عام ہڑتال اور عام زندگی!

General Strike

General Strike

مرکزی اور صوبائی سطح پر آئے دن حالات و واقعات اور امن و امان کی دگر گوں صورتحال کے باعث ہڑتالوں اور عام ہڑتالوں کا ایک سلسلہ طول پکڑ گیا ہے ۔ ہڑتال ہر جمہوری پارٹیوں کا حق ہے کہ وہ عوامی ایشو پر ہڑتال کریں ، ہڑتال کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو کسی بھی معاملے پر اسے اس کا فرض یاد دلایا جائے یا اسے معاملے پر زیر کیا جائے۔ مگر ہمارے یہاں ہڑتالوں کا سلسلہ آئے دن ہونے لگا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کی معیشت کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ ہڑتال جمہوری روایت کے مطابق ہو تو اچھا ہے مگر یہاں ہڑتال ہوتا ہے تو پُر تشدد بھی ہوتا ہے۔ غریبوں کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

کسی غریب کا ریڑھی تو کسی غریب کا موٹر سائیکل جلا دیا جاتا ہے۔ اوربسا اوقات بسوں رکشوں، کاروں، اور دیگر جُزیات کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے جو سراسر جمہوری روایات کے برخلاف ہے۔ اور آج کل تو ہڑتالوں میں گولیوں کی گھن گرج بھی بہت زیادہ ہونے لگی ہے جس کی وجہ سے عوام عام حالات میں تو پریشان ہوتے ہی ہیں ہرتالوں میں بھی پریشانی ان کا مقدر بنی ہوئی ہے۔

ہڑتال کئی اقسام کے ہیں۔ کچھ ہڑتال لوگ کرتے تو ہیں مگر انہیں ایسی ہڑتالوں سے گریز کرنا چاہیئے جیسا کہ پنجاب میں ڈاکٹرز حضرات کی ہڑتال ہوتی رہی ہے جس سے مریضوں کو شدید پریشانی اٹھانی پڑی ۔ڈاکٹرز مسیحا ہوتے ہیں اور مریض ان کے پاس اپنی شفا یابی کی خواہش لئے آتا ہے ایسے میں انہیں بجائے ادویات فراہم کئے جانے کے ہڑتال کی تان سین میں غرق ہونا پڑتا ہے۔ ڈاکٹرز حضرات کو اس سلسلے میں مثبت پیش رفت کرتے ہوئے کوئی اور اپنے مطالبات کے لئے کوئی اور طریقہ اپنانا چاہیئے تاکہ مریض بھی شفایاب ہوتے رہیں اور ان کے جائز مطالبات بھی پورے ہو جائیں۔

Doctors Strike

Doctors Strike

ویسے تو پنجاب میں ارتیس روزہ ہڑتال ختم کر دی گئی ہے اور ڈاکٹرز اپنے کاموں پر لوٹ آئے ہیں ۔جبکہ عدالتِ عالیہ کا سوال اپنی جگہ مسمم ہے کہ اگر حکومتِ پنجاب اور ڈاکٹرز آپس میں شیر و شکر ہو گئے ہیں تو ان مریضوں کا کیا بنے گا جو اس طویل ہڑتال کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔یہی تو ہمارا لمحہ فکریہ ہے کہ یہاں سب اپنا اپنا اُلو سیدھا کرنے پر لگے ہیں ۔ عوام کی داد رسی کہیں نہیں ہے۔

اکثر و بیشتر قومی ایئر لائن پی آئی اے میں بھی ہڑتالوں کی بازگشت سننے میں آتا ہے ،سی بی اے بھی ان ہڑتالوں میں اپنا حصہ ملاتی ہے یوں کراچی اانے اور جانے والی ڈیڑھ درجن سے زئاد پروازیں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں جن میں ساتھ یا آٹھ کے قریب بین الاقوامی پروازیں اور بقیہ ڈومیسٹک پروازیں شامل ہوتی ہیں

۔ پروازیں منسوخ ہو جاتی ہیں، لوگوں کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر کوئی کسی تفریح ٹرپ پر ہی جا رہا ہو اکثر لوگ کسی ایمرجنسی کام یا فوتگی کے سلسلے میں یا پھر اپنے عزیز و اقارب کے بیماری کی وجہ سے بھی ٹریول کرتے ہیں یوں پی آئی اے کی ہڑتالوں کی وجہ سے بھی عوام کو ہی پریشانی ملتی ہے۔

مطالبات کے حق میں ہڑتال کرنا کوئی بُری بات نہیں ۔ مہذب اور جمہوری ملکوں میں جب معاملات مذاکرات کی میز پر حل نہ ہوتے ہوں تو آواز میں شدت آہی جاتی ہے۔ اس کے بعد مختلف ایسوسی ایشنز اور یونینیں احتجاج کے نِت نئے طریقے ایجاد کرکے اپنا حق منوانا چاہتی ہیں ۔اور کچھ اس میں کامیابی بھی حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ مذاکرات کے چکر میں آ جاتے ہیں پھر بعد میں ان کا مسئلہ حل ہو یا نہیں یہ دونوں فریقوں کا مشترکہ عمل کہلاتا ہے۔

