رنج و محن

Dark Room

Dark Room

تحریر : اقرا عابد
“چھوٹا سا تو گھر ہے ہمارا۔۔۔۔۔۔ اتنی گنجائش نہیں ہے اب میرے پاس۔۔ میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں۔۔۔ سب کو علیحدہ علیحدہ کمرے چاہیے۔۔ آپ بات کو سمجھیں بی جان۔۔۔اولڈ ہاؤس میں آپ کی زیادہ بہتر طریقے سے دیکھ بھال کی جائے گی۔۔ میں نے تمام معات طے کر لیے ہیں۔ آپ کے باقی بیٹے تو بری الذمہ ہو چکے ہیں۔۔ سب بوجھ میرے اوپر ڈال کر”۔۔۔ پچھلے تین ماہ سے محتشم ہاؤس میں ٹھیک سات بجے عدالت لگا کرتی تھی جہاں ایک بوڑھی وہیل چئر پر نظریں جھکائے خود کو کٹہرے میں پاتی اور اپنے ہی بیٹے کو جج اور بہو کو حریف پاتی اور اپنے ہی پوتے پوتیوں کی شکل میں تماشاء دیکھتی۔۔ آغا شہریار حیات اور ثمینہ بانو کی تین اولادیں تھیں۔۔ سب سے بڑے آغا محتشم حیات پھر آغا معتصم حیات اور سب سے چھوٹے آغا معظم حیات۔۔ آغا شہریا ر حیات کروڑوں کی جائیداد کے مالک تھے۔۔ اپنے گاؤں کے سربراہ ہونے کی حثیت سے خدا نے انہیں بھرپور عزت سے بھی نوازا تھا۔۔۔ نہائت رحم دل اور خدا ترس انسان تھے۔ کبھی کوئی ضرورت مند اْن کے پاس آتا اور خالی ہاتھ لوٹ جاتا ایسا ممکن نہیں تھا۔۔۔

ثمینہ بانو کو کبھی اْن سے کو ئی شکایت نہیں ہوئی تھی۔۔۔ وہ اپنی تمام اولادوں سے بے حد پیار کرتے تھے لہذا اپنی وصیت اپنی زندگی میں ہی لکھ گئے تھے انہوں نے اپنی محبوب بیوی کے نام بھی بہت کچھ چھوڑا تھا مگر اْن کی وفات کے تین سال بعد آج وہ خود کو لاچار بے بس اور خالی ہاتھ محسوس کر رہی تھیں۔۔۔ اپنے محبوب شوہر کی جدئی کا صدمہ ایسا دل کو لگایا کہ فالج کی زد میں آگئیں۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آغا محتشم اور اس کی بیوی صالحہ نے ایک منصوبہ بنایا۔۔۔۔بی جان کی صحت کچھ ٹھیک نہیں ہے اور آپ کی فلائٹ کا وقت بھی قریب ہے اس لیے میں نے اور صا لحہ بیگم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم بی جان کو اپنے ساتھ شہر لے جائیں۔۔ میں اپنا کاروبار بند کر کے یہاں رہنے سے تو قاصر ہوں اور بچوں کی تعلیم کا بھی حرج ہو گا۔۔۔۔ آپ دونوں اپنی رائے دے دیجیے۔۔۔۔ آغا معتصم اور آغا معظم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آغا معتصم گویا ہوئے۔۔

” بھائی جان آپ بڑے ہیں آپ جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا۔۔۔۔ اور یوں بی جان اپنے شوہر کا گھر اور گاؤں چھوڑ کر بیٹے کے آسرے رہنے لگی۔۔ آغا معتصم اور آغا معظم دونوں بیرونِ ملک رہائش پذیر تھے۔۔۔ بی جان کے نام جو کچھ بھی تھا آغا محتشم اور اْس کی بیوی نے ہر چیز اپنے نام ٹرانسفر کروا لی تھی اور آج ثمینہ بانو خالی ہاتھ نظریں جھکائے اپنوں کی عدالت میں بے بس بیٹھی تھیں۔۔۔آغا محتشم حیات کی تین اولادیں تھیں۔۔ آغآ حنان حیات آغا حماد حیات اور غزل آرائ۔۔۔۔ آغا معتصم حیات کا ایک ہی بیٹا تھا آغا آفتاب حیات جو بزنس کے سلسے میں پاکستان کا چکر لگاتا رہتا تھا اور جب بھی آتا دادو بی سے ضرور مل کے جاتا تھا۔۔ اس بار بھی وہ اپنے آبائی گھر آیا ہوا تھا اور آج محتشم ہاوس آ رہا تھا۔۔۔ جس خوشی میں غزل آراء جو کبھی خود اْٹھ کر پانی کا گلاس نہیں پیتی تھی آج کچن میں گھسی ہوئی تھی۔۔۔

Nurse Give Medicine

Nurse Give Medicine

“لے دوا پی لے۔۔۔۔ ارے لے نا۔۔۔ ایک تو اس بوڑھیا کی اکڑ بہت ہے۔۔۔ ” نرس ثمینہ بانو کو دوا دے رہی تھی مگر وہ شائد کچھ کہنا چاہ رہی تھیں انھوں نے نرس کا ہاتھ جھٹکا اور سیرپ کی شیشی نیچے گر کر چکنا چور ہو گئی۔۔ ایک نرس آغا محتشم نے ثمینہ بانو کے لیے رکھی ہوئی تھی سالی۔۔ بڑھیا۔۔۔ نرس نے طمانچہ لگانے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ اْس کا ہاتھ پیچھے کا پیچھے ہی رہ گیا۔۔ کسی پْرزور قوت کی جکڑ میں۔۔ “یو شیم لیس وومن۔۔۔۔ ہیو یو لاسٹڈ یور مائنڈ “( شرم آنی چاہیے تمہں۔۔ کیا تمھارا دماغ کام نہیں کرتا) مردانہ وجاہت سے بھرپور پْرکشش پرسنالٹی کا مالک شخص اْس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ “گیٹ لاسٹ فرام ہیر”( دفعہ ہو جاؤ یہاں سے) اْس نے نرس کو کمرے سے جانے کے لیے کہا “اسلام علیکم دادو بی۔۔ کیسی ہیں آپ۔”۔۔وہ ثمینہ بانو کے قدموں میں بیٹھ گیا “آپ یہاں خوش تو ہیں نا ؟؟ نہیں تو چلیں۔۔”۔ ابھی وہ مزید کچھ کہتا مگر صالحہ بیگم اندر آ گئں۔۔ “ارے آفتاب بیٹا مل تو لیا ہوتا ہم سے۔۔۔ وہ تو نرس نے بتایا کے تم آ گے ہو۔۔۔ غزل صبح سے تمھارا انتظار کر رہی ہے آؤ میں تمھیں ملواؤں اْس سے۔”۔۔۔ صالحہ بیگم آغا آفتاب حیات کا بازو پکڑ کر باہر لے گئں۔۔

ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا بھی وہ دادو بی کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔۔۔ جب غزل اْس کے لیے چائے لے کر آئی۔۔ ” اسلام علیکم۔۔۔ یہ چائے لیجیے پلیز میں ذرا ماما کو بلا کے لا تی ہوں۔۔۔” غزل آراء نے چائے کی ٹرے اور لوازمات ٹرالی سے اٹھا کر میز پر رکھے اور صالحہ بیگم کو بْلانے کی غرض سے باہر نکل گئی۔۔ جب صالحہ بیگم اور غزل آراء کمرے میں داخل ہوئیں تو وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔۔۔ شاید وہ اٹھ کر چلا گیا تھا۔۔۔ کتنی ہی دیر وہ سڑکوں پر بلا وجہ گھومتا رہا۔۔ دل بہت بوجھل ہو گیا تھا۔۔ دادو بی کے ساتھ ہونے والا سلوک اْسے ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا اْدھر صالحہ بیگم نے آتے ہی شوہر کو آج والا واقعہ خوب مصالحہ لگا کر سنایا تو انہوں نے طے کر لیا کہ صبح ہوتے ہی اس بی جان نام کی مصیبت سے جان چھڑوا لیں گے اور انہوں نے وہی کیا۔۔۔ وہ تین ہفتوں کے لیے آیا تھا دو ہفتے گزر چکے تھے صرف ایک ہفتہ باقی تھا۔۔ جو کام میں کیسے گزرا پتا ہی نہیں چلا۔۔۔ کل صبح ساڑھے نو اْس کی فلائٹ تھی اس لیے آج رات وہ آغا محتشم حیات اور دادو بی سے آخری ملاقات کے لیے آیا تھا۔۔۔

ٹی وی لاؤنج میں کافی سے لظف اندوز ہوا جا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ خوش گپیوں سے بھی کہ اچانک آغا آفتاب حیات اْٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ “ارے کہاں برخوردار کم سے کم آج رات تو اپنے چچا کے پاس رک جاؤ”۔۔۔ آغا محتشم نے بھتیجے کو لاڈ سے کہا “نہیں انکل میں گھر جاؤں گا کچھ پیکنگ باقی ہے۔۔۔ مگر پہلے ذرا دادو بی سے مل آؤں۔۔ جب سے آیا ہوں ان سے ملنے نہیں گیا آنٹی نے کہا تھا وہ سو رہی ہیں۔۔ میں ابھی مل کہ آتا ہوں۔۔۔ آفتاب نے قدم بڑھانا چاہا مگر آغا محتشم نے اْس کا بازو تھام لیا۔۔۔ “بیٹھو بیٹا کچھ بات کرنی ہے۔۔ بیٹھ جاؤ”۔۔۔ آفتاب وہی صوفے پر اْن کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔ “بیٹا دراصل بی جان یہاں اکتاہٹ محسوس کرتی تھیں اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ انہیں کسی ایسی جگہ چھوڑ آؤں جہاں اْن جیسے بزرگ ہوں اس لیے میں انہیں۔۔۔ اولڈ ہاؤس چھوڑ آیا ہوں”۔۔۔۔ وہ اپنی ۔۔۔۔ وہ اپنی دانست میں بات مکمل کر چکے تھے لہذا خاموش ہو گئے۔۔

Old Mother

Old Mother

“جس ماں نے نو ماہ آپ کو اپنے پیٹ میں رکھا کئی سالوں تک آپ کی پرورش کی آج اْس ماں کو چند دن بنامطلب کے آپ اپنے عالی شان گھر میں نہ رکھ پائے؟؟؟۔۔ جب تمام جائیداد آپ کے نام ٹرانسفر ہو گئی تو انہیں بے کار مال سمجھ کر آپ نے وہاں پھینک دیا۔۔۔ بے حسی اور خود غرضی کی بھی حد ہوتی ہے”۔۔۔ آغا محتشم کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا وہ تو سمجھتے تھے کہ اْن کے اور اْن کی بیوی کے علاوہ یہ راز کوئی نہیں جانتا۔۔۔ ایک بات یاد رکھیے گا آغا محتشم حیات بیج آپ بو چکے ہیں اب فصل کاٹنے کے لے خود کو ابھی سے تیار کر لیجیے آفتاب ایک جھٹکے سے اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ اور آندھی طوفان کی مانند باہر نکل گیا۔۔۔ آغا محتشم زرد چہرہ لیے وہی پڑے رہے کہ یہ چھٹانک بھر کا لڑکا انہں گہری سوچ تھما گیا تھا۔۔۔

محتشم ہاؤس سے نکلتے ہی اْس نے اپنی فلائٹ کینسل کروائی۔۔ اولڈ ہاؤس جا کر دادو بی کو لے آیا اور پندرہ دن اپنے آبائی گھر میں قیام اور پوتے کی خدمت پا کر ثمینہ بانو کی صحت کافی حد تک بحال ہو گئی پندرہ دن کے اندر اْس نے ارجنٹ کاغذات بنوائے اور دادو بی کو اپنے ماں باپ کی بجائے سیدھا اپنے گھر لے گیا۔۔۔ “آپ فکر نہ کریں دادو بی آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔۔۔ میں خود آپ کا دھیان رکھوں گا۔۔۔۔ میں اس گھر میں اکیلا رہتا ہوں۔۔ ماما بابا کے پاس میرے لیے کبھی ٹائم ہی نہیں ہوتا تھا اس لیے میں اپنے گھر میں شفٹ ہوگیا۔۔۔ بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگائے وہ اپنے پوتے کی باتیں سن رہی تھی۔۔

Hassle

Hassle

“دادو بی مجھے آفس جانا ہوتا ہے اس لیے آپ کے لیے ایک نرس تو آپائنٹ کرنی پڑے گی”۔۔۔۔ ثمینہ بیگم کی پیشانی پر کچھ پریشانی کے آثار دیکھ کر وہ پھر بولا۔۔ ” آپ پریشان نہ ہوں۔۔ میں گھر چکر لگاتا رہوں گا اور “اس بار نرس آپ کا بیٹا نہیں بلکہ آغا شہریار حیات کا پوتا آپائنٹ کرے گا۔۔۔۔۔” آفتاب نے دادو بی کے پاؤں دباتے ہوئے اْن کے چہرے پر واضح مسکراہٹ محسوس کی۔۔۔۔۔۔ اور دل ہی دل میں شکر بجا لایا۔

تحریر : اقرا عابد