بنیادی اشیائے ضروریہ کی کمر توڑ قیمتیں

Vegetable Prices

Vegetable Prices

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
عید قربان پر جو افراد غربت کی وجہ سے قربانی کے جانور خرید کرسنت ابراہیمی ادا کرنے سے محروم رہ گئے ان بیچاروں کو خود آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی نے ذبح کر ڈالااس وقت سے اب تک بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی ہوش ربا بڑھوتری کے رجحان میں تیزی ہی آتی جارہی ہے حتیٰ کہ برائلر مرغی کا گوشت جس کے کاروبارپر پنجاب بھر میں “شریفین اور ان کے عزیز واقارب و دوست احباب ” کا ہی قبضہ ہے بھی بتدریج مہنگا ہوتا چلا جارہا ہے اسی طرح چینی جس کی پچھلے دو ماہ سے پانچ لاکھ ٹن کے کوٹہ کی برآمد کے لیے سرکاری احکامات جاری ہوئے تھے اور ان سود خور نودولتیوں کو سبسڈی سے بھی نوازا گیا تھا اب چونکہ چینی زخیرہ اندوز سرمایہ پرستوں نے اپنے خفیہ گوداموں میں چھپا رکھی ہے اس لیے اس کی کمی کا رونا روتے ہوئے اس کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں اور یوٹیلٹی سٹور زسے تو گدھے کی سینگوں کی طرح عرصہ سے چینی غائب ہوچکی ہے تیل کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ میں کمی کے باوجودپاکستان میں دوہری تہری وصول کی جارہی ہیں مہنگائی غریب کے لیے جان لیوا مگر دنیا کے لعنتی ترین اور کافرانہ نظام سود کے علمبردار سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کے لیے بہار کا جھونکا ہے چونکہ اشیائے ضروریہ کے پچانوے فیصد مالکان حکومتی بنچوں پر قابض ہیںجب کہ چینی کی سندھ میں17ملیں زرداری صاحب کی ملکیت ہیں اس لیے چینی مہنگے ترین نرخوں پر ہی دستیاب ہو گی۔

تمام سبزیوں پھلوں اور انڈوں کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیںاور ان کی قیمتیںعید کے بعد مسلسل بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں ٹماٹر تین سنچریاںمکمل کرچکا اب پیاز سنچری بنا چکا اور ادرک و لہسن کی ڈبل سنچری میں چند رنز (روپوں ) کا ہی فاصلہ ہے سی این جی و ایل پی جی گیسوں میں جس طرح اضافے کا رجحان چل رہا ہے وہ ہم بیان کرنے سے قاصر ہیں آٹھ سو روپے پر بکنے والا گھریلو گیس کا سلنڈر اب 1300 روپے سے بھی کراس کرچکا ہے فروٹس اور سبزیوں کی قیمتیں مارکیٹ کمیٹیاں سرکاری طور پر جاری کرتی رہتی ہیں مگر یہ کاغذی کاروائی ہوتی ہے پہلے بھی کبھی کسی سبزی یا فروٹ فروش نے اس لسٹ کو آویزاں نہیں کیا اب حکمرانوں کے چل چلائو کے وقت تو اب کیونکر کریں گے؟ اس کو فضول ردی کا کاغذ سمجھ کر کسی ٹوکری میں پھینک ڈالتے ہیں۔

غریب مائوں بہنوں بیٹیوں کے لیے کچن چلانا اب ناممکن ہے اور فروٹ تو غریب کیسے خریدیں گے؟ سندھ کے حکمرانوں نے تمام اسمبلی ممبران اور بڑے عہدوں کے لیے تنخواہوں میں تین سو گنا اضافہ کر لیا ہے جس پر وزیر اعلیٰ کے دستخطوں کے بعد عملدرآمد شروع ہو گیا ہے ملک بیرونی قرضوں میں ڈوب چکا ہے معیشت کی حالت عام آدمی ،معیشت دانوں اور افواج پاکستان کی نظر میں دگرگوں ہے مگر حکمرانی وزراء سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں تقریباً سبھی بڑی پارٹیوں کے کرتا دھرتا ایکدوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں اور بات گالم گلوچ اور ایک دوسرے کو مار ڈالنے تک پہنچی ہوئی ہے اس لیے ان پرانے جغادری سیاستدانوں کو غریبوں کے لیے جن بھوت بنی مہنگائی پر نہ تو ملال ہے اور نہ ہی اس کے روکنے کی کوئی تدبیر در اصل یہ سب کچھ عرصہ دراز سے نافذ نظام سود کا ہی کیا دھرا ہے ہر کاروباری شخص سود پر رقوم بینکوں سے لیتا ہے اور پھر اس پر کم ازکم 13تا 18فیصد کی رقوم بطور سود بینکوں والے لے جاتے ہیںاس طرح سودی گھن چکر اور سرمایہ دارانہ گھوم چکری کی بنا پر ہر شے کی قیمت انہیں بڑھاناہی پڑتی ہے۔

سودی سرمایہ کا یہ غلیظ سرکل جسے دین اسلام نے سختی سے منع کیا تھا اور قوانین خدا وندی کے مطابق جو سودی لین دین کرتے ہیں وہ خدا اور اس کے رسول کے خلاف براہ راست جنگ میں ملوث ہیںاور یہ کہ سود لینے والے دینے والے اور اس لعنتی کافرانہ نظام میں گواہ بننے والے اگر72دفعہ اپنی سگی ماں سے زنا کر لیوں تو بھی سود کا لینا دینا اس سے بڑھ کر گناہ ہے آقائے نامدار محمد ۖ نے اس کاروبار کے مضمرات سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سود سے غربت مزید بڑھتی ہے اور سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتا ہے واضح ہے کہ اس طرح سے معاشرہ میں تفاوت بڑھ کر لڑائی جھگڑے ہوں گے لوگ اپنے سرمایہ سے بنے ہوئے سود خور سرمایہ داروں کے محلات دیکھ کر نفرتوں کا شکار ہوں گے اور معاشرہ میں آپس کا شدید اختلاف قتل وغارت گری کو جنم دیگاموجودہ شریفوں کی حکومت نے تو سود کو فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ سے ختم کرنے کے احکامات پر اپنی سابقہ حکمرانی کے دور میں سٹے آرڈر جاری کروالیا تھا۔

اس چھینا جھپٹی والے نظام سود کے ہوتے ہوئے ہم خدا کی رحمتوں کے نزول سے محروم ہیں نواز شریف نے خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اپنی خود ساختہ جلاوطنی کے دوران جن صحافیوں و دوست احباب کی موجودگی میں یہ اعلان کیا تھا کہ اگر مجھے دوبارہ اقتدار ملا تو میں اسلامی نظام کو اس کی اصل ا سپرٹ کے تحت نافذکروں گا وہ آج بھی موجود ہیں مگر موجودہ چار سال اس وعدہ کی خلاف ورزی میں ہی گزار ڈالے جب تک نظام سود کا مکمل خاتمہ نہ ہو گا مہنگائی مسلسل بڑھتی رہے گی اور سودخور نودولتیے سرمایہ دارطبقات حکومت کی اشیر باد سے غرباء کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ ڈالیں گے کہ یہ تو وہی ہیں جو خون مزدور شرابوں میں ملا کر پی جاتے ہیںصحیح اسلامی جمہوری فلاحی مملکت ہی خدا کی مشیت ایزدی سے قائم ہو کرمہنگائی غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ کرسکتی ہے۔وما علینا الا البلاغ۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری