پھلوں کے بائیکاٹ کی کامیاب تحریک

Phalon Ke Boycott Ki KamyaabTehreek

Phalon Ke Boycott Ki KamyaabTehreek

تحریر: سید انور محمود
دو جون سے چار جون یعنی تین دن کراچی میں مہنگے پھل نہ خریدنے کا آئیڈیا کس کا تھا اس کا تو نہیں پتہ، لیکن یہ آئیڈیا سوشل میڈیا پر جس تیزی سے پھیلا اور عام لوگوں نے اس کو قبول کیا ایسا پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے۔ کیونکہ رمضان کے مہینے میں پھلوں کی قیمتیں دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں اس لیےاہل کراچی سے اپیل کی گئی کہ رمضان میں دو جون سے چار جون تک یعنی تین دن پھل نہ خریدیں۔ شاید اس بات کا آغاز رمضان سے پہلے شروع ہوگیا تھا، بات آگے بڑھی اور بہت جلدہی مقبول ہوگئی دو جون سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر یہ ایک بڑی تحریک بن گئی اور پھر یہ کراچی کی نہیں پورئے ملک کی تحریک بن گئی، بعد میں ملک بھرکے نیوز چینلوں پر بھی یہ تحریک خبر بن گئی اور سارا میڈیا اس تحریک کو اہمیت دینے لگا۔ کراچی ہو یا کوئیٹہ، پنڈی ہو یا پشاور ناجائز مہنگائی پورئے ملک میں ہے اور پھر برسا برس سے ایک رسم یہ چلی آرہی ہے کہ پاکستان میں شہر رمضان عام لوگوں کےلیے برکتوں والا نہیں بلکہ لوٹ مار والا مہینہ ہوتا ہے، ہر چیز کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے، خاصکر کھانے پینے کی اشیاوں کی قیمتیں جس میں پھل کو ایک خاص اہمیت ہے۔ دستر خوان چاہے میرا ہو یا آپکا افطار کے وقت ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پھل بھی کھائے۔پاکستان کے علاوہ پوری اسلامی دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا، بلکل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کو سستا کردیا جاتا ہے، کوئی اپنی جیب سے مہربانی نہیں کرتا ہے لیکن وہ اپنے منافع کا ایک حصہ اشیا کی قیمت سے کم کردیتا ہے۔

جیسے جیسے دو جون قریب آرہا تھا اس تحریک کی حمایت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی مخالفت بھی کی جارہی تھی، دونوں اطراف سے حمایت اور مخالفت میں دلیلیں آخری دن تک دی جاتی رہیں۔پھلوں کی خریداری کے بائیکاٹ کی مہم زوروشور سے چلی اس کے حق میں اور مخالفت میں لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔ حمایت میں لکھنے والے یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ سال بھر میں صرف رمضان ہی ایک ایسا مہینہ ایسا ہوتا ہے جب ہم پھل کھالیتے ہیں، معاشی طور پر مشکل ہوتا ہے کہ ہم زیادہ پھل کھاسکیں۔ جبکہ پھلوں کی خریداری کے بائیکاٹ کے مخالفت انقلابی بننے ہوئے تھے اور انکی پوری ہمدردی ریڑھی والوں کے ساتھ تھی۔پاکستان میں پہلی بار کسی ایسی مہم کا آغاز ہوا ہے اور اس مہم کے حامیوں کی پوری کوشش تھی کہ بغیر کوئی جلوس نکالے، بغیر کوئی ہنگامہ کیے سوشل میڈیا کہ ذریعے عام لوگوں کو شعور دیا جائے کہ وہ کیسے یکجا ہوکر رمضان کے مہینے میں پھلوں کی قیمتوں میں کمی لائیں اور ایسا ہی ہوا۔ اس مہم کا کافی مذاق بھی اڑایا گیا، مثلاً پوچھا گیا کہ کیا ایک ہزار کا کرتا جوکسی بڑئے نام سے سات ہزار کا بکتا ہے اس کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا یا’کیا بجلی کی قیمت کم کرانے کے لیے بجلی کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا؟‘۔ اس تحریک کی مخالفت کرنے والے سب سے زیادہ ریڑھی والوں کی ہمدرد تھے، ان کا کہنا تھا کہ بائیکاٹ کا نقصان صرف ریڑھی والوں کو پہنچے گا جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔

بائیکاٹ کے پہلےدن مہنگے داموں پھل فروخت کرنے والے پھل فروشوں نے جو قیمت میں ایک روپے کی کمی پر تیار نہ ہوتے تھے، 20 فیصد تک کم قیمت پر پھل فروخت کیے لیکن پھر بھی خریدار نہ ہونے کے برابر تھے۔پورئے ملک میں پھلوں کی فروخت میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔روز نامہ ایکسپریس نے تین جون کو پہلے دن کے بائیکاٹ ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’کراچی میں پھلوں کے مرکزی بازار صدر میں پھلوں کی قیمت 20فیصد تک گر گئی ہے، لیاقت آباد میں تین ہٹی سے ڈاک خانہ تک لگنے والے پھلوں کے بازار میں بھی پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم کے اثرات واضح دکھائی دیے جہاں بہت سے پھل فروش ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے‘‘۔ پہلے دن پھل فروشوں نے اپنا مال فروخت کرنے کے لیے شہر میں نماز جمعہ کے بعد مساجد کے اطراف سیل لگادی جہاں گزشتہ روز کے مقابلے میں پھل20سے 25فیصد کم قیمت پر فروخت کیے گئے لیکن یہاں بھی عوام نے پھل نہیں خریدئے۔ پھلوں کی خریداری کے پہلے دن کے بائیکاٹ کا اثر اگلے دن سبزی منڈی جاپہنچا اور پھلوں کی خریداری کے لیے منڈی کا رخ کرنے والے پھل فروشوں نے بائیکاٹ کی مہم کو پیش نظر رکھتے ہوئے محدود خریداری کی جس کا اثر قیمتوں پر بھی مرتب ہوا ہے۔سوشل میڈیا پر3 روزہ بائیکاٹ مہم کے اعلان کے بعدپھلوں کی قیمت میں کمی کا رجحان تھا۔ 30مئی سے 2جون کے دوران آم کی قیمت میں 5سے 20روپے فی کلو تک کمی آچکی تھی۔ آڑو اور خوبانی کی قیمت میں50روپے کلوجبکہ کیلے کی قیمت20روپے فی درجن تک کمی ہوچکی تھی۔

تین دن کی پھلوں کی خریداری کے بائیکاٹ کی تحریک ریڑھی والوں کے خلاف نہیں تھی ، یہ تحریک ان لوگوں کے خلاف تھی جومہنگائی کے اصل زمہ دار ہیں لیکن عوام کا ان سے براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہوتا ۔ پہلے دن کے بائیکاٹ کے بعد ہی ایگری کلچر مارکیٹ کمیٹی کے وائس چیئرمین نےاقرار کیا کہ پھلوں کی خریداری کے بائیکاٹ کے اثرات سے فروخت میں10سے 15فیصد تک کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ وائس چیئرمین کا یہ اقرار دراصل سوشل میڈیا کی پھلوں کی خریداری کے خلاف چلائی ہوئی تحریک کی کامیابی کا اقرار ہے۔ ستر سال میں شاید یہ پہلی عوامی تحریک تھی جس میں نہ کوئی سیاسی اختلاف تھا اور نہ ہی مذہبی، فرقے بھی اس تحریک کے آڑے نہیں آئے اور نہ ہی لسانیت یا علاقایت، تو دوستوں اس سے زیادہ خوبصورت تحریک آجتک نہیں چلی تھی۔ تین دن کی اس تحریک کی کامیابی پر میں پورئے پاکستان کے عوام کو مبارکباد دیتا ہوں۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود