گجرات میں ہندو مسلم فسادات ، 40 افراد گرفتار

Gujarat

Gujarat

نئی دہلی (جیوڈیسک) ہندوستانی ریاست گجرات کے شہر وڈو ڈارا میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے بعد حکام نے رات گئے 40 افراد کو گرفتار کرلیا ہے، جبکہ چار دن کے لیے موبائل انٹرنیٹ اور ٹیکسٹ میسجز سروس بھی بند کردی گئی ہے۔

پولیس حکام کے مطابق شہر میں گزشتہ کئی روز سے جاری کشیدگی کے بعد ہفتے کی شام دونوں مذہبی کمیونٹیوں کے افراد میں تصادم شروع ہوا، جنھوں نے ایک دوسرے پر آزادانہ پتھر برسانے کے ساتھ ساتھ کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی، جس کے بعد پولیس نے آنسو گیس کی مدد سے انہیں منتشر کیا۔

اہندوستان ٹائمز کے مطابق رواں ہفتے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین شروع ہونے والا تنازعہ سماجی ویب سائٹ فیس بک پر کی گئی مسلمانوں کے لیے ایک ناپسندیدہ پوسٹ پر شروع ہوا۔ پولیس کے مطابق شہر میں جاری کشیدگی کے باعث ٹیکسٹ میسجز اور دیگر سماجی میڈیا کو بلاک کر دیا گیا ہے، تاکہ مذہبی کشیدگی کو مزید ہوا نہ دی جا سکے۔

کرائم برانچ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ موبائل انٹرنیٹ، ٹیکسٹ میسجز اور ایم ایم سروس کی بندش کا اطلاق ہفتے کے روز سے کیا گیا۔ جبکہ شہریوں نے بھی سروس کی بندش کی تصدیق کی ہے۔

گجرات کے ہوم سیکریٹری ایس کے نندا نے بتایا کہ گزشتہ رات سے اب تک 40 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور تصادم کو روکنے کے لیے مزید گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اتوار کو وڈوڈارا کی سڑکیں تو سنسان تھیں لیکن انتظامیہ ہائی الرٹ تھی۔

واضح رہے کہ گجرات ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندرا مودی کا آبائی علاقہ ہے، جو صدر باراک اوباما کے ساتھ طے شدہ اپنی ملاقات کے لیے اس وقت امریکا میں موجود ہیں۔ گجرات میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس کی تاریخ ہندو مسلم فسادات سے بھری پڑی ہے۔

سنہ 2002 میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے دوران کم از کم ایک ہزار مسلمان ہلاک ہوئے تھے، اُس وقت نریندرا مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ رواں برس مئی میں ہونے والے انتخابات میں نریندرا مودی کی شاندار فتح نے انتہاء پسند ہندوؤں کے حوصلے بلند کردیے ہیں اور وہ انڈیا کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ دائیں بازو کے ایک ہندو گروہ نے جمعرات کو مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مذہبی تہوار نوراتری میں حصہ لینے کے حوالے سے بھی خبردار کیا تھا۔