گاڈ فادر

Godfather

Godfather

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
وہ آج چوتھی بار مجھے خریدنے آیا تھا وہ ہر بار دنیا کی مہنگی ترین گاڑی میں آتا ‘ہر بار مختلف گاڑی میں آتا ‘اسطرح وہ مجھے مرعوب کرنے کی لگاتار کوششوں میں لگا ہوا تھا ‘بات گاڑی تک محدود رہتی تو ٹھیک تھا قابل نفرت بات یہ تھی کہ وہ ہر بار نئی خوبصورت عورت کے ساتھ آتا ‘آج چ تھی گاڑی اور چوتھی عورت تھی بقول اُس کے میں نے چار شادیاں کر رکھی ہیں ‘ہمارا مذہب چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک وقت میں چار نوجوان عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھتا ہے جس عورت کی جوانی کا رنگ پھیکا پڑتا اُسکو چھوڑ کر اُس کی جگہ نوخیز لڑکی کو بیوی کے طور پر اپنی زندگی میں شامل کر لیتا ہے ‘انتہائی چالاک اور ذہین آدمی ‘انسانی نفسیات سے خوب کھیلنا جانتا تھا ہفتہ پہلے یہ پر تعیش جہازی گاڑی میں میرے پاس آیا آتے ہی گاڑی سے اُترا میرے پاس آکر ٹھنڈے جوس کی بوتل میرے ہاتھ میں پکڑائی اور ٹشو پیپر سے میرے جوتے صاف کرنے کی کوشش کی جو میں نے سختی سے منع کر دیا۔

میری برہمی سے اُس نے تیزی سے اپنا مو ڈ تبدیل کیا اب وہ انتہائی تا بعدار ہو کر سر جھکا کر کھڑا ہو گیا اُ س کی واضح ڈرامہ با زی سے میں اُس کو پہچان چکا تھا میں نے کہا آپ آرام سے اپنی گا ڑی میں بیٹھ جا ئیں میں فری ہو کر میں آپ سے ملتا ہوں میں نے جان بوجھ کر اُس کو طویل انتظار کرایا وہ وقفے وقفے سے مجھے کبھی ٹشو پیپر کبھی ٹھنڈا پانی کبھی جوس دینے کی کو شش کر تا رہااور میں اُسے نظر انداز کر تا رہا لیکن کیونکہ اُسے مجھ سے کام تھا اِس لیے کما ل ضبط کا مظاہرہ خو ش دلی سے کر رہا تھا۔

آخر میں اُس کی گا ڑی میں جا کر بیٹھ گیا تو اُس نے خوشامدی لہجے میں کیا جناب آپ نے مجھے بہت انتظار کر وایا ہے مجھے اپنے غلا موں میں شامل کر یں میں آپ کی ہر قسم کی خدمت کروں گا اب اُس نے اپنی امارت اورتعلقات کے قصے سنانے شروع کر دئیے دنیا جہاں میں جہاں جہاں وہ گیا تھا اُن ملکوں میں جو کا روبار کئے اُن کے قصے سنانے شروع کر دئیے وہ مسلسل اپنی ویلیو بنا رہا تھا باربار بے تکلف ہو نے کی کو شش بھی کر رہا تھا پچھلی سیٹ پر بیٹھی نوجوان اورخوبصورت عورت بھی اپنی ادائوں کے سنہری با ل بار بار میری طرف پھینک رہی تھی میں خاموشی سے اُس کی با تیں سنتا رہا اس دوران میں لوگوں کے آئے ہو ئے میسج پڑھتا اور اُن کے جوا ب بھی دیتا رہا جب وہ خوب بو ل چکا تو میں اُس کی طرف متو جہ ہو ا جناب آپ بہت با اثر انسان ہیں تو مجھ فقیر کے پاس کس لیے آئے ہیں میرے اِس فقرے کے لیے وہ تیا رنہیں تھا وہ سمجھ رہا تھا کہ میں اُس کی گفتگو اور تعلقات سے متا ثر ہو چکا ہوں لیکن میرے لہجے اور چہرے کے تاثرات اُس کی خو ش فہمی کی نفی کر رہے تھے۔

اب اُس نے میرے پاس آنے کی وجہ بتائی تو میں نے کہا آپ کے اتنے تعلقات ہیں آپ کسی سے کہلوا دیں تو وہ بو لا میں پوری کو شش کر چکا ہوں اُس بندے کو نیکی اور مذہب کا دورہ پڑا ہوا ہے وہ میرٹ کی بات کر تا ہے وہ دنیا میں صرف آپ کی با ت مانتا ہے اب آپ اُسے سفارش کر یں۔ جس بندے کا اُس نے نام لیا وہ واقعی نیک آدمی تھا میں نے کہا میں اُس سے بات کروں گا ۔ وہ خوشامد کر تا ہوا چلا گیا میں نے اُس نیک بندے سے پو چھا تو اُس نے کہا یہ مجھے کئی مہینوں سے تنگ کر رہا ہے ‘رشوت کی آفر اورسفارش بھی کروا چکا ہے ‘ میں نے اُسے کہا کہ آپ میرٹ پر کا م کرو کیونکہ روز محشر بھی بر پا ہو نا ہے ‘وہ بند ہ اگلے دن پھر میرے سر پر سوار تھا میں نے ٹا ل دیا تو یہ چند دن کے انتظار کے بعد آج پھر چوتھی دفعہ میرے پاس آیا ہوا تھا پچھلے چند دنوں کے دوران اس نے ایک اور انو کھا کام کیا میرے بہت سارے جاننے والے اس نے پتہ نہیں کیسے ڈھونڈلیے وہ تمام مجھے بار بار اِس کی سفارش کے فون کر تے’ بڑی رقم کی آفر بھی اِس نے کر دی تھی’میں دو دن پہلے اس کے سفارشی سے اِس کا ڈیٹا لے چکا تھا وہ میرا جاننے والا تھا اور اِس کا بھی پرا نا دوست تھا میرے پو چھنے پر اُس نے اِس چالاک آدمی کے با رے میں بتا یا کہ یہ بہت امیر چالاک ذہین اور تعلقات رکھنے والا بند ہ ہے اِس کا طریقہ واردات یہ ہے کہ نئے بھرتی ہو نے والے افسران کے ساتھ یا ری لگا لیتا ہے بلکہ ذہین طالبعلموں کے اخراجات تک برداشت کرتا ہے پھر اِن کومختلف محکموں میں بھرتی کراتا ہے سرکاری افسران کے گھروں کے بل اخراجات پو رے کرتا ہے افسران کے گھروں میں کھانے پینے کی اشیا ء ہر ماہ بھجواتا ہے اُن کی اچھی جگہ پو سٹیں کرواتا ہے۔

America

America

با اثر لوگوں کو عورتیں سپلائی کر تا ہے شاپنگ کراتا ہے ہر انسان کی کمزوری اور ضرورت سے کھیلتا ہے جو افسران اِس کے خر چے پر پل رہے ہیں وہ اِس کے اشاروں پر کام کر تے ہیں بد معاشوں سے بھی تعلقات ہیں اگر کوئی بات نہ مانے تو بدمعاشوں کو بھی دھمکی کے طور پر استعمال کر تا ہے اِس کے تعارف کے بعد مجھے گاڈ فادر یاد آگیا جو جرائم کی دنیا کا پراسرار ارو چالاک کردار تھا جس پر فلمیں بھی بن چکی ہیں گاڈ فادر نے اپنے شیطانی ذہن کے بل بو تے پر کامیابیاں حاصل کیں ‘جرائم کو سائنسی بنیا دوں پر شروع کیا اُسی نے انڈر ورلڈ جیسی اصطلاحیں ایجا دکیں ‘مجرموں کو با قاعدہ جرائم کی تربیت دی جا تی مجرموں کا بین الاقوامی نیٹ ورک بنا یا اُس کا نیٹ ورک دنیا کے کو نے کو نے میں پھیلا ہوا تھا وہ چند لمحوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچ جاتا تھا جعلی دستاویزات اسلحہ با رود اور منشیات کی تیاری کے لیے با قاعدہ لیبارٹریاں بنائیں دنیا کے سفاک ترین قاتلوں کو اکٹھا کیا اِن کے چار عالمی سکواڈ تشکیل دئیے یہ قاتل پھر تیلے ذہین اور سنگدل تھے کہ چشم ذرہ میںلوگوں کو قتل اِسطرح کر تے کہ کسی بھی قسم کا نشان نہ چھوڑتے اِن کی کارروائیوں سے دنیا بھر کے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئیں تھیں۔

گاڈ فادر پراسرار چھلاوا بن گیا تھا جو آندھی کی طرح کسی بھی جگہ آتش فشاں کی طرح پھٹ کر دشمن کو نیست و نابود کر دیتا گاڈ فادر ابتدا میںایک چھوٹا سا مجرم تھا بے پنا ہ شیطانی قائدانہ صلاحیتوں کا مالک تھا غیر معمولی ذہین آدمی تھا جرائم پیشہ گروپوں کو کنٹرول کر نا یہ آرٹ اسے خوب آتا تھا 1934ء میں اُس نے اپنے خو فناک منصوبے کو اسطرح شروع کیا کہ یونیورسٹی کے پروفیسرز اور ریٹائرڈ سیاستدانوں کی خدمات حاصل کیں پروفیسر وں نے مختلف یو نیورسٹیوں کے دور ے کئے اور ذہین ترین طالب علموں کی لسٹیں بنا دیں سیاستدانوں نے اِن نوجوان سیا ستدانوں کے نام بتا ئے جو مستقبل میں بڑے سیاستدان بن سکتے تھے اب گاڈ فادر نے اِن طالب علموں اور سیاستدانوں کی سماجی مدد کر نا شروع کر دی طالب علموں کو وظائف دے کر تر قی یا فتہ ملکوں سے اعلی تعلیم دلانا اور پھر اِن طالب علموں کو اٹلی کے سرکاری پرائیوٹ اداروں میں بھرتی کروایا سیاستدانوں کو پروان چڑھنے میں مدد کی وکیلوں کو جج بنوایا اپنے بندوں کو سفیر وزیر مشیر بنوایا کچھ کو تاجر صنعت کار برو کر بنوایا ما ہر معاشیات بنوایا اور پھریہ لوگ تمام اٹلی میں پھیل گئے پھر گاڈ فادر دوم نے اپنے والد کے سلسلے کو پورے یو رپ میں پھیلا دیا گاڈ فادر کے ایک اشارے پر منٹوں میں یو رپ کے قوانین تبدیل ہو جاتے ‘سامنے حکمران اور تھے لیکن حقیقی حکومت گاڈ فادر کی ہی تھی چپڑاسی سے لے کر وزیر اعظم تک ہر بندہ گاڈ فادر کا ہی ہر کارہ نکلتا اگر کبھی کو ئی جرم اُس کے کھا نے پڑتا توایف آئی آرکر نے والا مہر لگا نے والا گرفتاری کا حکم دینے والا عدالت میں وکیل اور جج کی پوسٹ پر بیٹھا ہر شخص وزیر مشیر یا وزیر اعظم ہر بندہ اُس کا خریدا ہوا ہو تا تھا۔

حکومتی عہدے دار دن رات اُس کے پا ئوں کو چھو کر گھر سے نکلتے اُس کے اشاروں پر چلناان کی زندگی کا مقصدیہی تھا اِس طرح گاڈ فادر کے با اثر افراد کے اذھان شعور عقل و فہم میں اتر گیا تھا اُس کے حق میں بولنے والے اور اُس کی مخالفت میں بو لنے والے دونوں اُس کے جو تے چاٹتے تھے دونوں کی رگوں میں اُس کی وفاداری کا خون دوڑتا تھا بعد میں اِسی سسٹم کو امریکہ نے اپنا لیا آج دنیا کے اکثر ممالک میں امریکہ کے ہر کا رے امریکی مفادات کی خا طر اپنی زندگیاں تک دائو پر لگانے سے گریز نہیں کر تے آپ پاکستان کی تما م جما عتیں دیکھ لیں آپ کو امریکہ کے پٹھو ہر جماعت میں امریکہ کی جگا لی کر تے نظر آئیں گے گا ڑی میں میرے سا منے بھی چھوٹا سا گاڈ فادر بیٹھا تھا جو مجھے خریدنے پر تیا ر تھا میں نے اُس کی آنکھوں میں گہری نظروں سے دیکھا اور کہامجھے خریدنے سے پہلے خدا کو خریدو کیونکہ میں اُس کی با ت مانتا ہوں یہ کہہ کر میں گا ڑی سے نیچے اُتر آیا لیکن اترنے سے پہلے اُسے کہا کبھی دوبار ہ میرے پاس آنے کی غلطی نہ کرنا۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956

ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org