جنرل راحیل شریف اور عوامی رائے

General Raheel Sharif

General Raheel Sharif

تحریر : محمد عرفان چودھری
29 نومبر 2016 ء کا دن پاکستان میں ایک خاص اہمیت حاصل کرنے جا رہا ہے کیونکہ اُس دن پاکستان کا ایک جُرات اور شجاعت سے بھرپور سپہ سالار اپنے عہدسے ریٹائر ہو جائے گا جو کہ اگر مُلکی موجودہ صورت حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بات کی جائے تو یقیناََ پُوری قوم کی آواز ایک ہی ہوگی کے جنرل راحیل شریف کو مزید ایکسٹینشن لیتے ہوئے اپنے مشن کو جاری و ساری رکھنا چاہیئے مگر بعض لوگوں کے نزدیک جنرل راحیل شریف صاحب کو مزید ایکسٹینشن نہیں لینی چاہئے ایسا کرنے سے فوج کا مورال ڈائون ہوتا ہے اور اگر گزشتہ فوجی ادوار کی بات کی جائے تو یہ بات بڑی حد تک صادر بھی آتی ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں جس ڈھٹائی کے ساتھ مارشل لاء لگا کر نواز حکومت کا تختہ اُلٹا یا گیا اور پاکستان کا خود ساختہ صدربن کر جمہوری حکومت کو ڈی ریل کیا گیا وہ سب کے سامنے ہے اِسی طرح جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے دور میں ریٹائرمنٹ لینے کی بجائے ایکسٹینشن لینے کے کچھ عرصہ بعد ہی سوات میں امریکی فوج کی جانب سے اُسامہ بن لادن کے نام پر جو کارروائی پاکستان کی حدود میں کی گئی وہ آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے اس لئے بعض لوگوں کی نظر میں جناب راحیل شریف کا ایکسٹینشن لینا کئی مسئلوں کا باعث بن سکتا ہے جن میں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے مسلم مخالف خاص کر پاکستان مخالف صدر کا انتخاب ہے جو کہ امریکی انتخابات سے پہلے بھی مسلم دُشمنی کی تقریریں کر چکا ہے۔

پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی کھلے عام حمایت بھی کر رہا ہے جس کا تازہ ثبوت بلوچستان میں شاہ نورانی کے مزار پر حملہ ہے اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے سرحدی علاقوں میں بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات سب کے سامنے ہیں جو کے راحیل شریف کے ایکسٹینشن نہ لینے اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کو خاک میں ملانے کے لیئے کئے گئے مگر جنرل راحیل شریف کی ذاتی دلچسپی کی بناء پر سی پیک کا منصوبہ پایا تکمیل تک پہنچا اِسی طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جس کی بدولت جنرل راحیل صاحب عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں اِس لئے عوامی ترجمانی کے مطابق تو راحیل شریف صاحب کو ایکسٹینشن لے لینی چاہیئے۔

یہ تو تھیں ایکسٹینشن لینے یا نہ لینے کی زبانی باتیں اگر ہم تصویر کے دوسرے رُخ کو دیکھیں تب بھی ہمیں کوئی تبدیلی نظر آتی محسوس نہیں ہوتی جس کی بڑی وجہ ہم خود عوام ہیں کیونکہ ہم عوام ہی گلی کے تھڑوں پر بیٹھ کر پارلیمینٹیرینزاور فوج کے درمیان بظاہر پائے جانے والے اچھے تعلقات کی باتیں کرتے ہیں ، کبھی ہم وزیر اعظم پاکستان کو ڈمی وزیر اعظم گردانتے ہیں کہ نواز شریف صاحب صرف کٹھ پُتلی وزیر اعظم ہیں اور پسِ پردہ ساری کمانڈ جنرل راحیل صاحب کے ہاتھ میں ہے اور دوسری جانب اپنی اپنی پارٹی کے نام پر کسی کو گالی دینے سے بھی نہیں کتراتے، یہی عوام راحیل شریف کی ایکسٹینشن نہ لے کر عزت سے فوج کو الوداع کر کے جمہوری طریقے سے سیاست میں آنے کا مشورہ دیتی ہے تو دوسری جانب جب ان پراپنے لئے اپنا حکمران چُننے کی باری آتی ہے تو یہی عوام موروثی سیاست کی نظر ہو جاتے ہیں جیسے کے گزشتہ انتخابات میں عوام نے اپنے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جنہوں نے اس ملک پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور دُنیا کی نظر میں پاکستان کو مقام دلایا۔

