوں چاہ رہا ہے ۔بنیادی طور پر میں ایک استاد ہوں ۔کچھ نامی گرامی اداروں سے بنیادی ورکشاپس میں شرکت نے اس پیشے کو فن میں بدلہ ۔ماضی میں لکھنے کی تھوڑی بہت طبع آزمائی کی ۔جرار گروپ کی توسط سے کچھ تحریریں اخبارات تک بھی پہنچی۔چونکہ مستقل لکھاری نہیں ہوں اس لیے سلسلہ کبھی کٹ جاتا ہے تو کبھی جاری ہو جاتا ہے ۔پچھلے دنوں قرآن کا مطالعہ کررہا تھا ہے آیت میں موجود ایک لفظ پر نظریں جم سی گئی ۔وہ لفظ تھا ”متاع”۔اللہ تعالیٰ نے اس زندگی کو متاع سے تعبیر کیا ہے ۔متاع کا مطلب ہے فائدہ ،نفع یا سامان ۔فرمانِ ربانی ہے :”دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے ”۔ایک اور جگہ فرمایا:”دنیا کا فائدہ بہت معمولی ہے”۔

اب ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کو متاع (فائدہ ، سامان )کہا ہے ۔عربی زبان میں متاع کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتاہے۔پہلی چیز کہ جب آپ برتن دھوتے ہیں اور اس کی چکناہٹ کو صاف کرنے کے لیے کپڑا یا جونا استعمال کرتے ہیں ۔اس جونے یا کپڑے پر لگنے والی چکناہٹ کو عربی زبان میں متاع کہتے ہیں ۔دوسرا یہ کہ ایک تنورچی جب تنور میں روٹی لگاتا ہے ۔اس مقصد کے لیے وہ روٹی کو گدی پر بچھا بچھا کر تنور میں لگاتاہے ۔اس عمل کے نتیجے میں آٹے کے وہ اجزاء جو اس گدی پر چپک جاتے ہیں اس کو عربی زبان میں متاع کہا جاتا ہے ۔کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارا اللہ ہمارے اس دنیاوی فائدے کو جونے پر لگنے والی چکناہٹ سے تعبیر کررہے ہیں ۔میں سوچتا رہا اس چکناہٹ کا کوئی شخص کیا مول دے گا ۔ کیا کوئی اس کو خریدے گا ؟کیا اس کی کوئی قیمت لگ سکتی ہے ؟ محترم قارئین!اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بارہا اس بات کی طرف ہماری توجہ دلاتے ہیں کہ یہ دنیا کی زندگی کچھ فائدہ بخش نہیں، مگر پھر بھی تم اس کو ترجیح دیتے ہو۔ اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی ابدی ہے ۔

آخرت کا فائدہ ہمیشہ کا ہے ۔مگر ہم اس کو نظر انداز کرتے ہیں ۔پھر رسول اللہ ۖ کے قیمتی ترین ارشادات کا لب لباب بھی کچھ یوں ہی ہے ۔فرمان نبوی ۖہے:”کہ اگر اللہ کی نظر میں یہ دنیا ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کسی کافر کو پانی کا گھونٹ تک نہ پلاتے ”۔مطلب یہ ہے کہ اس کی قدر و قیمت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے ۔فرض کریں کہ اگر اس دنیا کی قدر و قیمت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اس چھوٹے سے مچھر کے پر میں میرا اورآپ کا حصہ کیا ہوتا ؟آپ ۖ نے فرمایا :”کہ دنیا کی مثال ایسی ہے گویا کہ ایک شخص ایک بہت بڑے سمندر میں اپنی انگلی کو ڈبو کر نکال دے اب انگلی پر لگنے والی تری دنیا ہے باقی سارا کا سارا سمندر آخرت ہے ‘

Subhan Allah

Subhan Allah

‘اللہ اکبر کہا ں اتنا بڑا سمندر اور کہا ں انگلی پر لگنے والی وہ تری جس کو ہوا کا ایک تیز جھونکا خشک کردے ۔فرمایا کے دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ ایک اجنبی ہوتاہے یا کہ مسافر ۔محترم قارئین ! اس حقیقت کا ادراک اللہ کے رسول ۖ کے ساتھیوں کا تھا ۔سبحان اللہ !صحابی رسول ہیں نام ان کا ابو درداء ہے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ملک شام کا گورنر مقرر کیا ہے ۔کچھ عرصے شام کے حالات جاننے کے لیے امیر المؤمنین شام کا دورہ کرتے ہیں۔سارا دن مصروف رہنے کے بعد رات کو جب شام کے گورنر ابو درداء کے گھر پر جاتے ہیں دروازہ بجا نے کے لیے ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ دروازہ کھلا ہوا ہے ۔

گھر میں گھپ اندھیرا ہے روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہے آواز دیتے ہیں ابو درداء ان کو اندر لے جاتے ہیں گلے لگاتے ہیںپھر انھیں بٹھاتے ہیں ۔شام میں شدید سردی کا موسم تھا۔عمر بن خطاب یہ دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔ تکیے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ایک پرانا سواری کا پالان تھا ۔بستر کو ٹٹولا تو وہاں پر کنکریا ں بچھی ہوئی تھیں ۔چادر کو ہاتھ لگایا تو اتنی باریک کے دمشق کی سردی کو قطعاًنہیں روک سکتی تھی ۔کہتے ہیں :”اے ابودرداء ! ہم نے تمہارے بارے میں کنجوسی کب کی تھی ؟کیا ہم نے تمہارے لیے بہتر انتظامات نہیں کیے تھے ؟”اللہ اکبر وقت کا گورنر نہ گھر میں روشنی ، نہ بستر نہ مناسب تکیہ اور نہ ہی سردی سے بچنے کے لیے کوئی خاص انتظام ۔ابو درداء کہتے ہیںکہ اے امیر المؤمنین اللہ کے رسول ۖ نے جاتے جاتے ہمیں یہ نصیحت کی تھی کہ :”دنیا میں ایک مسافر کی طرح رہو۔ایک مسافر کا ساز و سامان اس سے زیادہ نہیں ہوسکتا ۔

Fraud

Fraud

اے امیر المؤمنین ! اللہ کے رسول ۖ اس دنیا سے چلے گئے اس کے بعد ہم نے کیا کیا؟”اتنا کہہ کر سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے۔اور پھر دونوں کی آنکھوں سے آنسوئوں جاری ہوگئے۔یہ دونوں جلیل القدر صحابہ ساری رات روتے ہیں ہچکیا ں بند نہیں ہو رہی ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو دنیا کی زندگی میں کوئی رغبت نہیں تھی ان کو پتہ تھا کہ ان کی منزل آخرت ہے ۔ وہ پانی کے ایک قطرے کے لیے سمندر کو نہیں ٹھکرا سکتے تھے۔ ان کو جنت چاہیے تھی۔وہ دنیا سے کہتے تھے کہ اے دنیا تو ہمیں دھوکے میں نہ ڈال ہمیں ہمارے مقاصد کا بخوبی علم ہے ۔ وہ جونا پر لگے چکناہٹ کو جنت کے مول پر کیوں خریدتے ۔وہ بھی جانتے تھے آج ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ دنیا متاع ہے ۔آخرت کی زندگی بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی ہے فیصلہ ہمارے اعمال نے کرنا ہے ۔کہیںدنیا کی زندگی ہمیں دھوکے میں نہ ڈال دے ۔

تحریر: محمد معراج قریشی