گڈ گورننس کی بلی

Good Governance

Good Governance

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
گڈ گورننس کا راگ خواہ مخواہ ہی کور کمانڈرز کانفرس میں زیر بحث لے آیا گیا اور آئی ایس پی آر کی طرف سے پریس ریلیز میں بھی اس کا ذکر جنرل عاصم باجوہ نے کر ڈالا جبکہ گڈ کی جگہ بیسٹ گورننس تو موجودہ مرکزی حکومت اور پنجاب کے حکمران شریف برادران جاتی امرائی قلعہ جات کی مضبوطی کے لیے کر کے دکھا ہی چکے ہیں ااونچی آہنی حفاظتی باڑیں اور بجلی کے قمقموں کی بہاریں اور قطاریں کیا گڈ گورننس میں نہیں آتیں ؟ باقی رہ گئے عوام تو وہ چیخیں گے لٹیں گے۔

قتل و غارت گری اور ڈکیتیاں ہونگی تو ہی پولیس افسران کا مال بنے گا کہ مظلوم تھانوں کا دروازہ نہ کھٹکٹائیں تو ایس ایچ او بھوکے مرنے لگیں ۔وہ تو رات کو بھی اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگتے اور خدا کے حضور دہائیاں دیتے ہیں کہ مولا کوئی بڑی ڈکیتی یا قتل کی وارداتیں ان کے حلقہ اور حدود میں کرواتا رہ تاکہ مال متا ل بنتا رہے کہ انھوں نے ممبران اسمبلی سمیت اوپر تک حصہ بقدر جسہ پہنچانا ہی ہو تا ہے اور خود بھی پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا ہی نہیں کرنا ہو تا بلکہ کوئی مربع زمین کا ٹوٹا ،کوئی پلازہ بھی بنانا ہوتا ہے۔

Elections

Elections

تاکہ پھر بڑھاپے کی زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد آسانی سے گذر سکے۔کے پی کے میں بھی عمرانی گڈ گورننس اچھی ہے کہ انہوں نے بن گالائی محلات کے حفاظتی اور خوبصورتی کے تقاضوں کو احسن انداز میں پورا کر رکھا ہے۔ رشوت خور اور کرپٹ وزراء اور مخصوص سیاسی جماعت کو انھوں نے خود ہی وزارتوں سے دفع دور کیا تھا۔اور اب خود ہی حساب کتاب کا مک مکاہو جانے کے بعد دو بارہ اس پارٹی کوداخل در خزانہ امور کر لیا ہے بلی کو دودھ کا رکھوالا بٹھائو گے تو سارا دودھ پی جائے گی۔نیز جوق در جوق کرپٹ مافیائی ٹولوں کوجن کا خوبصورتی سے نام سیاستدان رکھا گیا ہے “انصاف “کے چرنوں میں پناہ دی جارہی ہے۔ تاکہ آئندہ کسی نہ کسی صورت انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے پورے ملک پر قبضہ کیا جاسکے پھر دیکھیں گے ہمیں کون روکتا ہے بتدریج ذاتی دشمنوں کا قلع قمع کرنے اور اپنا گھرو کاروبار اعلیٰ و ارفع کرلیں گے۔

کیا”شریف”سیاست دانوں اور ان کے آگے پیچھے دوڑتی سینکڑوں مسلح اہلکاروں کی گاڑیاں گڈ گورننس کی نشانیاں نہ ہیں ؟ود ہو لڈنگ ٹیکس عائد کرکے تاجروں کو رونے دھونے اور عوام کو تگنی چوگنی مہنگائی پرہر سودا سلف مہیا ہونا گڈ گورننس نہیں تو اور کیا ہے ؟کسانوں کی فصلیں تباہ ہو گئیں ۔سیلاب پر ملنے والی امدادیں وزیروں ،مشیروں ،بیورو کریٹوں نے ہڑپ کر لی ہیں اور زلزلہ زدگان تک کوتو سردیوں میں کمبل تک بھی مہیا نہیں ہو سکے تو اور گڈ گورننس کس چڑیا کا نام ہے ؟۔ ڈاکٹر ،تاجر ،کسان ،صحافی ،نابینا ،کلرک و سرکاری ملازمین سبھی سڑکوںپر ہیں اور حکمران آئی ایم ایف پر سجدہ ریز ہیں۔

میگا کرپشن سکینڈلز کے179مقدمات سپریم کورٹ کی نظر ہو چکے میگا مگر مچھ چہرے غازہ منہ پرملے جب قوم کے سامنے آئیں گے تو گڈ گورننس کی خونخوار بلی ضرور گیت گائے گی ۔شیطان خوشی سے ننگا ناچ ناچے گاکہ اس کی برادری میں اضافہ ہو رہا ہے۔فرقہ واریت کے زہر نے پاکستان کو تباہی کے کناروں تک پہنچاڈالا ہے اور یہ ناسور مذہب اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے مگر شریفان گڈ گورننس کاڈھول مسلسل پیٹ رہے ہیںقازغستان کو صرف300ملین ڈالر دے کرامریکیوں نے ان کے تمام ایٹمی ہتھیارناکارہ بنا ڈالے اور ہم کیا سادے ہیںکہ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں ۔قرضوں پر 54فیصد سود کی مد میں رقم پہلے کٹتی ہے اور باقی رقم منہا کرکے دی جاتی ہے۔اس طرح سامراجی بھیڑیوں نے ہمارا سودا طے کرنے کے لیے پتا نہیں کیا ریٹ لگا رکھا ہوگا۔

Pak Army

Pak Army

کونسا ٹائوٹ یااپناٹوڈی ملک پر برسر اقتدرا لا کراپنا ایسا منصوبہ مکمل کرنا چاہتے ہوں گے۔مگرشریف مسلسل گڈ گورننس کا راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ تو سیاسی مسائل ہوئے نہ !اس میں فوج کا کیا لینا دینا آتا ہے۔فوج تو صرف مشکل وقت میں جہاں حکومت بلوائے اس کے لیے تابعداری کرنے کے لیے بنی ہے !حکمرانو!خدا سے ڈرو کہ تمہاری طاقت اور غروراس وقت کے فرعون ،نمرود و شدادسے اوراس دور کے سابقہ شہنشاہ ایران سے تو زیادہ نہ ہے مگر وہ کہاں گئے ؟ کہاں مدفون ہیں قبر تلاش کیے بھی نہیں ملے گی ۔فوج کے کارناموں پر داد دینے کی بجائے وزراء کی تنقید ہیڈ ماسٹر کی اجازت کے بغیر نہیں بلکہ اشاروں پر ہی پُتلی کانہیں تو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیںکرپٹ سیاستدانوں ،ظالم جاگیرداروں ،سود خور سرمایہ داروں کا دور بہرحال لَد چکا۔

خدا کی غیرت جوش میں آکر ان کو سیاسی دنگل سے لازماً باہر کرڈالے گی اور ان کا نام تک بھی نہ ہوگا داستانوں میں ۔مستقبل غریبوںکے خادم لبرل اسلام اور اللہ اکبر کی ہی تحریک کا ہے اور غداروں ،کرپشن کے یاروں اور سامراجی گماشتوں کا نہ ہے۔گڈ گورننس کی بھوکی بلی بھی آخر اتنا عرصہ بند رکھی گئی ہے اب کھولو گے تو منہ کو نو چے گی آنکھیں نکال ڈالے گی پھر اب تو دیر ہو گئی تاریخ کا پہیہ تو آگے گھوم گیا ہے ۔اب تو اقتداری لونڈیا سے جان چھڑا کر بھاگ جائواپنی بیرون ممالک میں قائم کردہ ایمپائروں میں پناہ لے لو تو عافیت اسی میں ہے۔غریب خواتین کی بھوک اور مہنگائی سے خود کشیاں ،اغواء برائے تاوان کی کہانیاںاورپانچ سالہ ننھی بچیوں سے درندگیاں ہی تو گڈ گورننس کی اعلیٰ نشانیاں ہیں جس پر ہم تلملا اٹھیں گے۔کہ آپ نے چور کو چور کہنے کی جرأت کیسے کی آپ نوکر ہوکر ہمیں آنکھیں دکھاتے ہو۔ہم ہم ہی ہیں اور مالک کل ہیں اور کوئی پتہ بھی تو ہماری اجازت کے بغیر نہیں ہلنا چاہیے کہ ہم بھاری بھرکم مینڈیٹ جو رکھتے ہیں۔

غور کرو تو یہ خدائی دعوے ہیں کہ وہی ہر چیز کا مالک اور ہر جگہ کا اکیلا ہی حکمران ہے خدائی دعوں سے باز آجائو گے تو بہتری اسی میں ہے وگرنہ تمہارے بن گالائی ،زرداری ہائوسزاور جاتی امرائی محلات زمین بوس ہونے میں کوئی دیر نہیں لگے گی کہ خدائی کوڑا بہت ہی طاقتور ہوتا ہے۔نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے حکمرانو!شریف برادران خود جرأت رندانہ سے تو عاری ہیں ہی ذرا وزارت دفاع سے ہی کہہ کر دیکھ لیں کہ آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز پران کے خلاف ایشن لے لیں (کہ آئینی طور پر یہ ادارہ وزارت دفاع کے ماتحت ہی ہے)صرف نوٹس انکوائری ٹائپ کرنے سے ہی کپکپی طاری ہوکردن میں تارے نظر آنے شروع ہو جائیں گے۔

بواپسی لیٹر نہیں بلکہ ایسا زوردارذناٹے دارتھپڑ دونوں گالوں پر لگے گا تاکہ گالیں مزید سرخ ہو جائیں !صرف جواب آں غزل دینا ہی آ بیل مجھے مار کے مترداف ہے جبکہ افواج کا پاکستانیوں کی عوامی خدمت کی بدولت ستارہ نصف النہارپر چمک رہا ہے اور آپ کی حکومت پٹے ہوئے اوندھے گرے پڑے اس گدھے کی صورت ہے جس کا گوشت آپ اور آپ کی تابعدار بیورو کریسی کی کوتاہیوں کی ہی وجہ سے عوام کھانے پر مجبور ہیں۔

DR Ihsan Bari

DR Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری