جنت کے پھول

Crying Women

Crying Women

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
اتوار کی شام زندہ دلان ِ لاہور گلشن اقبال پارک میں سیر اور لطف انگیز لمحات گزارنے کے لیے آئے ہوئے بے گناہ شہریوں معصوم بچوں کو دہشت گردوں نے ایک بار پھر خون میں نہلا دیا۔ پچھلے بارہ سالوں میں شہر لاہور تین درجن سے زائد بم دھماکوں کا نشانہ بن چکا ہے لیکن حالیہ بم دھماکہ سب سے زیادہ لرزہ خیز اور دل و دماغ کو شل اور اُدھیڑنے والا تھا ۔ اتوار کی چھٹی اور مسیحی بھائیوں کے ایسٹر تہوار کی وجہ سے رش روٹین سے بہت زیا دہ تھا۔ معصوم بے گناہ شہری ہونے والی قیامت صغرٰی سے بے خبر اپنے معصوم پھول جیسے بچوں کو لے کر پارک آئے ہو ئے تھے معصوم پھول نما بچے آنے والی قیامت سے بے خبر اپنی مائوں باپوں اور بہن بھائیوں کی انگلیاں پکڑے چہروں پر خوشی اشتیاق اور جوش کے تاثرات سجائے دنیا جہاں سے بے خبر گھوم رہے تھے کوئی جھولوں کی طرف کوئی کولڈ ڈرنکس دہی بھلے فروٹ چاٹ وغیرہ کے مطالبے اپنے بڑوں سے کر رہے تھے۔

بچوں کے معصوم پھول نما چہرے خوشی سے دمک رہے تھے تقریباً تین ہزا ر سے زیادہ لوگ تفریح کی غرض سے پارک میں آئے ہوئے تھے کہ درندے دہشت گرد نے مرکزی دروازے کے قریب جہاں بہت زیا دہ بھیڑ اور رش کی وجہ سے لوگ جمع تھے خودکو دھماکے سے اڑا لیا اچانک قیامت صغری بر پا ہوگئی اس ہولناک دھما کے کی وجہ سے 72 سے زائد افراد جان بحق اور سینکڑوں زخمی اور اپاہج ہوگئے ۔ دھماکے کے بعد افراتفری پھیلنے سے اکثر معصوم چھوٹے ، بچے ماں باپ سے بچھڑ گئے افراتفری میں اِیسی بھگ دڑمچی کہ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا معصوم پھول نما بچے لوگوں کے پائوں تلے روندے گئے کئی مائیں اپنے بچوں کے کٹے اعضا دیکھ کر پاگل ہوگئیں باپ غم کی شدت سے بے ہوش ہوگئے افراتفری اور بھاگ دوڑ میں کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا۔ وحشی درندے نے خون کا ایسا بھیانک کھیل کھیلا کہ انسانیت کو خود پر شرم آنے لگی انسان اِس حد تک گر سکتا ہے انسانیت شرمندگی کے سمندر میں ڈوب گئی۔ بہت سارے لوگ اور بچے لا پتہ ہوگئے جن کی تلاش کے لیے کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔

لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں دیوانہ وار گلشن پارک کی طرف دوڑے کسی کو کسی کی کوئی خبر نہ تھی وحشت اور درندگی کا کھیل اپنے جو بن پر تھا۔ مائیں اپنے بچوں کو اور بچے اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کو دیوانہ وار پکار رہے تھے۔ مائیں اور بہنیں اپنے ماں جائیوں کو دیوانہ وار پکارتی پھر رہی تھیں ان کی چیخ و پکار اور دھاڑوں سے صفِ ماتم بچھا ہوا تھا مائوں اور بہنوں کی آوازوں سے لگتا تھا آسمان پھٹ پڑے گا یا اِن کی چیخیں آسمان کو اور دھرتی کو چیر ڈالیں گی۔ متاثرین کی بے چینی دکھ درد آہ و بکا اور رونے پیٹنے سے آنے والوں کی آنکھوں سے بھی درد کی شدت سے آنسوئوں کے آبشار اُبلتے رہے جب اِن کے لاشے گھروں میں گئے تو گھر ماتم کدوں میں تبدیل ہوگئے اور جب اِن کے جنازے اُٹھے تو ہر آنکھ اشکبار اور دل زخمی تھا۔ اُن ماں باپ بہن بھائیوں کے دکھ کا کیا عالم ہوگا جن کے جگر گوشوں کے لاشے ان کے سامنے لائے گئے ہوں آنے والی ساری زندگی کیا یہ متاثرین دکھ کے اس سمندر سے نکل پائیں گے۔

