سرکاری اسکول اور نیم سرکاری اسکولوں کا حال احوال

Children Study

Children Study

تحریر : ثنا سیٹھی
حدیث نبوی ہے کہ علم حاصل کر و چاہے تمھیں چین ہی کیون نہ جانا پڑے۔ اس کے علاوہ اسلام میں پہلی وحی کا پہلا لفظ بھی اقراء ہی سے شروع ہوا مطلب یہ کہ اسلام میں تعلیم دینے اور تعلیم لینے والے یعنی اُستاد اور شا گر د کا مرتبہ اور وقار بہت بلند ہے ۔ کیونکہ تعلیم السامقدس پیشہ ہے کہ جب سے دُنیا قائم ہوئی ہے تب سے لے کر اب تک بغیر کسی وقت کے قائم و دائم ہے ۔ تامم پیغمبران دین اور اولیاء اکرام سے نئے ہر دور میں تعلیم کے ذریعے ہی ترقی اور فتوحات حاصل کیں اور اسلام کو پھیلانے کے لیے بھی تعلیم کا بہت علم دخل ہے ۔ ہمارے پیارے نبی ۖ نے بھی تعلیم کو بہت اہمیت دی ۔ اس وجہ سے آپۖ کی عملی زندگی مبارک میں احادیث اور مثالیں ملتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوئی اجتناب نہیں برتنا چاہیے۔

پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح تعلیمی تر قی پر بہت تو جہ دی جارہی ہے اور نئے نئے اسکو لوں کا قیام بھی عمل میں لا یا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہی اساتذہ کی ضرورت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ مگر افسوس پھر بھی شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو رہا ۔ جس کی وجہ سے ترقی اور معیشت میں ملک کافی پیس رہی ہے۔ شاہد اس کی بڑی وجہ ہمارا پاکستان کا نظام تعلیم ہے ۔ کیونکہ اگر آپ اپنی معیشت کو مضبوط بنا نا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی تعلیمی معیار کو بہت سو ھارنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں حکومت پاکستان سے تعلیم کو سر کاری طورپر مفت کر دیا ہے۔ وہاں اُس کا معیار بھی بہت کم کر دیا ہے ۔ جس کی وجہ سے متوسط یا غریب طبقہ تو اپنے بچوں کو اِن سر کاری اداروں میں مجبوری کے تحت پڑھانے کو تیارہیں۔

مگر امیر طبقہ اپنے بچوں کو اِن اسکولوں میں بھیجنے کا روادار نہیں کیونکہ سب سے پہلے تو ان اسکولوں میں جو اُستاد پڑھاتے ہیں ۔ اُن کا امیج شاہد لوگوں کے لیے اچھا نہیں ہے ۔ غیر حاضررہنا اُن کا معمول ہے ۔ بچوں پر توجہ اور محنت نام کو نہیں ہے اس کے علاوہ بچوں کے والدین اُن کی مارپیٹ سے بہت تنگ آچکے ہیں ۔ دیہی علاقوں میں ہونے کی وجہ سے اسکولوں میں نظم و ضبط نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے اسکولوں کا ماحول اسکول جیسا نہیں بلکہ کسی منڈی جیسا لگتا ہے۔ خصو صاًصوبہ پنجاب میں سر کاری اسکول بہت تو وجہ کے حاصل ہیں۔

Corrution

Corrution

اس کے لیے حکومت پنجاب کو کریشن سے پاک اِک کمیٹی بنانی چاہیے جو بلکل صاف ستھری بنیادوں پر سر کاری اسکولوں کی حالت بہتر کرسکے تاکہ عام عوام کو بھی سر کاری اسکول میں دئی تعلیم و تربیت ملے جو ایک اعلیٰ اسکول میں فراہم کی جاتی ہے۔ میرا خیال ہےکہ جب آپ کسی نیک کام کو اس نیت سے کرتے ہیں کہ اس کو آمدنی کا زریعہ بھی بنایا جائے تو اس میں سے نیکی کا عنصر نکل کر لالچ آجا تا ہے ۔ یہی حال ہمارے بڑے بڑے پرائیویٹ اداروں کا ہو گیا ہے۔ بلکہ زیادہ تر لوگ تو یہ سوچ کر اسکول تعمیر کرتے ہیں کہ یہ آمدنی کا زبر دست زرعیعہ ہے ۔ کیو نکہ پر پرائیویٹ ادارے کے اپنے الگ الگ قوانین متعین ہیں۔ جو کہ غریب عوام کی دسترس میں نہیں ہو تے ۔ مثال کے طور پر آج کے دور میں جب ایک پرائیویٹ ادارے میں ہم اپنے بچے کو داخل کروانے جاتے ہیں۔