Election

Election

اپنی موروثی سیاست اور بندوا گیری کی وجہ سے فراموش کر دیا آپ کہیں بھی چلے جائیں کسی بھی عام سیاسی بندے سے نیوٹرل ہو کر بات کرنے کو کہیں اُس کی نظر میں قومی ہیرو کوئی اور ہو گا مگر موروثی و نظریاتی و بندوا گیری کی بدولت اُس نے ووٹ اپنی منتخب کردہ پارٹی ہی کو دینا ہوتا ہے جس کی وجہ نسل در نسل سر جھکا کر جی حضوری کرنا ہو یا کسی وڈیرے سے قرض لیا ہو یا پھر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اپنا ووٹ بیچنا ہو۔

”ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں اورشام کہاں”

اِس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کے کسی بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کے مجھے کیسے پتا چلے گا کہ لوگ مجھ سے نا خوش ہیں وزیر نے مشورہ دیا کے حضور ایک شاہی فرمان جاری کر دیں کہ کل سے شہر کے باہر جانے والے کو جُوتے مارے جائیں چنانچہ وزیر کی بات پر عمل در آمد کرتے ہوئے روز شہر سے باہر جانے والوں کو جوتے مارنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا کچھ لوگ حیران ہوئے اور کچھ پریشان مگر کسی نے بھی بادشاہ سے شکوہ نہیں کیا بادشاہ نے پھر وزیر سے کہا کہ لوگوں نے تو مجھ سے شکائت نہیں کی کہ وہ میرے اس رویے سے تنگ ہیں وزیر نے مشورہ دیا کہ حضور جوتوں کی تعداد بڑھا دی جائے چنانچہ پھر شاہی فرمان پر عمل در آمد ہوا اور جوتوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا مگر بلا سود! بادشاہ سلامت نے پھر وزیر سے مشورہ کیا تو اب کی بار وزیر نے مشورہ دیا کہ آتے ہوئے اور شہر سے باہر جاتے ہوئے دو وقت کے جوتے مارے جائیں چنانچہ وزیر کے مشورے پر شاہی فرمان جاری ہوا اور لوگوں کو دو وقت جوتے مارنے شروع کر دیئے مگر اس بار وزیر کے مشورے کا اثر ہوا اور لوگ اکٹھے ہو کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور شکائت کی کہ حضور والا ہم لوگ آپ کے ایسے ظلم کے خلاف آوازبلند کرنے آئیں ہیں کہ آپ کے فرمان کے مطابق جوتے کھاتے ہوئے دیر ہو جاتی ہے اس لئے مہربانی کریں کے جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیں تا کہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو اور ہم آرام سے جوتے کھا کر اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہو سکیں۔

ہماری حالت بالکل اُس بادشاہ کی رعایا جیسی ہی ہے جو کے ظلم برداشت کرنے کے لئے درخواست کرتی ہے مگر ظلم ختم کرنے کے لئے نہیں بلکل اسی طرح جب جنرل راحیل شریف اگر ایکسٹینشن لیں گے تو آمر کہلائیں گے اور اگر سیاست میں آ گئے تو ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی جماعت کی مالا جھپکے گا جس کی بدولت آج کا ہیرو بالکل ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی طرح بڑی عید پر بکرا قربان کرنے سے محروم ہو جائے گا اور ریٹائر ہوگئے تو قصہ پارینہ بن جائیں گے جس طرح بابرہ شریف ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہماری تھڑا سیاست کسی نئے شریف پر شروع ہو چکی ہوگی اور پھر آخر میں اس بات پر سب اُٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چل دیں گے کہ صبح اُٹھ کر جوتے کھانے ہیں کہیں دیر نہ ہو جائے۔ بقول شوعر!

” ایسا نہیں کہ تم ہی ہمارے نہیں رہے
ہم لوگ بھی حضور تمہارے نہیں رہے”

Mohammad Irfan Chaudhry

Mohammad Irfan Chaudhry

تحریر : محمد عرفان چودھری