Lahore Blast

Lahore Blast

کیا ان کی باقی ساری زندگی پل صراط پر گزرنے کے برابر نہیں ہوگی تصور کر یں اُن زخمی اور اپاہجوں کا معذوری ساری زندگی جن کا مقدر بن گئی ۔ ایسی ایسی معذوری کہ موت سے بھی بدتر۔ درندے دہشت گردوں نے مائوں بہنوں کو درد اورجس خوف میں مبتلا کیا ہے اِس کا وہ اندازہ بھی نہیں کرسکتے کہ نادانستگی میں ظالموں نے معاشرے کے کس حساس حصے کو زخمی اور بے پناہ تکلیف اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے ۔ یہ وہی پارک ہے جو پچھلے کئی عشروں سے آنے واے لوگوں کو خوشی کے لمحات بانٹ رہا تھا ۔ پارک کے ایک ایک گوشے سے زندگی اور خوشیاں پھولوں کی طرح چاروں طرف بکھرتی تھیں ایسا پارک جہاں یہ فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پوری طرح جلوہ افروز تھی۔

لاہور اور دوسرے شہروں سے آنے والوں کے لیے پارک نے اپنی ماں جیسا دامن ہمیشہ واکیا ہوا تھا۔ ایسا پارک جہاں معصوم بچوں کی بھاگ دوڑ کھیل کود نوجوانوں کے چہروں کا لازوال حسن شادی شدہ جوڑے اور مختلف خاندان اپنے بچوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ آکر زندگی سے بھرپور لمحات یہاں گزارتے ۔ گلاب کے پھولوں کا حصہ ہو یا ہرنوں کا کشادہ پارک جھیل ہو یا مختلف پھولوں سے سجے مہکتے گوشے یا پیدل واک کر نے والوں کا ٹریک یا پھر بچوں کے جھولے اور کھا نے پینے کی دکانیں ہر وقت میلے کا سماں آپ جتنے بھی پریشان ہوں جب بھی آپ اِس ماں جیسے سر سبز پارک میں گئے تو پارک نے اپنی باہوں کو پھیلا کر آنے والوں کو خوش آمدید کہا۔ ایسا پارک جس کے گوشے گوشے سے خوشیوں اور مسرتوں کے چشمے پھوٹتے تھے۔

یہاں پریشاں سے پریشان بندہ یا زندگی کے مسائل سے لڑتے لڑتے تھک کہ جب بھی کوئی آیا چند لمحات اِس پھولوں اور سبزے سے بھر پور لہلہاتے درختوں میں گزارے تو اپنا سارا غم اور تھکاوٹ بھول گیا ۔ اِس پارک نے سب کو زندگی اور مسرت انگیز لمحات دئیے۔ لیکن ظالم درندوں کی درندگی کی انتہا دیکھیں کہ انہوں نے معصوم بچوں، خواتین اور شہریوں کو hit کیا۔ کسی مفکر نے کیا خوب کہا تھا کہ اگر آپ زندگی سے بے زار ہو جائیں آپ کی زندگی میں کشش ختم ہو جائے تو آپ صرف ایک بار کسی آئس کریم کھاتے بچے کو دیکھیں وہ جس محویت اور خوشی سے آئس کریم کھا تا اور enjoy کرتا ہے اُس بچے کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے قوس ِ قزح کے رنگوں کو دیکھ کر آپ زندگی کی تمام تلخ حقیقتوں کو بھول جائیں گے آپ واپس زندگی کی طرف آجائیں گے اور دھماکے کے وقت ایسے بے شمار بچے آئس کریم بھی کھا رہے ہوں گے۔

Dead Bodies

Dead Bodies

اُس ظالم درندے کو یہ جنت کے لازوال مہکتے پھولوں جیسے چہرے نظر نہ آئے آپ تاریخ انسانی کا ورق ورق پڑھ لیں آپ کو ایک بھی ایسا ظالم حکمران نظر نہیں آئے گا جس نے اِس بے دردی اور بے رحمی سے اِن معصوم پھولوں کو کچلا ہوگا اِن پھولوں کو موت کی بے رحم وادی میں اُتارا ہوگا ۔ اِس ہولناک حادثے کے بعد پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی لوگو ں نے بھیانک اور دلوں کو چیرنے والے مناظر دیکھے لوگ بلک بلک کر رو پڑے مائیں اِس بے دردی سے بچوں پر ہونے والی قیامت کے بعد آج تک ڈپریشن اور سکتے میں ہیں۔ وہ ما ئیٰں جو اپنے بچوں کو کانٹا بھی نہیں چبھنے دییتیں اُن مائوں کے بچوں کو اِس بے درد ی سے مارا گیا کہ ظالم سے ظالم بھی رو پڑا بلک پڑا ظالم درندے جس جنت کی تلاش میں یہ تبا ہی پھیلاتے ہیں اُس جنت کے مالک سرور کائنات مجسم رحمت آقائے دو جہاں ۖ کا بچوں کے بارے میں جوفرمان ہے اُس کو کا ش یہ ظالم پڑھ لیں۔ ایک دفعہ ایک غزوے میں ایسا ہوا کہ چند بچے کسی طرح لڑائی میں آکر مارے گئے۔

شافع دو جہاں ۖ کو جب پتہ چلا تو بہت آزردہ ہوئے تو ایک صحابی نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ۖ وہ تو مشرکوں کے بچے تھے تو اس سے شافع دو جہاں رحمتِ دو جہاں ۖ نے فرمایا مشرکوں کے بچے بھی تم سے بہتر ہیں خبردار بچوں کو قتل نہ کرو یاد رکھو ہر بچہ اللہ ہی کی فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے ۔ حضور ۖ جب بھی سفر سے واپس آتے تو راستے میں جو بچے بھی ملتے مسلمان یا مشرک کے تو آپ ۖ نہایت شفقت سے اُنہیں اپنی سواری پر آگے یا پیچھے بٹھا لیتے ۔ حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں سرور دو جہاں ۖ کے پیچھے نماز ظہر پڑھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ ۖ دولت خانہ کو تشریف لے گئے تو میں بھی آپ ۖ کے ساتھ ہولیا راستے میں پیا رے آقا ۖ کو جو بھی بچہ ملا حضور اقدس ۖ نے اُس کے رخسار پر دست شفقت پھیرا اور پھر میرے رخساروں پر بھی دستِ اقدس پھیرا میں نے آپ ۖ کے دست ِ مبارک کی ٹھنڈک اور خوشبو ایسی پائی گو یا آپ ۖ نے دستِ مبا رک عطا ر کی صندوقچی سے نکالا تھا۔

سرتاج الانبیاء ۖ کو راستے میں کھیلتے ہوئے بچے ملتے تو شفقت و محبت سے متبسم ہو کر بڑی محبت سے انہیں سلام کر تے اور اُنہیں سلام میں پہل کر نے کا موقع نہ دیتے پھر اُن کے پاس کھڑے ہو کر اُن بچوں سے پیار بھری با تیں کرتے۔ بچے حضور اقدس ۖ کی محبت اور شفقت بھرے سلوک کی وجہ سے آپ ۖ سے بہت محبت کرتے جہاں آپ ۖ کو دیکھتے بھاگ کر آپ ۖ کے پاس پہنچ جاتے سرور کائنات ۖ اُن سے پیار کر تے پھل دیتے کھجوریں دیتے جو پاس ہوتا وہ دیتے اور گلشن پارک میں جن جنت کے پھولوں کو مرجھایا گیا شہید کیا گیا جب اِن کی روحیں سرور دو جہاں ۖ کے پاس زخمی زخمی جائیں گی تو دہشت گردو آپ کس منہ سے پیا رے آقا ۖ کا سامنا کریں گے۔

Prof Abdullah Bhatti

Prof Abdullah Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
03004352956

Lahore Blast

Lahore Blast