سوچی کو بہت سوچا

Aung SanSuu Kyi

Aung SanSuu Kyi

تحریر: تنویر احمد ڈیرہ غازیخان
جب مغر ب سیاسی میدان میں ایوارڈ ریوڑیوں کی طرح باٹنے لگے اور ہمارے ہاں بھی اس بھیڑ چال کی تقلید ہونے لگے تو سمجھ لیجئے کہ آنے والے وقت میں کچھ بڑا گند ہونے جار ہا ہے۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔لیکن آج کی تاریخ میں اس کی سب سے تازہ مثال میانمار(سابق برما) کی آنگ سانگ سوچی ہیں ۔اس خاتون کو انسانی حقوق کے لیے ان کی ”خدمات ”کے اطراف میں دنیانے جو بڑے ایورڈ زدئیے ان میںدنیا کا سب سے بڑا ایورڈ نوبل پیس پرائز ،امریکہ کا سب سے بڑا سول ایورڈ پریزڈنشل میڈل فار فریڈم، امریکی کانگریس کا کانگریشنل گولڈ میڈل، یورپی یونین کا سخاروف ایورڈ ، اقوام متحدہ کا انٹرنیشنل سائمن بولیور پرائز، ناروے کا رافتومیموریل ایورڈ، بھارت کا جواہر لعل نہرو ایورڈ، بھارت ہی کا بھگوان مہاویر ورلڈ پیس ایورڈ،آئرلینڈ کے شہر ڈبلن کا فریڈم آف سٹی آف ڈبلن ایورڈ ،سویڈن کی سیاسی جماعت سویڈش سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا اولوف پام پرائز ،پاکستان پیپلز پارٹی کا بے نظیر بھٹو ایورڈاور ایم ٹی وی ایورپ کا فری یور مائینڈ ایورڈ شامل ہیں۔

اعزازات کا یہ سفران ایورڈ پرہی ختم نہیں ہوتا بلکہ آنگ سانگ سوچی کو کینڈا نے اپنی اعزازی شہریت بھی دی ہے جو آج تک صرف 4افراد کو ملی ہے ۔جب مغرب ریوڑیوںکی طرح ایوارڈ بانٹنے لگتا ہے تو اس دوڑ میںاس کی عظیم الشان درسگاہوں کی شمولیت بھی پکی ہوتی ہے۔ چنانچہ امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی نے سوچی کو ویلن برگ ایورڈ سے نوازا جبکہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے انہیںڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی ، جلد ہی عالمی سطح پر احساس کیا گیا کہ اتنی عظیم خاتون کے لیے ڈاکٹریٹ کی صرف ایک ڈگری ناکافی ہوگی ۔چنانچہ جنوبی کوریا کی سول نیشنل یونیورسٹی ، اٹلی کی یونیورسٹی آف بلوگنا اور آسٹرلیا کی چار یونیورسٹیوں موناشی یونیورسٹی،آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی، یونیورسٹی آف سڈنی اور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریوں سے نواز کر اس کمی کو پورا کیا۔خواتین کے حقوق کے حوالے سے معروف ادارے ایکولٹی نائو نے 2005میں ان کا نام اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کے عہدے کے لیے بطور امیدوار بھی پیش کیاجو بجائے خود بطور اعزاز کیاگیا۔

آنگ سان سوچی کو ان ایوراڈ ز اور اعزاز ات سے نواز کر ہمیں باور کرایا گیا تھا کہ اس کرہ ارض پر بسنے والے 7ارب انسانوں میں آنگ سان سوچی ایک عظیم انسانی سرمایہ ہیں، کیونکہ اس عظیم عورت کے سینے میں دل نہیں خود انسانیت دھڑکتی ہے۔یہ جاگتی ہیں تو انسانیت کے سوا کچھ نہیں سوچتی اورسوتی ہیں تو انہیں کے خواب بھی انسانیت کی فلاح و بہود کے آتے ہیں کسی بھی دوسرے انسان کی طرح یہ جاگتی آنکھوں بھی خواب دیکھتی ہیں۔لیکن دوسروں کی طرح ان کے جاگتی آنکھوں والے خواب تعبیر سے محروم نہیں رہتے کیونکہ ان کے یہ خواب بھی انسانیت کے درد سے وابسطہ ہوتے ہیں۔ انسانیت کے عالمی ٹھیکداروں نے ہمیں یہ سب باور کرایا اور ہم نے باور کرلیا۔ہم نے آنگ سان سوچی کو عظیم عورت مان لیا ہمارے ہاں بھی ان کی شان میں نثری قلابے ملائے گئے اور شعری شہ پارے تخلیق کئے گئے۔لیکن وہ بھرم اب بکھر چکا ہے اور اسے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام نے بکھرا ہے۔یہ بھرم شاید سن 90ء کی اس دہائی میں بکھر جاتا جس کے آغاز میں ہی سوچی کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا لیکن تب ہم پوچھتے کہ اگر انسانیت کے حوالے سے سارے جہاں کادرد سوچی کے ہی جگر میں ہے تو وہ روہنگیا مسلمانوں کی حالت ذار پر کچھ کیوں نہیں بولتیں؟تو جواب ملتا کہ وہ تو قیدی ہیں، ان کی پہلی ترجیح اپنے ملک میں جمہوریت کا احیا ہے، ایک بار جمہوریت آگئی تو باقی جمہوری دنیا کی طرح رخائن سٹیٹ (سابق اراکان) میں بھی دود ھ شاہد کی نہریں بہنے لگیںگی ۔بات کسی حد تک معقول تھی سو ہم نے یقین کرلیا۔

نومبر 2010ء میں سوچی رہا ہوئیں تو ہم نے سوچا کہ مصائب صرف سوچی کے لیے ختم نہیں ہوئے بلکہ 10لاکھ روہنگیا مسلمانوں کے لیے بھی اب ختم ہوتے جائیں گے۔ گمان تھا کہ انسانی حقوق کی یہ چیمپئن کھلی آنکھوں ان 10لاکھ انسانوں کا کرب دیکھتے ہی صدمے سے بے ہوش تو ہوجائیں گی لیکن جیسے ہی ہوش میں آئیں گی اپنی زندگی ان کی فلاح و بہود کے لیے وقف کردیں گی۔وہ بے ہوش ہوئیں اور نہ ہی انہوںنے کوئی لفظ کہا۔ انسانی حقوق کے سیانوں سے وجہ پوچھی تو کہا گیا کہ پہلے انہیں پارلیمنٹ پہنچے دیں۔ بات ایک بار پھر معقول لگی اور ہم نے ایک پھر یقین کرلیا ۔2012ء کے ضمنی الیکشن میں وہ پارلیمنٹ پہنچ کر اپوزیشن لیڈر بن گئی تو ہمیں پختہ یقین تھا کہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے وہ روہنگیا مسلمانوں کے استحصال کے خلاف بولیں گی۔وہ ہر موضوع پر بولیتی مگر روہنگیا مسلمانوں سے تو جیسے وہ واقف ہی نہ تھی۔ہم نے پھر انسانی حقوق کے سیانوں سے رجوع کیا جواب ملا کہ اگر وہ اس مسلے پر بولیں تو اس سے 2015ء میں آنے والا جنرل الیکشن ہا ر جائیں گی کیونکہ بدھسٹ میانمار کی غالب قوت ہیںاور وہ روہنگیا مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ ایک بار آنگ سانگ سوچی وہ الیکشن جیت جائیں اور ان کی جماعت اقتدار میں آجائے تو وہ قانون سازی کرکے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کردیں گی۔

بات اس بار بھی معقول لگی لیکن پھر 2015ء عام انتخابات آگے اور آنگ سان سوچی کی جماعت اقتدار میں آگئی ۔آئینی روکاوٹوں کی وجہ سے وہ صدر تو نہیں بن سکی لیکن اپریل 2016میں ان کے لیے سٹیٹ کونسلر کا عہدہ تخلیق کیا گیا جس پر بیٹھ کر حکومت در حقیقت وہی کررہی ہیں میانمار کی فوجی حکومت نے 1982میں قانون بنایا تھا کہ 1823ء کے بعد یہاں آنے والا کوئی بھی شخص ہمارا شہری نہیں ہے سوچی سٹیٹ کونسلر بنی تو ہم نے سوچا کہ وہ قانون اب ختم ہوجائے گا لیکن جب سوچی کو اس جانب متوجہ کیا گیا تو انسانی حقوق کی اس چیمپئن نے کہا، میں نے روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے کا وعدہ کبھی نہیں کیا انہیں شہریت نہیں مل سکتی ہاں !شناختی کارڈ چاہیے تو وہ دے دیتے ہیں ۔بات صرف یہیں تک نہیں رہی بلکہ اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے بعد انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا ہے صرف 2ستمبر 2017کو روہنگیا مسلمانوں کے 2600گھر فو ج نے جلائے ہیںجسے عالمی میڈیانے رپورٹ کیا ہے۔ سوچی نے اس قتل عام کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے گروپ کو میانمار آنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کردیا ہے سوچی کے دور حکومت میں ہونے والا قتل عام فوجی دور کے مظالم سے کئی گنا بدتر ہے وہ اپنے اس دور حکومت میں میانمار کو روہنگیا مسلمانوں سے ہمیشہ کے لیے نجات دلانے کے عزم پر قائم نظر آرہی ہیں دنیا نے شاید اسی دن کے لیے ایورڈ اور اعزازت کی ریوڑیاں دی تھی۔ ہم ہی غلط سوچتے رہے ہم نے 1992ء سے سوچی کو بہت سوچا لیکن جو وہ کررہی ہے وہ کبھی نہیں سوچا ۔اب ہم کچھ اور بھی سوچنے لگے ہیں ہم سوچتے ہیں ان ہی عالمی ٹھیکداروں کیطرف سے ایوارڈ ز توملالہ کو بھی بہت ملے ہیں۔

تحریر: تنویر احمد ڈیرہ غازیخان