آزادی اور نظریہ پاکستان کیوں ضروری تھے

Pakistan

Pakistan

تحریر : علی عمران شاہین
وطن عزیز کی تاریخ میں فیصلہ ساز مارچ کا مہینہ ایک مرتبہ پھر سایہ فگن ہے۔ جی ہاں! وہی مارچ کا مہینہ جس میں اسلامیان ہند نے علیحدہ وطن کی جدوجہد کو باقاعدہ اور منظم تحریک کی شکل دی تھی۔ برصغیر پر انگریز کے قبضے کے خاتمے کے جب آثار پیدا ہونا شروع ہوئے تو ہندوئوں کی فرنگی سامراج کے ساتھ ساز باز سے یہ محسوس ہونے لگا کہ مسلمانوں کو اب ہندوئوں کی غلامی کے اندھیروں میں دھکیلا جائے گا۔ مسلمان ہندوئوں کے ساتھ ایک ہزار سال سے زائد عرصہ سے رہ رہے تھے اور انہیں اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ ہندوئوں کی غالب اکثریت اور ان کی اجارہ داری میں ان کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ برصغیر میں مسلمانوں کی باقاعدہ آمد کے پیچھے بھی ہندو برہمنی مزاج اور معاندانہ رویہ کارفرما تھا۔ سری لنکا سے بصرہ کی جانب سفر کرنے والے بحری جہاز کو راجہ داہر کے لوگوں نے ہی تو پکڑ کے قیدی بنایا تھا اور پھر ان قیدیوں اور ان میں موجود ایک خاتون کی پکار پر حجاج بن یوسف کو اپنے 17سالہ جری بھتیجے محمد بن قاسم کی کمان میں فوج دے کر روانہ کرنا پڑا تھا جس نے اولو العزمی کی ایک نادر مثال قائم کرتے ہوئے طاقتور راجہ داہر کو اس کے وطن میں شکست دے کر قیدی مسلمانوں کو آزاد کروایا تھا۔ محمد بن قاسم نے اپنے قدم مزید بڑھائے اور ملتان تک کا علاقہ فتح کیا۔ ان کا اور ان کی فوج کا مقامی لوگوں کے ساتھ رویہ اتنا مثالی اور مہذب تھا کہ ان کی واپسی پر بے شمار ہندو بھی رو رہے تھے کہ ان کا ایک مسیحا یہاں سے رخصت ہو رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کیرج (گجرات) کے ہندوئوں نے محمد بن قاسم کے بت بنا کر انہیں پوجنے تک کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ یہ اس بات کی بھی علامت تھی کہ محمد بن قاسم اور ان کے ساتھیوں نے طاقت، فتح اور حکومت کے باوجود کسی شخص کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا تھا بلکہ ان کے رویے اور محبت سے بہت سے لوگ خود مسلمان ہوئے۔

عباسی خلافت کمزور ہوئی تو برہمنی سامراج جو راجہ داہر کی باقیات کی شکل میں موجود تھا، اس نے نومسلموں اور یہاں رہ جانے والے عرب مسلمانوں کو ستانا شروع کر دیا تھا۔ ان کی بیخ کنی کیلئے سلطان محمود غزنوی کو 17بار، شہاب الدین غوری کو کئی بار ہندوستان کا رخ کرنا پڑا۔ ان ترک اور افغان مسلم فاتحین کا باربار یہاں آنا اور پھر مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والوں کو شکست دے کر اور ان کی کمر توڑ کر واپس چلے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان فاتحین کے قلوب و اذہان میں یہ بات کبھی نہیں تھی کہ وہ اس زمین پر جبری قابض ہو کر بیٹھ جائیں۔ وہ مسلمانوںسے اچھا سلوک کرنے والے مقامی ہندوئوں کو بھی علاقوں کی حکومت دے کر چلے جاتے تھے لیکن راجہ داہر کی سی ذہنیت اور اس کی ذریت پھربھی مسلمانوں کو سکون نہ لینے دیتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ اسی افغانستان سے مغل فاتحین نے ہندوستان کا رخ کیا اور پھر اسی ہندوستان کے مختلف شہروں کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد جب مسلمانوں کی ہندوستان پر گرفت کمزور ہونا شروع ہوئی تو مسلمانوں پر ہندوئوں مظالم میں پھر اضافہ ہونا شروع ہوا۔ حتیٰ کہ نئی دہلی کے مسلمانوں نے جاں بلب ہو کر افغانستان سے ایک عظیم فاتح احمد شاہ ابدالی کو ہندو مرہٹوں کے ظلم سے نجات دلانے کے لئے آواز دی جنہوں نے فوری لبیک کہا اور پھر جنوری 1761ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست فاش سے دوچار کر کے مسلمانوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔

انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے کے بعد مسلمانوں کا مطالبہ یہی تھا کہ حکومت چونکہ ان سے چھینی گئی ہے لہٰذا حکومت واپس بھی انہیں کو ملنی چاہئے لیکن اب کے عملاً ایسا ممکن نہیں رہا تھا۔ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی تو مقابلتاً انہوں نے خطے کی 75فیصد آبادی رکھنے والے ہندوئوں کو ہر لحاظ سے اتنا طاقتور بنا دیا تھا کہ بھاری مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی مسلمانوں کا جینا دوبھر تھا۔ کاروبار حکومت ہو یا کاروبار زندگی ہر جگہ طاقت و غلبہ مکمل ہندوئوں کے پاس تھا۔ مسلمانوں کی پارٹی مسلم لیگ ابھی پوری طرح منظم نہ تھی، لہٰذا 1936ء کے انتخابات میں بیشتر نشستیں جیت کر کانگریس چھ صوبوں بغیر کسی دوسری پارٹی کی حمایت کے حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ یہی وہ بات تھی جس نے اسلامیان ہند کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ انہیں ہر صورت میں منظم ہو کر الگ وطن کے حصول کیلئے جدجہد کرنا ہو گی وگرنہ انگریز کے جانے کے بعد ان کے اوپر ظلم و جور اور جبروتعدی کا وہ دور شروع ہونے والا ہے کہ تاریخ میں ایسا وقت پہلے نہیں دیکھا ہو گا۔

23مارچ1940ء کی قرارداد لاہور کی جب تیاری کی جا رہی تھی تو اسے روکنے کے لئے بھی سازشیں ہوئیں۔ لاہور میں چند روز پہلے کشت و خون ہوا اور صاف لگتا تھاکہ یہ قیام پاکستان کی قرارداد کی منظوری کے لئے اسلامیان ہند کا اجلاس اور جلسہ عام منعقد نہیں ہو سکے گا، اتنے کٹھن حالات میں بھی قائداعظم نے پُرعزم ہو کر اجلاس لاہور میں شرکت کا فیصلہ کیا اور وہ بذریعہ ٹرین دہلی سے سیدھے لاہور پہنچے۔ 3روزہ اجلاس میں مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے حصول کی قرارداد منظور ہوئی جسے مسلم لیگ نے قرارداد لاہور کا نام دیا تھا لیکن کانگرس اور ہندو اخبارات نے خود ہی اس کا نام قرارداد پاکستان رکھ دیا تھا جس کی عملی تعبیر محض ساڑھے سات سال کے اندر دنیا کے سامنے آ گئی۔ اب مارچ کے مہینے کا آغاز ہوا تو اس سے پہلے بھارت کی کئی بڑی ریاستوں میں انتخابات کی گہما گہمی تھی۔عالمی نشریاتی اداروں نے لکھا کہ ان ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی 4کروڑ ہے لیکن ان کی ایک بھی سیٹ نہیں، بھارت کی موجودہ لوک سبھا میں مسلم اراکین کی تعداد 1947ء کے بعد کی 70سالہ تاریخ میں اس وقت سب سے کم ہے۔ وہاں پاکستان کی طرح اقلیتوں کیلئے کوئی مخصوص نشستیں بھی نہیں کہ انہیں بہرصورت چند نمائندگیاں حاصل جائے۔

بھارت کے مسلمان خود کو 28کروڑ بتاتے ہیں تو حکومت انہیں 18کروڑ تسلیم کرتی ہے، وہ پھر بھی اقلیت میں ہیں اور ہندوئوں کے نزدیک ان کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں۔ اب تو گائے کے ذبیحہ کے نام پر انہیں جگہ جگہ ذبح کرنے کا قانونی راستہ بھی نکل آیا ہے۔ جب ماہ مارچ کا آغاز ہو رہا تھا تو اس کی پہلی ہی تاریخ کو بھارت کی موجودہ طاقتور حکمران پارٹی بی جے پی کی رکن پارلیمان اور انتہائی بارسوخ شخصیت ساکشی مہاراج نے علی الاعلان کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو بھی اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے مردوں کو دفنانے کے بجائے لازماً جلائیں اور ملک میں کوئی قبرستان نہیں ہونا چاہئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت کروڑوں کی تعداد میں وہ ہندو سادھو موجود ہیں جو مرنے والے کو جلانے کی تکلیف اور اذیت ناک روایت کو ترک کر کے مسلمانوں کے طرز پر باقاعدہ دفناتے ہیں، پھر بھی برہمنی سوچ رکھنے والے مسلم دشمن سنگھ پریوار کے لوگوں کو مسلمانوں کا طریقہ تدفین کسی صورت قبول نہیں۔

مارچ کا مہینہ ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ ہم ہندوئوں سے الگ تھلگ ایک ملت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کی اس لحاظ سے دو ہی قوتیں بیان فرمائی ہیں کہ ایک حزب الرحمن اور دوسری حزب الشیطان ہے، جن کا باہم ملاپ اور ایکا کسی صورت ممکن نہیں۔ مسلمانوں کو بتایا اور سکھایا ہی یہ گیا کہ وہ اپنی الگ حیثیت سے آزاد اور باوقار انداز سے زندگی گزاریں۔ مسلمانوں کے انہی حالات و واقعات کے پیش نظر ہی قائداعظم نے مسلمانوں کو سجھایا تھا کہ کچھ بھی ہو انہیں الگ وطن لینا ہی پڑے گا۔جس وقت تک ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور یہ پسند کرتے ہیں کہ ہم اس نام کے ساتھ پکارے جائیں اور اس نام کے ساتھ فوت ہو کر جنازے کے ساتھ دفن ہوں تو ہمیں اسلام کے ساتھ منافقانہ سلوک بھی ترک کرنا ہو گا۔ ملت کے ہر فرد کو اسلام کی بنیاد و اساس پر ہی اپنا سب کچھ اپنانا اور چلانا ہو گا۔ سچ بات یہ ہے کہ ہم نے70سال کے عرصہ میں بہت غلطیاں کر لی ہیں اور آج تک ہم نے جو اور جتنا نقصان اٹھایا وہ سبھی ان کوتاہیوں کا نتیجہ ہے جو اسلام سے دوری کی شکل میں ہم دیکھتے چلے آئے ہیں۔ اب 70 سال بعد ہی سہی لیکن ہمیں اپنا طرز فکر و عمل تبدیل کرنا ہو گا۔ 23مارچ 1940ء کی یادوں کو پھرسے تازہ کر کے انہی راہوں پر آگے بڑھنا ہو گا۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین
برائے رابطہ:0321-4646375