مہذب لوگوں میں اپنے ذاتی مفاد کی بات کرنا سب سے زیادہ مشکل ترین امر ہوتا ہے ۔ اپنا مقدمہ لڑنے کے لئے لازمی امر ہے کہ آپ کو اپنے کسی ساتھی، دوست کی مدد درکار ہوتی ہے لیکن یہاں گنگا ہمیشہ اُلٹی ہی بہتی ہے ۔ ہڑتال کرنے والے ہی اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں جبکہ عوام جوہڑتالوں کی وجہ سے ہمیشہ پستی رہی ہے اسے سوائے خواری کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

کسی بھی ادارے میں مزدور یونینوں کے نعرے پر بھی ہڑتالیں ہو جاتی ہیں اور جب انہیں ہڑتالوں سے اپنے ادارے کے اندر انصاف مہیا نہ ہو پائے تو اس کا دائرہ کاربڑھاتے ہوئے شہر کا رُخ بھی کر لیا جاتا ہے پھر لازمی ہے کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس اپنی کاروائی عمل میں لاتی ہے جس سے ایک بار پھر شہر کی املاک، ٹریفک سنگنلز، سائن بورڈز ان مظاہرین کی زد میں آتی ہیں اور عملاً اس سے عوام کی آمد و رفت پر اثر پڑتا ہے۔ ہرتال کی وجہ سے روڈ بلاک اور ملازمین چھٹیوں پر رہتے ہیں جس سے اداروں میں کام ٹھپ ہو جاتا ہے ، اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات اپنی پڑھائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یوں ہڑتال کسی بھی طرح عوام کے کے سود مند نہیں ہوتا۔

ہڑتال اگر عوام مفاد عامہ میں ہو تو بجا مگر بے جا ہڑتالوں سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیئے۔ روزگار کی فراہمی ہو یا مہنگائی کم کرنے کے لئے اسٹرائیک عوامی مفاد عامہ میں ہے لیکن اس پر کوئی ہڑتال نہیں کرتا ، نہ کوئی یونین، نہ کوئی سیاسی جماعت، نہ کوئی ادارہ اور نہ ہی کوئی انسان دوست ٹرسٹ۔
ہاں روکیئے مہنگائی، کرپشن میں اضافہ
کچھ روزگار لوگوں کو اب دیجئے صاحب
کس واسطے بے چین ہیں مزدور کروڑوں
ہڑتال کی پڑتال ذرا کیجئے صاحب
آج عام انسان رہائش ، کھانا پینا، بچوں کی پرورش، تعلیم اور علاج معالجے کے لئے پریشان دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں ہڑتالیں انہیں مزید پس و پیش میں ڈالتی ہیں ۔ روزآنہ اجرت پر کام کرنے والے افراد ان ہڑتالوں میں زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ انہیں تو روز کمانا اور روز کھانا ہوتا ہے ۔ روزی جب ہی ملے گی جب شہر کے حالات ٹھیک ہونگے، روزآنہ کے معمولات اپنے معمول پر رہیں گے تو ان غریب مزدوروں کو روزگار میسر آئے گا وگرنہ انہیں شام کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے ادھار پر گزارا کرنا پڑتا ہے وہ بھی اگر میسر آجائے ورنہ ان کے گھروں کا چولہا تو یقینا ٹھنڈا ہی رہے گا۔

عام ہڑتال اور اس کے ثمرات پر بحث سے اندازہ ہوا کہ ہڑتالیں عوامی مفاد میں نہیں اس لئے حتی المقدور کوشش یہ کی جانی چاہیئے کہ ہڑتالوں سے گریز کیا جائے ۔ ہاں جہاں ہڑتال کی بے حد ضرورت ہو تو لازمی کریں کیونکہ ہڑتالیں جمہوریت کا حسن کہلاتی ہیں۔ ویسے آج کل ہڑتالیں کئی کئی دن جاری رہتی ہیں۔

Strike

Strike

نئے ٹرینڈ کے زاویے سے دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کئی کئی دن ”دھرنے ” کی صورت میں ہڑتالیں جاری رہتی ہیں اور یوں اب ہڑتال ایک دن پر محیط نہیں رہی بلکہ دھرنوں کی صورت میں کئی کئی دن طویل ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے انسانی زندگی بالکل مفلوج ہو جاتی ہے اور ان تمام واقعات و عمل میں عوام ہی نشانہ پر ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہڑتال ضرور کریں مگر جہاں اس کی ضرورت ہو۔ آج کل اکثر و بیشتر کسی نہ کسی پارٹی کی طرف سے ہڑتال کی کال دے دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہڑتال کی اہمیت بھی عوام میں کمزور پڑ گئی ہے اور عوام ہڑتال کے اعلان کے باوجود اپنے معمولات کی طرف راغب رہتے ہیں۔مطلب یہ کہ کسی چیز کی زیادتی بھی اس کی تاثیر زائل کر دیتی ہے۔

تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی