قول و فعل

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
قول و فعل کا یکساں ہونا عظیم قوموں کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ قول و فعل میں تضاد قوموں کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ کسی بھی ملک کے حاکم دنیا میں بھر میں اپنی قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔دنیا حکمرانوں کے قول و فعل کو دیکھ کر قوموں کے حالات کا اندازاہ لگاتی اور تعلقات قائم کرتی ہے۔ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل میں کس قدر تضاد پایا جاتا ہے اور دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے ؟ان سوالات کے جوابات تلاش کرناہمارے لئے بہت اہم ہے۔

آئیں آج ماضی سے حال تک حکمرانوں کے قول و فعل پرغورو فکر کرکے مستقبل کے فیصلوں کوبہتربنانے کی کوشش کریں۔ 14اگست2011ء لاہور میں یوم آزادی کی65 ویں سالگرہ کے موقع پر مزار اقبال پر حاضری اور پھولوں کی چادر چڑھانے اور عالمگیری گیٹ پر پرچم کشائی کے بعد حضوری باغ میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہاکہ 14 اگست کا دن ہمیں ان قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو ہمارے آبائو اجداد نے ایک آزاد خودمختار مملکت کے حصول کیلئے پیش کیں۔ہمیں آزادی کے پرمسرت موقع پر تمام تر توانائیاں ملک کیلئے بروئے کار لانے کا عہد کرناہوگا۔ آج قائداعظم محمد علی جناحاور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے احکامات پر عمل پیرا ہونے اور قوم کی خاطر قربانی دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے۔ دنیا میں وہی قومیںعزت وتوقیر سے زندہ رہ سکتی ہیں جو اپنا احتساب خودکرتی ہیں۔ پاکستان نے 64 سال میں بے مثال اور اچھے کام بھی کئے ہیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی ایٹمی طاقت بننا ہے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایٹمی ملک ہونے کے ناطے کوئی بھی پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتا ۔ کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو پاکستانی قوم اس کی آنکھیں نکال دیگی۔ ہمیں ایٹمی پروگرام اور اس کے اثاثوں کوبرقرار رکھنے کیلئے کشکول توڑنا ہوگا۔ آج ملک مختلف مسائل کاشکار ہے۔ پوری قوم کو کندھے سے کندھا ملا کر پاکستان کو مشکلات سے نکالنا ہوگا۔ کرپشن، معاشی ناہمواری اور لوٹ مارکو ختم کرنا ہوگا۔ 1970ء کو قائداعظم کے پاکستان کو دولخت کر دیاگیا اس کا صدمہ ہمارے دلوں میں آج تک موجود ہے ۔ ہم نے پاکستان کا کھویا ہوا مقام واپس دلانا ہے تو پھر ہمیں اس راستے پر چلنا ہو گا جو حضور اکرم ۖ نے 1400 سال پہلے اسوہ حسنہ کے ذریعے دیا تھا ہمیں قرآن پاک کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔ خالی لفظوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ملکی مسائل کو حل کرنا ہوگا۔قوم کو اچھی طرح یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے گزشتہ وفاقی دور حکومت میں مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت اپوزیشن کا کردار ادا کررہی تھی ،پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور میاںشہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ، اس وقت وہ جوش خطابت میں اکثر ایک بات کہا کرتے کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ کشکول توڑ دیں گے ،اور ملک و قوم کا پیسہ لوٹنے والوں کا پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکالیں گے ،آج وفاق میں ان کی جماعت کی حکمرانی کاپانچواں سال گزررہا ہے اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی وہ خودہی ہیں۔

بدقسمتی یابدنیتی وجہ جوبھی ہونہ کشکول ٹوٹانہ پاکستانی قوم کے سرسے قرض کابوجھ ہلکاہوپایا۔ لوٹ گھسوٹ۔ کرپشن کے خاتمے اورمعاشی ناہمواری کو ہمواری میں بدلنے کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے جوعملی اقدامات اُٹھائے وہ دنیاکے سامنے ہیں اورپنجاب میں کرپشن ،لوٹ گھسوٹ کاجوعالم ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ جتنے قرضے مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے لئے ہیں ماضی میں شاید ہی کسی حکومت نے لئے ہوں۔قوم کوکشکول توڑنے کی لوری دے کر آئے روززوزیراعظم اوروزیر خزانہ پہلے سے بھی بڑئے سائز کا کشکول اٹھائے بھیک مانگنے مختلف ممالک پہنچ جاتے ہیں۔2018ء کے عام انتخابات کی آمد آمد ہے اورقوم کشکول ٹوٹنے کے سنہری خوابوں کی آغوش سے نکل کر حقائق سمجھنے کی کوشش کررہی ہے۔حالت یہ ہوچکی ہے کہ قرض اتار کرپاکستان کواپنے پائوں پرکھڑاکرنے کے دعوے کرنے والوں نے اس قدر زیادہ قرضے لئے کہ آج ان کاسود اداکرنے کیلئے نئے قرضوں کی ضرورت ہے۔جی ہاں6اکتوبر2017ء کوایک قومی اخبار کے اداریہ میںشائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی کے دوران مجموعی طور پر 36 کھرب 52 ارب روپے کے اندرونی قرضے واپس کرنے ہیں جس کے پیش نظر اس دوران منی مارکیٹ سے 38 کھرب روپے کے نئے قرضے لینے کا شیڈول تیار کیا گیا ہے۔ ہدف کے مطابق قرض ملنے کی صورت میں حکومت کو قرضوں کی واپسی کے بعد دوسرے اخراجات کیلئے بھی 148 ارب 56 کروڑ روپے دستیاب ہوں گے۔ پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے اور واجبات ملکی برآمدات کے 383 فیصد تک پہنچ گئے ہیں جبکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر ملکی قرضوں کا حجم اس سطح تک پہنچا ہے۔

سٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران مجموعی طور پر پاکستان کے بیرونی قرضے اور واجبات 9 ارب 7 کروڑ ڈالر کے اضافے سے 82 ارب 98 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئے جو گزشتہ سال کی برآمدات کے 382.6 فیصد ہیں بیرونی قرضے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے 386 فیصد اور جی ڈی پی کا 27.3 فیصد ہیں۔ ماہرین کے اعداد و شمار کے مطابق ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زائد کے قرض کا بوجھ لئے پھرتا ہے۔ قرض اتارنے کیلئے قرض لینا بھی روایت بن گئی ہے۔ صاف معلوم ہورہاہے کہ موجودہ حکمرانوں کے رہتے سودی قرض کی لعنت سے نجات ممکن نہیں رہی۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے رسول اللہ ۖ کے اسوہ حسنہ اور قرآن مجید کے احکامات پر عمل کرنے کے دعوے بھی محض سیاسی بیان بازی ہی نکلے ۔ دنیانے دیکھاکہ سپریم کورٹ سے میاں نوازشریف کے نااہل ہونے کے بعد انہیں پارٹی صدر بنانے کیلئے کی جانے والی قانون سازی کے وقت حکمران جماعت نے اپوزیشن کی دوبڑی سیاسی اورایک مذہبی اتحادی جماعت کے مکمل تعاون کے ساتھ ختم نبوت ۖ کے حلف نامہ کواقرار نامے میں بدل کر برائے راست ختم نبوت ۖ کے قانون پرحملہ بول دیاجوپاکستانی مسلمانوں کیلئے شدید صدمے کاباعث بنااوروہ فوری طورپراحتجاج کرتے سڑکوں پرنکل آئے جن میں سب سے موثر احتجاج تحریک لبیک یاروسول اللہۖ کی قیادت اورکارکنان کادیکھنے میں آیا۔پہلے وزیرقانون نے ختم نبوت ۖ کے قانون میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے انکار کیا۔جب احتجاج کی شدت محسوس کی اور قوم کالہجہ سمجھ آیا تو پھرحکومت اوراپوزیشن جماعتوںنے فوری طور ختم نبوت ۖ کے پرانے حلف نامے کوبحال کرنے کیلئے قانون سازی کردی ۔حکمرانوں کے قول وفعل کاتضاد اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔الیکشن 2018ء میں عوام چھوٹے اوربڑے چوروں میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنے کی بجائے کسی نئی جماعت جس کی قیادت کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔جوپاکستان کے ساتھ مخلص ہو،جس کاجینامرناپاکستان میں ہو کوآزمائے تو بہت بہتر ہو گا۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com.
03134237099