گلگت بلتستان کا انتخابی معرکہ

Gilgit Baltistan Election

Gilgit Baltistan Election

تحریر: ارشاد محمود
8جون کو گلگت بلتستان میں الیکشن کا معرکہ برپا ہوگا۔ الیکشن مہم اپنے عروج پر ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ماہ گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور متعدد ترقیاتی پیکیجز کا اعلان کیا۔ دونئے ضلعوں کے قیام کے اعلان کے علاوہ انہوں نے نوجوانوں میں لیپ ٹاپ بھی تقسیم کیے۔ عمران خان بھی خطے کا دورہ کرچکے ہیں پیپلزپارٹی کے کئی ایک لیڈر خورشید شاہ کی قیادت میں گلگت بلتستان میں الیکشن مہم چلاتے رہے۔ 2009 میں قائم ہونے والی 33 رکنی گلگت بلتستان اسمبلی کا یہ دوسرا الیکشن ہے۔گزشتہ الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی نے بڑی آسانی سے میدان مارلیا تھااور سکردو سے تعلق رکھنے والے پارٹی کارکن مہدی شاہ کو وزیراعلیٰ مقرر کیا۔ پانچ برس تک وہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔بعدازاں حکومت اور حزب اختلاف نے آزاد اور شفاف الیکشن کرانے کی غرض سے اتفاق رائے سے نگران حکومت قائم کی۔

اگلے ہفتے چھ لاکھ سے زیادہ ووٹر اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ تین سو کے لگ بھگ امیدواراور سولہا سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں لیکن کانٹے دار مقابلہ نون لیگ ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے مابین ہوتا نظرآتاہے۔نون لیگ وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو تمام نشستوں پر مقابلہ کررہی ہے۔پی پی پی 22 ، پی ٹی آئی20 ، مجلس وحدت المسلمین 16اور جمعیت علماء اسلام( ف)صرف10نشستوں پر حصے لے رہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے کالعدم تنظیموں کے 56کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی۔

اس خطے میں انتخابی سیاست کی بنیاد پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی۔انہوں نے ایف سی آر جیسے کالے قانون کا خاتمہ کیااور انتظامی اصلاحات کیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے بھی ان علاقوں کے عوام کو بااختیار بنانے میں نمایاں کردار اداکیا۔اس پس منظر کے ساتھ بڑی آسانی سے پی پی پی گزشتہ الیکشن جیت گئی لیکن اب صورت حال بہت مختلف ہے۔ 2013 کے عام الیکشن میں پی پی پی کو ملک گیر سطح پر زبردست دھچکا لگا۔خود گلگت بلتستان میں پی پی پی حکومت کی بری کارکردگی اور پارٹی کے داخلی جھگڑوں نے اسے بری طرح کمزور کیا ۔ مہدی شاہ نے وزارت اعلیٰ پانچ برسوں میں اپنا زیادہ تر وقت اسلام آباد میں گزارااور اپنے اور پارٹی کے امیج کو بری طرح تباہ کیا۔

PPP

PPP

چند ماہ پہلے انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے گلگت بلتستان کا دورہ کرنے کے بعد پی پی پی سرکار کی کارکردگی پر پر ہوش ربا تبصرہ کیا ۔رپورٹ کے مطابق مہدی شاہ کی حکومت نے ہزاروں ملازمتیں فروخت کیں۔استاد کی ایک آسامی کی قیمت تین لاکھ روپے مقرر تھی۔ زرداری ہائوس اسلام آباد میں تشریف فرما پارٹی کے” کرم فرمائوں” کو بھی ہر ملازمت اور ٹھیکے میں سے بڑا حصہ دیا جاتاتھا۔ اکثر اوقات زرداری ہائوس براہ راست وزراء کو احکامات جاری کرتا اور مہدی شاہ کو نظر انداز کردیا جاتا لیکن وہ بھیگی بلی بننے رہتے۔ گلگت بلتستان کے اہم فیصلے مقامی
جماعتی لیڈرشپ اور حکومت کی مشاورت کے بنا ہی کردیے جاتے۔

گلگت بلتستان کے شہری اس وجہ سے بھی آرزودہ ہیں کہ پی پی پی نے انہیں بااختیار بنانے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ادھورا کام کیا۔ پی پی پی نے الیکشن کرادیئے ۔ریفارمز بھی لائیںلیکن ان میں بہت سارے نقائص چھوڑدیئے۔سارے نظام بنیاد ایک صدراتی آڈر پر استوار ہے ۔ پی پی پی چاہتی تو پارلیمنٹ سے قانون منظور کراکرگلگت بلتستان کو قانونی چھتری فراہم کرسکتی تھی ۔قانون ساز اسمبلی تو قائم کردی گئی لیکن اسے اس آڈر میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں جو جمہوریت کی روح کے برعکس ہے۔اس پر ایک گلگت بلتستان کونسل بھی قائم کردی جس کی سربراہی براہ راست وزیراعظم کرتے ہیں جنہیں دیگر کاموں سے فراغت ہی نہیں۔یہ کونسل بھی ایک سفید ہاتھی ہے۔سارے وسائل اور اختیارات کا مالک۔

ستم بالا ئے ستم وزارت امور کشمیر اور گلگت بلتستان کو آڈر میں ترمیم کا اختیار دے دیاگیا۔ پی پی پی پانچ برس تک برسر اقتدار رہی لیکن اس نے نظام حکومت میں بہتری یا اصلاحات کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔نہ ہی شہریوں اور عوامی نمائندوں کو بااختیار بنانے کی زحمت کی۔پی پی پی کے اس طرزحکمرانی نے اس کے خلاف فضا بنائی اور اسے سیاسی تنہائی کا شکار کیا۔اب عالم یہ ہے کہ پی پی پی نون لیگ کے اشتراک سے الیکشن لڑنے کی کوشش کرتی رہی۔

Chaudhry Barjees

Chaudhry Barjees

روایت رہی ہے کہ جو بھی جماعت اسلام آباد میں حکمران ہوتی ہے وہ آسانی سے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں اپنی پارٹی کی حکومت بنوانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ نون لیگ کی وفاقی حکومت بھی اسی راستہ پر گامزن ہے۔ انہوں نے وفاقی وزیرامور کشمیر اور گلگت بلتستان چودھری برجیس طاہر کو گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کردیا۔بطور وزیرامور کشمیر وگلگت بلتستان وہ پہلے ہی بے پناہ اختیارات کے مالک ہیںبلکہ انہیں اس خطے کا بے تاج بادشاہ کہاجاتاہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی نے برجیس طاہر کو گورنر مقرر کرنے کی مخالفت کی لیکن اسلام آباد کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

اگر چہ گلگت بلتستان میں نون لیگ عرصے سے ایک بڑی سیاسی قوت ہے لیکن پہلی بار اس کی حکومت بننے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔پارٹی کے صدر حفیظ الرحمان ایک متحرک اور شعلہ بیان مقرر ہی نہیں بلکہ سیاسی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے سیاستدان ہیں۔پرویز مشرف کے عہد آمریت میں جب سیاسی کارکن او رلیڈر تھوک کے حساب سے صبح وشام قاف لیگ میں شامل ہورہے تھے’ وہ نہ صرف پارٹی کے ساتھ ڈٹے رہے بلکہ تمام ترمصائب کا بھی بہادری سے مقابلہ کیا۔ گلگت بلتستان جہاں سیاست بھی فرقہ واریت کا شکار رہتی ہے۔وہاںحفیظ الرحمان ایک اعتدال پسند اور صلح جو سیاستدان کے طور پر ابھرے’ جو لوگوں کو اکھٹا کرتے ہیں نہ کہ تقسیم۔انہیں ناکام کرنے کے لیے قرقہ پرست جماعتیں اور سیاسی مخالفین کے مابین زبردست ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

گزشتہ دوبرس سے انہوں نے وفاقی حکومت کے تعاون سے خطے میں کئی ایک ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عطا آباد جیل کے متاثرین کی پنجاب حکومت نے کافی مدد کی۔ وفاقی اور پنجاب حکومت نے بھی گلگت بلتستان کے طلبہ کے لیے وفاق اور صوبے کے تعلیمی اداروں میں داخلوں کے کوٹے میں نمایاں اضافہ کیا۔اس طرح نون لیگ کے لیے عام شہریوں میں نمایاں نرم گوشہ پیداہوا۔ چنانچہ 2013میں گانچے اور سکردو میں دو ضمنی الیکشن ہوئے ‘دونوں میں نون لیگ کامیاب ہوگئی۔یہ ہی نہیں’ اب تو کئی ایک electables بھی پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں تاکہ متوقع حکمران جماعت کا حصہ بن جائیں۔

پاکستان تحریک انصاف بھی دھو م دھام سے الیکشن لڑرہی ہے لیکن خطے میں یہ ایک نئی جماعت ہے’جس کی جڑیں عوام میں گہری نہیں۔فروری میں اس کی باضابط تاسیس ہوئی۔نوجوانوں کی ایک معقول تعدا د بھی اس کی پشت پر کھڑی ہے لیکن یہ پارٹی روایتی سیاست کے دوائو پیچ سے آشنا نہیں لہٰذاشنیدہے کہ ایک آدھ سے زیادہ نشست کے حصول میں کامیاب نہ ہوسکے گی تاہم الیکشن کے پورے عمل کو داغدار بنانے کی اہلیت ضرور رکھتی ہے۔ وفاقی حکومت نے ذرا بھی ہیرا پھیری کی کوشش کی تو پی ٹی آئی آسمان سر پر اٹھالے گی۔کے پی کے کا بدلا بھی چکانا ہے اسے ۔الیکشن میں انتخابات سے پہلے دھاندلی کے الزمات خاص کر گورنر برجیس طاہر کی سرگرمیوں پر سخت اعتراض کیا جارہاہے۔

ANP And JUI-F

ANP And JUI-F

پی پی پی اور جمعیت علماء اسلام بھی برجیس طاہر کے کردار پر سخت معترض ہیں۔ ابھی تک مقامی انتظامیہ غیر جانبدار ہے لیکن وہ وفاقی حکومت کی حکم عدولی کا تصور بھی نہیں کرسکتی ہے۔ نون لیگ کے بارے میں آسانی سے یہ پیشگوئی کی جاسکتی ہے کہ وہ الیکشن میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی اور آزاد امیدوار وں کو ساتھ ملا کر حکومت بنالے گی۔اس پس منظر میں اسلا م آباد کو خطے میں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ الیکشن آزادانہ اور شفاف ہوں اور کوئی اعتراض نہ کرسکے۔

تحریر: ارشاد محمود