تم بے قصور ہو

معصومیت سے چور ہو
ابھی تو کھیلنے کے دن تھے
ابھی تو پالنے کے دن تھے
کہاں پھنس گئے تم

ان درندوں کے چنگل میں
کیسے مان گئے تم
ان کی چکنی چپڑی باتوں کو۔۔
کیا فانٹا کی اک ٹافی کافی تھی

یا پھر دس روپے جیب خرچ دیا تھا؟
لیکن میرے بچو!
جو سچ مانو تو
قصور ہر گز نہیں تمھارا۔۔

تمھیں کیا معلوم زندگی کیا ہے؟
تمھیں کیا معلوم
کھیل کھیل میں کون کیا کھیلتا ہے؟
تم نہیں جانتے۔۔

کہ یہ درندے شہر کے
بڑے چاپلوس ہوتے ہیں
تمھیں رجھائیں گے
تمھیں سمجھائیں گے

تمھارے بدن کو دھیرے دھیرے
اپنے منحوس ہاتھوں سے سہلائیں گے۔
کاش کہ تمھارے پاپا
اور تمھاری ممی بھی

یہ خیال بھی رکھتے تمھارا۔۔
کہ کیوں تم کھوئے کھوئے رہتے تھے۔
ایک دم سے کیوں لالچ نے آ گھیرا تھا۔۔
کیوں دل نہیں لگتا تھا تب تمھارا

گھر کے کاموں میں
نہ سکول کے کاموں میں۔
کیوں وقت بے وقت باہر نکلتے تھے۔۔
کیوں چھپ چھپ کر تم روتے تھے۔

کاش تمھاری ممی
کھانے پینے میں
اور کپڑوں کی خوبصورتی میں
تمھیں نہ ڈھونڈتیں۔۔

تمھیں کچھ سکھا دیتیں
قرآن کا علم بھی
اور سنتِ رسول ? کیا ہے؟
یہ بھی بتا دیتیں۔

کون ساتھی ہے تمھارا اور کون ابن ْ الوقت۔۔۔
یہ تربیت بھی لازمی تھی۔
تمھارے پاپا کو چاہیے تھا
بتاتے تم کو

زندگی کی اونچ نیچ۔۔
محبت کیا ہے، ہوس کیا ہے؟
پاتال میں کیسے۔۔
یہ سطوت کیا ہے؟

کوئی چھوئے جو تیرے نازک بدن کو
تو تم جان لو
تمھیں معلوم ہو۔۔
محبت میں یہ لمس

یا پھر ہوس کا مارا۔۔
مگر افسوس سے کہوں گا!
ان کو خود سے نہیں فرصت
اور ان میں نہیں ہے اتنی جرا ¿ت۔

اب جو پھیلا ہے زمانے میں
یہ زہرِ قاتلانہ
سن کر ، پڑھ کر
ہر فرد ہوا ہے دیوانہ۔۔

افسوس کے اظہار سے
دے مارا ہے لفظوں کا تازیانہ۔۔
مگر افسوس ہے ، صد افسوس ہے۔۔
میڈیا ہمارا خاموش ہے۔

کہنے کو تو منصفوں نے
حق کا اعلان کیا ہے
سچ بات کو ماننے کا
انصاف کو پھیلانے کا

بھرپور اعلان کیا ہے۔۔
مگر یہ کیا؟
سردار ہمارے شامل ہیں
ان کاموں کے ماہر ہیں

جرمِ سیاہ کو گورا سمجھیں
اور بکھری کالک کو بس نقطہ بولیں۔۔
پھر یہ کیسی ہے منصفی۔۔
ثبوت بھی ہیںِ گواہ بھی ہیں

اور سب کے سب جانکاہ بھی ہیں۔۔۔
کہوں گا تو بس یہی کہ۔۔
کہیں ثابت نہ ہو جائے اقبال کی یہ بات
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔۔۔

Child Rape

Child Rape

شاعر : اعجاز احمد لودھی