فلاح انسانیت فاونڈیشن دیس بدیس

Hafiz Saeed FIF

Hafiz Saeed FIF

تحریر : محمد قاسم حمدان
دنیا میں کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں لوگ مصائب وآلام کا شکار نہ ھوتے ہوں کہیں جنگوں کے بھڑکتے شعلے ،کہیں زلزلے اور کہیں سونامی کی بپھرتی موجیں ہزاروں کو بے رحمی سے نگل جاتی ہیں یہ آفات اپنے پیچھے بہت سے رخنے ،گھاو اور زخم چھوڑ جاتی ہیں ،ان زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے درددل رکھنے والے افراد اور ادارے کمر کس کر میدان میں اترتے ھیں ۔فلاح انسانیت فاونڈیش بھی اسی جذبے اور مقصد کے تحت پاکستان اور بیرون دنیا میں انسانی حیات کے دکھوں اور رنج وغم میں اپنی خدمات پیش کر تی ہے فلاح انسانیت فاونڈیشن اور اراکان کے مظلوم مسلمان ١٩٧٦ میں ناگا اپریشن کے نام پرحکومت نے بھکشووں کی ایک فورس بنائی جس نے ٩٠ ہزار سے زاہد مسلمانوں کو شہید کر دیا ،تین لاکھ کو ہجرت پر مجبور کر دیا یہی داستان خونچکاں جنوری ٢٠١١ میں نیو نازی تحریک نامی عسکری جماعت بنا کر دہرائی گئی۔

اس نے ٣ جون ٢٠١٢ کو مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا جس کے نتیجے میں ایک لاکھ ستر ہزار مسلمان ذبح کر دیے گئے ۔مسلمان آبادیاں ہو کا منظر پیش کر رہی تھیں گدھ ان کی لاشوں کو نوچ رہے تھے ۔ ١٩٩١ء سے لے کر اب تک ٥٠ ہزار مسلم خواتین کی وعصمت دری کی گئی ،ہزاروں مساجد ومدارس کو بت خانوں میں بدل دیا گیا۔قیامت صغری کی ان گھڑیوں میں ایف ائی ایف نے اراکانی مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھا ،بنگلہ دیش میں ان کے لئے پناہ گزیں کیمپ قائم کر کے ان کو خوراک وادویات فراہم کیں۔ برما کے اندر کے حالات کو دیکھ کر ان کے لئے اراکان میں گھر بھی بنائے جن پر مظالم کی نئی لہر کے دوران بدھسٹوں نے قبضہ جما لیا ۔اراکان کے مسلمانوں کی حالت زار پر کبھی دنیا نے توجہ ہی نہ دی۔ عالمی اداروں کی بے حسی، مجرمانہ غفلت کے سبب برما کے حکمران ان کی نسل کشی کی پالیسی پرآج بھی عمل پیرا ہیں۔

٢٠١٥ء میں جب ہزاروں اراکانی مسلمان اپنی جانیں بچانے کے لئے انسانی جانوں کی تجارت کرنے والے سمگلروں کے رحم وکرم پر تھے تو انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح ایسے جہازوں میں ٹھوس دیا گیا جن میں انجن تھا نہ ایندھن اور نہ پتوار ۔یہ کشتیاں اور جہاز گنجائش سے کئی گنا زیادہ لوگوں کو بھر کر جب انجانی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو ہزاروں مظلوم بھوک اور پیاس سے تڑپ کر موت کو گلے لگا گئے ۔آج بھی ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں ان کی اجتماعی قبریں ان کی مظلومیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ان کی حالت زار دیکھ کر اقوام عالم پکار اٹھی کہ اراکانی دنیا کی مظلوم ترین اقلیت ھیں ۔انڈونیشیا نے ان پناہ گزینوں کو پناہ دی اور آچے صوبہ کی حکومت نے یہ کہ کر ان کے لئے اپنے دروازے کھول دئے کہ جتنے بھی اراکانی یہاں آئیں گے ہم اخوت مسلم کے تحت انہیں پناہ دیں گے۔انڈونیشیا کی ایک این جی او ایکٹ نے جو کئی ایک ممالک میں سرگرم ہے ان کی مدد کی۔

