انجانے دکھ

Sorrow

Sorrow

تحریر:از شاز ملک
غم اور دکھ کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا کوئی عکس نہیں ہوتا کویی رنگ نہیں ہوتا کوئی باس نہیں ہوتی مگر پھر بھی یہ احساس ہوتا ہے کے دل غمزدہ ہے … اخلاقیات کی سرحد پر کھڑے رویئے جب زبان کی حدود پھلانگ کر الفاظ کا روپ دھارتے ہیں تو دل اپنے احساسات کی کسوٹی پر انکی پرکھ کرتا ہے اور دماغ لاشعوری طور پر شعور کی کیفیت میں یہ جان لیتا ہے کے مد مقابل کا ہدف کیا ہے …. اکثر یوں ہوتا ہے کے مبحت بھری فضاؤں میں رویوں کی تلخی گرم ہوا کی طرح زہر گھول کر ہواؤں کو زہریلا کر دیتی ہے فضاؤ ں کو آلودہ کر دیتی ہے اور پھر دل کے شجر پر اگے رشتوں کی نرم کونپلوں کو یہ زہر آگ بنکر جلا کر راکھ کر دیتا ہے اور پھر ایسے عالم میں وجود میں لفظوں کا زہر گھل کر جسم و جان کو نیم مردہ کر دیتا ہے اور پھر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے۔

ایسے میں دل پژ مردہ اور روح درد سے بوجھل ہو جاتی ہے ہر احساس ختم ہو جاتا ہے یقین کی لہریں اعتبار کے سمندر سے لوٹ کر درد کے ساحل پر دم توڑ دیتی ہیں انسان ان لمحوں میں انسانیت سے خوفزدہ ہو جاتا ہے کتنی عجیب بات ہے کے معاشرتی تضاد دیکھ کر سمجھ کر ہی انسان سوچنے سمجھنے کی حس سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تب اس وقت انسان یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں ایسے اندھیروں میں ڈوب جانے لگتا ہے کے جس تیرگی میں اسے خود پر سے گمان کی روشنی کو بھی کھوجنا پڑتا ہے ذرا سی روشنی کی رمق ذرا سی سانس لینے کے عمل کو آسان بنانے کے لئے .. خود کو زندہ انسانوں کی صف میں شامل رکھنے کے لئے بھی تگ و دو کرنی پڑتی ہے …..۔

Allah

Allah

اس وقت انسان رب تعالیٰ کو یاد کرتا ہے سوچتا ہے کے الله تعالیٰ نے انسان سے انسان کے تعلق کو ایسا تو نہیں بنایا ..رشتوں کو ایسے تو نہیں معاشرتی دلی جذباتی حوالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا کے انسان ایک دوسرے کو الفاظ رویوں کے نشتر سے کچوکے لگا کر مار ڈالے خون کے آنسو رلا ڈالے ´ دل کو چیرا چیرہ کر کے روح کا قتل کر ڈالے اور پھر الزامات کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سزا ۓ موت سنا ڈالے اور جینے کو ملی ہر خوشی چھین لے ایسا اختیار تو الله نے کسی بشر کو نہیں دیا تو پھر کیوں بشر اپنی بشریت کو بھلا کر فرعون نمرود بن کر خدایی کا دعویدار بن جاتا ہے ….. جذبوں کے تلاطم میں ڈبو کر قلم کی سیاہی احساسات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالتی ہے تو درد آپوں آپ کاغذ پر بکھر جاتا ہے ۔

وہ درد جو کہیں نہ کہیں ہر دل میں پنا گزین ہوتا ہے
کہیں نہ کہیں ہر دل اس چوٹ سے آگاہ ہوتا ہے
کہیں نہ کہیں ہر دل اس درد کی کسک سے آشنا ہوتا ہے

رشتوں کی بے اعتنایی کا دکھ ´غم سے آشنایی کا دکھ
بے مہر محبتوں کی رسوایی کا دکھ .. اور سب سے بڑھ کر آشنایی سے لے کر نا آشنایی کا دکھ
میرا آپکا ہم سب کے دل ٹوٹنے اور پھر ٹوٹ کر جڑنے کے عمل سے بارہا گزرتے ہیں اور گزرتے رہیں گیں تا دم مرگ

سنو صاحب
گر سچ مانو تو
ہر دل کی تو
یہی کہانی ہے
زندگی کے ساگر میں
فقط
غم کی لہروں کی روانی ہے
اور
کہیں کسی کونے میں ٹہرا
درد کا گدلا پانی ہے

تحریر:از شاز ملک