غمِ حیات کے ماروں پہ مسکرا ساقی

غمِ حیات کے ماروں پہ مسکرا ساقی
جو ہو سکے تو کوئی جام ہی پِلا ساقی
اداس رُت کے مسافر ہیں نہ ہنسا ساقی
ہمارے نام سے حاصل ہے وحشتوں کو فروغ
ہماری ذات ہے دنیا میں اِک عطا ساقی
ہماری بات بڑی معتبر ہے رِندوں میں
ہماری بات کو ایسے نہ تو اُڑا ساقی
اگرچہ لاکھ زمانے نے کروٹیں بدلیں
تمام عمر رہا تیرا آسرا ساقی
یہ کیسے خواب سجائے ہیں تو نے آنکھوں میں
نہیں ہے کوئی زمانے میں با وفا ساقی
تیرے مزاج کو شاید قرار آجائے
غمِ حیات کے ماروں پہ مسکرا ساقی
جو ظلمتوں میں سویروں کی یاد لاتی ہے
پھر ایک بار وہی داستاں سنا ساقی
صلیب و دار کی رسموں کا یہ تقاضا ہے
بدل کے رکھ دے رُخِ وقتِ نارسا ساقی
زمیں پہ ماتمی صبحوں کا قہر ٹوٹے گا
نگر میں جاگتی راتوںکی سُن صدا ساقی
لہو میں ڈوبے ہوئے جسم سرخرو ہو نگے
قبول ہونے کو ہے آخری دعا ساقی
فصیلِ شب پہ کوئی تارا جھلملایا ہے
وہ دیکھ غور سے اِک ہالہء ضیاء ساقی
پلک پلک پہ جلا کر وفا کی قندیلیں
محبتوں کا کوئی گیت گنگنا ساقی
یقیں دلائوں تجھے اب میں کِس طرح ساحل
کہ میں وہی ہوں تیرا درد آشنا ساقی

Sahil Munir

Sahil Munir

ساحل منیر