Free Medical Camp

Free Medical Camp

فلاح انسانیت فاونڈیشن کے کام کو دیکھ کر ایکٹ اور ایف ائی ایف کے درمیان کوارڈینیشن ہوئی ہے۔ ان دونوں این جی اوز کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے کہ دونوں ساوتھ ایشیا میں ملکر کام کریں گے۔اس معاہدہ کے بعد پاکستان سے ایف ائی ایف کا پہلا وفد ٢٠١٥ء کے رمضان سے آٹھ دن پہلے اچے میں پناہ گزین ہزاروں اراکانیوں کے لئے سامان خوردونوش ،ادویات، پارچہ جات، کمبل اور بستر لے کر پہنچا ۔ اس کے علاوہ کتب ،ایک ہزار قران مجید اور جائے نماز بھی تقسیم کئے گئے ۔پہلے مرحلے میں مہاجرین کے لئے ایک بڑی مسجد اور ستر شیلٹر ھوم بنائے گئے اور ٣٦٠٠ افراد کے لئے روزانہ سحری وافطاری کا انتظام کیا گیا ۔ایف ائی ایف نے بہت جلد چند دنوں میں آٹھ ایکڑ پر پناہ گزینوں کی بستی تیار کی۔ اس بستی کو مزید وسعت دینے کے لئے گیارہ ایکڑ زمین اور خریدی گئی ۔اس پر تین سو شیلٹر ہوم ٢٠١٥ کے آخر تک مکمل کر لئے گئے ہیں یہاں تین مسجدیں بھی بنائی گئی ہیں جن میں چھ سو افراد بیک وقت نماز پڑھ سکتے ھیں۔

پناہ گزینوں میں بہت سی لڑکیاں ایسی بھی ہیں جن کا کوئی عزیز،رشتہ دار ساتھ نہیں۔ ماں باپ نے انہیں بدھوں کے قہرو غضب سے بچانے کے لئے بھیج دیا یا ان کے تمام عزیز کشتیوں میں بھوک سے لقمہ اجل بن گئے تو ایف ائی ایف نے ان سب کے نکاح کا اہتمام کیا ۔گذشتہ رمضان میںانیس جوڑوں کی شادی کرائی گئی ان کے لئے علیحدہ سے تیس شیلٹر ہوم بنائے گئے ھیں اور ہر جوڑے کو تین سو ڈالر ماہانہ خرچ دیا جاتا ھے ۔لوگوں نے سمندر کا غلیظ ،گندہ اور نمکین پانی پی کر اپنی جانیں بچائی تھی اس وجہ سے ان سے عجیب بدبو آتی تھی۔ ایف آئی ایف نے ان کے علاج معالجہ کے لئے میڈیکل کیمپ لگائے اور جن مریضوں کا علاج کیمپ میں ممکن نہ تھا ان کا انڈونیشیا کے اچھے ہسپتالوں سے علاج کرایا گیا۔

ایف آئی ایف کے قائم کردہ کیمپوں میں ہر شخص کی دکھ درد سے بھری اپنی ہی المناک بپتا ہے لنکساہ کے کیمپ میں موجود سراج الدین نے ایف ائی ایف کے رضاکاروں کو بتایاکہ میرے گاوں میں ایک دن میں ٢٨٠ افراد کو شہید کر دیا گیا میری والدہ جو میرے ساتھ کشتی میں آئی تھی بھوک کی وجہ سے کشتی میں تڑپ تڑپ کر ایڑیاں رگڑتے ہوے بے بسی کی موت مر گئی ۔میرے پاس آنسوؤں سے غسل دینے کے سوا کچھ نہتھا ۔اسی طرح یہاں ایک امت کی بیٹی امینہ بھی ہے جو ٢٢ دن تک ارمی کیمپ میں محبوس رہی ۔اس سے بلا مبالغہ روزانہ کئی وحشی در ندے بدترین ریپ کرتے رہے اس درندگی کی وجہ سے اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا ہے ۔کئی مہینے ہو گئے وہ اپنا قدم زمین پر نہیں رکھ سکتی ۔یہ تو صرف سراج احمد اور امینہ کی روداد الم ہے ایسی بہت سی کہانیاں ھیں جن کے لئے پوری کتاب درکار ہے۔

FIF Give Relief

FIF Give Relief

ایف ائی ایف نے رمضان کے بعد عید کے دن ان کے غمزدہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے لئے خصوصی پیکج تیار کیا ۔انہیں نئے لباس دئیے ،بچوں کے لئے نئے جوتے ،گھڑیاں ،کھلونے ، مٹھائیاں اور گفٹ پیک بھی دئیے تاکہ یہ اپنے غم بھول جائیں لیکں جب یہ عید گاہ میں ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے تو اپنے پیاروں کو یاد کر کے دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ تین سال کا حسن جس نے ایف ائی ایف کی طرف سے گفٹ کئے گئے نئے کپڑے ،جوتے اور گھڑی پہن رکھی تھی وہ اب ایف ائی ایف کے کیمپ میں محفوظ تھا لیکن اسے اپنے باپ کی یاد ستا رہی تھی جو اراکان میں نہ جانے کس حال میں تھا ۔سترہ سالہ عبدالمنعم سے ایف ائی ایف کے ایک رضاکار نے پوچھا کہ آج تو تم خوش ہو ہم نے تمہاری نوکری کا بندوبست کر دیا ہے وہ فضا میں گھور کر پرنم انکھوں سے کہنے لگا کہ میری تین بہنیں جو پیچھے رہ گئی ھیں نہ جانے کس حال میں ہوں گی۔

ایف آئی ایف نے نارتھ اچے کے لنگساہ اور لوک سماوا میں بنائے کیمپوں میں اٹھ سو بچوں کو رجسٹرڈ کیا ہے ان میں سے ٣٨٧ بچے یتیم ہیں ،ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سکول قائم کئے گئے ہیں ۔روہنگیا مسلمانوں کو جیسے جیسے پتہ چل رہا ہے کہ اچے میں پناہ مل رہی ہے وہ بڑی تعداد میں اچے کا رخ کر رہے ہیںان کی آباد کاری کے لئے ایف ائی ایف مزید تین سو شیلٹر ہوم تیار کر رہی ہے جس میں چھ مساجد ہوں گی ۔ ایف آئی ایف ان لوگوں کو بھکاری نہیں بنانا چاہتی ۔اس کالائحہ عمل یہ ہے کہ ان کو روز گار دیا جائے پام آئل اور فروٹ فیکٹریوں میں ان کیلئے کام کا بندوبست کیا گیا ہے ،عورتوں کے لئے دستکاری اور گھریلوصنعت کے حوالے سے پروگرام ترتیب دئے گئے ہیں۔

FIFغزہ میں: فلسطین کے مسلمان جن کے اسرائیل نے ہر طرف سے راستے بند کر رکھے ہیں او رغزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل کا منظر پیش کر رہاہے’ غزہ کے مسلمان اس وقت ابتر حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ الحمد للہ FIF کے رضاکار اپنے ان مسلمان بھائیوں کی خدمت میں بھی پیش پیش ہیں۔ FIF نے حسب روایت مظلوم بھائیوں میں اس دفعہ بڑے پیمانے پر ونٹر پیکج تقسیم کیاہے۔ FIF نے غزہ میں ”ہم تمہارے ساتھ ہیں ” کے تحت لاکھوں روپے مالیت کا سامان تقسیم کیا۔ ونٹر پیکج میں کمبل ‘ گرم ملبوسات اور الیکٹرک ہیٹر شامل ہیں۔ پیکج تیرہ سو بچوں سمیت تین سو سے زائد گھرانوں میں تقسیم کیا گیا۔ ونٹر پیکج کی تقسیم پر اہل غزہ کی خوشی دیدنی تھی۔ بوڑھی مائیں’ یتیم بچے سب FIF کو اور پاکستان کی عوام کو دعائیں دے رہے تھے۔ ونٹر پیکج سے 90 بیوہ خواتین بھی مستفید ہوئیں جن کے شوہر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں شہید ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ ونٹر پیکج کا سامان چار یتیم خانوں میں پرورش پانے والے سینکڑوں بچوں میں بھی تقسیم کیاگیا۔

FIF Give Relief to Syrian Children

FIF Give Relief to Syrian Children

FIFشام میں: فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے کارکنان اس وقت شام میں موجود فلاحی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ابھی تازہ صورتحال کے مطابق فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ٹیم جنگ سے تباہ حال شام کے اس علاقے میں پہنچی جہاں امدادی و فلاحی تنظیموں کاداخلہ ناممکن تھا’اس شہرکے مسلمان محصورین سی زندگی گزار رہے ہیں ۔اس شہر کانام مضایاہے۔ مضایا 40 ہزارسے زائد آبادی کاشہرہے۔ مضایاگزشتہ کئی ماہ سے جنگجوؤں کے ایک گروہ کے محاصرے میں تھا۔وہ اس شہر کوفتح کرنے کے لیے ہرروز ٹنوں بارود کی بارش یہاں برساتے۔ موت ہر طرف رقص کناں تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء ‘ادویات اور دیگر ضروریات زندگی بالکل ناپیدہوچکی تھیں۔ نوبت یہاں تک آچکی تھی کہ یہاں محصور لوگ کتے اور بلیاں کھانے پر مجبور ہوچکے تھے۔ ظالم بھوک نے چندمہینوں میں بلاشبہ ہزاروں انسانوں کونگل لیا۔

