جرمنی میں شامی پناہ گزین کا بم حملہ، 12 افراد زخمی

Germany Police

Germany Police

جرمنی (جیوڈیسک) جرمنی کے شہر آنسباخ میں موسیقی کے تہوار کے دوران ایک شامی پناہ گزین کے بم حملے میں 12 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ شامی پناہ گزین بم دھماکے کے نتیجے میں خود بھی مارا گیا ہے۔

بویریا ریاست کی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ شامی شہری کی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی تھی اور اس نے موسیقی کے فیسٹیول میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر اپنے پاس موجود دھماکہ خیز مواد کو دھماکے سے اڑا دیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ دھماکے میں شامی پناہ گزین مارا گیا جبکہ دیگر 12 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق دھماکے کے بعد فیسٹیول میں موجود ساڑھے دو ہزار افراد کو جائے وقوعہ سے نکالا گیا۔

بویریاکے وزیر داخلہ کے مطابق دھماکہ موسیقی کے فیسٹیول کے داخلی دروازے پر ہوا۔ وزارتِ داخلہ کے مطابق مشینہ حملہ آور تقریباً دو برس پہلے جرمنی آیا تھا اور ایک برس پہلے اس کی پناہ کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا تاہم اسے اپنے آبائی ملک کے حالات بہتر ہونے تک جرمنی میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی اور ایک فلیٹ مہیا کیا گیا تھا۔

وزیر داخلہ نے دھماکے کی مذمت اور اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ان پر کنٹرول کو مزید سخت کرنا ہو گا جو ہمارے ملک میں رہ رہے ہیں۔

بویریا ریاست میں ایک ہفتے کے دوران یہ تیسرا حملہ ہے جس میں جمعے کو میونخ میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جبکہ اس سے پہلے ویورسبرگ شہر میں ایک ٹرین میں چاقو سے مسلح نوجوان کے حملے میں چار افراد زخمی ہو گئے تھے جبکہ حملہ آور پولیس کی فائرنگ میں مارا گیا۔

بویریا ریاست میں ایک ہفتے کے دوران یہ تیسرا حملہ ہے 17 سالہ نوجوان نے جنوبی جرمنی کی ریاست بویریا کے شہر ویورسبرگ میں ایک ٹرین میں یہ حملہ پیر کی شام کو کیا۔ حملے میں ہانگ کانگ کے چار افراد زخمی ہو گئے ہیں جن میں سے تین افراد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

دوسری جانب میونخ میں پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اولمپیا شاپنگ مال میں فائرنگ کر کے نو لوگوں کو ہلاک کرنے والے ڈیوڈ سانبولے کے 16 سالہ افغانی دوست کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس نوجوان سے حملہ آور کے منصوبے کے بارے میں نہ بتانے اور حملے میں ملوث ہونے کے حوالے سے تفتیش کر رہے ہیں۔

میونخ پولیس کے فیس بک صفحے پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس 16 سالہ نوجوان کے بارے میں شبہہ ہے کہ یہ ممکنہ طور پر حملے میں شریک ہو سکتا ہے۔‘