تو بچے کی عمر 3 یا 4 سال ہونا لازمی ہے ۔ وہ آپ سے داخلہ فیس ہزاروں کی تعداد میں لے لیتے ہیں ۔ پھر بچہ پہلے پہلے گروپ پھر نرسری اور پھر پریپ کے بعد پہلی جماعت میں جاتا ہے۔ تب تک وہ تقریباً 7 سے 8 سال کا ہو چکا ہوتا ہے۔ اور اس کے ماں باپ پہلی جماعت میں داخلہ لے کر دیتے ہیں کافی فیس بھی جمع کرواچکے ہوتے ہیں ۔ بیر حال یہ تو وہ مسئلے مسائل ہیں جن کے پاکستان اب عادی ہو چکے ہیں اس کے بر عکس سر کاری اسکولوں میں چونکہ وہ سہولیات نہیں جس کی وجہ سے ماں باپ اِن مینگے اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں ۔ اب سر کاری او نجی اداروں میں موسم گر ما کی تقریباً 3 مہینے کی چھٹیاںہو چکی ہیں ۔اتنی گرمی میں بچے اسکول آنے جانے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں۔

لہذا گرمیوں کے ہوم ورک کے ساتھ ماں باپ کو کافی ساری اضافی تقریر کے ساتھ بچوں کو تر غیب دی گئی ہے کہ گھر میں بیٹھ کر پڑھا جائے ۔ مجھے اختلاف اس بات سے ہے کہ جب اسکول تین ماہ بند رہیں گے تو پھر بچوں سے تین ماہ کی فیس کیوں لی گئی ۔ جبکہ ہم سالانہ فنڈ بھی علیحدہ سے جمع کرواتے ہیں ۔ تاکہ اسکول کے ذاتی اخراجات پورے ہو سکیںگو کہ وہ ہمارا سر درد نہیں مگر پھر بھی چلو اسکول کی بقاء گی خاظر ہم سالانہ فنڈ دیتے ہیں مگر یوں پھر موسم گر ما کی چھٹیوں میں عوام کو پرائیویٹ اداروں کو بھاری فیس جمع کروانی پڑتی ہے۔

Poor People

Poor People

اس کا الزام بھی ہمارے وزراء اور اعلیٰ حکام کو جاتا ہے کہ جن کی وجہ سے آج سر کاری اسکول بدنامی کو پہنچ چکے ہیں ۔ اور غریب عوام ظلم کی چکی میں پیس رہے ہیں ۔ چاہے وہ اسکولوں کا معاملہ ہو یا سر کاری ، ہسپتالوں کا ، پاکستانی ائیر لائینز ہو یا سر کاری ٹرینیں الغرض پر سر کاری ادارہ بد نامی کا گڑھ بن چکا ہے ۔ جس کی وجہ سے جس انسان کے پاس حیثیت اور مرتبہ ہے وہ ان اداروں کو منہ لگانے سے گریز کرتا ہے ۔مثال کے طور پر سر کاری ہسپتال میں بیٹھا ڈاکٹر بلکل توجہ سے نہیں دیکھتا جب اُسے کیا جاجتا ہے کہ تو وہ اپنے پرائیویٹ کلینک کا پتہ دے دیتا ہے۔

بہرحال بات سر کاری اور نیم سر کاری اسکولوں کی ہو رہی تھی جس غریب کے تین بچے یا4 بچے پرائیویٹ اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ اُسکے اگر کیا جائے کہ 3 مہینے کی فیس اکھٹی دے جائے تو 4 بچوں کی فیس تقریباً ایک بچے کی سالانہ فیس بن رہی ہے ۔ تو آپ خود سو چیں کہ اگر آپ سے کیا جائے کہ آپ کے بچے نے اسکول بھی نہیں آنا اور فیس بھی بارہ مہینے کی جمع کروائیں تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی ۔ یہ کسی کینسر یا کیڈٹ اسکو ل کی بات نہیں ہو رہی یہ عام اسکولوں کی بات ہو رہی ہے جو ہمارے محلوں میں جگہ جگہ کھل چکے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ گورنمنٹ پاکستان کو اب اس بارے میں سنجید گی سے سو چنا پڑے گا اور اس کے خلاف ایکشن لینا پڑے گا ۔ اور تمام سر کاری اور نیم سر کاری اداروں کو الرٹ کیا جائے کہ گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس کو ختم کیا جا سکے ۔ تاکہ ایک غریب اُن پیسوں سے اپنے بچوں کو اور کچھ نہیں تو اچھی خوراک اور لباس بھی مہیا کرسکے ۔ اللہ کرے ایسی سوچ ہمارے حکمرانوں کی بھی ہو جائے تو وہ دن دور نہیں جب ملک تر قی کی راہوں پر گا مزن ہو گا اور بلندیاں ہمارے قدم چومیں گی۔ (امین)

Sana Sethi

Sana Sethi

تحریر : ثنا سیٹھی