اگران کے لیے امداد کے دروازے چنددن مزید نہ کھولے جاتے توپھر وہی المناک منظر ہوتا جو کبھی فلسطینی مسلمانوں کے صابرہ اورشتیلاکیمپ میں ہوا تھا۔ لوگ اپنے ہی پیاروں’اپنے ہی جگرگوشوں’اپنے ہی ماں باپ کی شہادت کے بعد ان کی لاشوں پراپنی حیات کی رسی کو دراز کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ الحمدللہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ٹیمیں بھی اولین قافلوں کے ہمراہ مضایا پہنچیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ساتھ جو دیگر عالمی امدادی ادارے تعاون کر رہے ہیں’ان میں اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام’ آئی سی آر سی (ICRC)ترکی کی این جی او IHH اور سعودی عرب کی این جی اوز شامل ہیں۔

فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی طرف سے مضایا میں ہزاروں افراد کے لیے کھانے کااہتمام کیاجارہا ہے۔ بھوک و افلاس کے سبب لوگ ضعف و ناتوانی کے ساتھ کئی ایک بیماریوں کا شکار ہوگئے۔ ایسے موقع پر ان کے لیے لاکھوں روپے مالیت کی ادویات مہیا کی گئیں جن میں زیادہ ترانرجینٹک ادویات شامل ہیں۔مضایا کے بعدگزشتہ ماہ شام میں جنگ کے ہاتھوں تباہ حال بے کس انسانوں میں40لاکھ کاونٹرپیکیج تقسیم کیا گیا۔پیکیج میں بچوں کے لیے جرسیاں’ جیکٹیں’ کمبل اور دیگر اشیاء شامل تھیں۔ ونٹرپیکیجحلب’ادلب’اعزاز’باب ہوا’ باب شام ‘میرظااور دیگرعلاقوں کے 1200 خاندانوں میں تقسیم ہوا جس سے مجموعی طورپر دس ہزار سے زائد لوگ مستفید ہوئے۔

FIF Give Relief to Syria

FIF Give Relief to Syria

فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی امدادی ٹیم نے دور دراز علاقوں میں قائم مہاجرین کی خیمہ بستیوں میں جاکر خود امدادی سامان تقسیم کیا۔ اس وقت شام کے جنگ متاثرہ علاقوں میں شدید سردی ہے۔ برف باری نے مہاجرین کی مشکلات میں مزیداضافہ کردیاہے۔ لاکھوں لوگ گزشتہ کئی سال سے اپنے گھروں کو چھوڑکر خیموں میں رہ رہے ہیں۔ جہاں بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء تودرکنار’ مہاجرین کو دو وقت کاکھانابھی میسر نہیں۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن گزشتہ چار سال سے شام کے مہاجرین کی خدمت میں مصروف عمل ہے۔ عیدین کے مواقع پرخصوصی کھانوں ‘ملبوسات اور قربانی کا گوشت تقسیم کیاجاتاہے۔ رمضان المبارک میں بھی سینکڑوں خاندانوں کے لیے سحرو افطار کااہتمام کیاگیا ‘اسی طرح حالیہ کھیپ ونٹرپیکیج کی مد میں تقسیم کی جارہی ہے۔

فلاح انسانیت فاؤنڈیشن شام کے سینکڑوں یتیم بچوں کی کفالت بھی کر رہی ہے۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی جانب سے شامی مہاجرین کے 350خاندانوں میں گزشتہ ہفتے سردی سے بچاؤ اور دیگر ضروریات کے لیے لاکھوں روپے مالیت کی لکڑیاں تقسیم کی گئیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے حلب’ادلب’اعزاز اور دیگر علاقوں میں خیموں میں مقیم سینکڑوں مہاجرین میں”ونٹرپیکیج” کے تحت لکڑیاں تقسیم کیں۔لکڑیوں کی تقسیم پرمتاثرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

FIF

FIF

مضایامیں لوگوں کے پاس صرف آنسو بہانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔آنکھیں بھی خوف والم کی وجہ سے خشک صحرا کی طرح خشک ہوچکی تھیں۔ اللہ ذوالجلال کو اپنے بندوں پررحم آیااور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ان کے لیے ابر رحمت بن کرآئی۔FIF ان کی زیست کی امید بن گئی۔

تحریر : محمد قاسم حمدان