گلشن اقبال پارک میں خودکش دھماکہ

Lahore Park Blast

Lahore Park Blast

تحریر : ارم فاطمہ
اب کسے احساس زیاں ہوتا ہے
کب یہ درد لفظوں میں بیاں ہوتا ہے
اب ہے بنی بے حسی شعار اپنا
یہ جہاں اور’ اپنا اور جہاں ہونا ہے
اب تو شاید یہ ہماری زندگی اور معمولات کا حاصہ بن چکا ہے کہ اب نہ تو کوئی احساس جاگتا ہے اور نہ کوئی خلش دل کا حصہ بنتی ہے۔وطن عزیز میں آئے دن ہونے والے پے در پے مختلف حادثات روزمرہ کی بات کی طرح زیر بحث لائے جاتے ہیں۔چاہے وہ ملک میں ہونے والے قتل کے واقعات ہوں یا ٹریفک حادثات۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ دل کہتا ہے کب تک ان دلخراش واقعات پر واویلا کیا جائے یا انسان بیحسی کا رونا روئے جب احساس زیاں ختم ہو چکا ہو۔۔

یہ صرف حکومتی رویہ نہیں ہے یا معاشرے کا مجموعی تاثر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا عمومی رویہ بھی اس حد تک ابنارمل ہو چکا ہے کہ ہم حس رکھتے ہوئے بھی بیحسی کی انتہا پر پہنچ چکے ہیں۔ابھی کل ہی کی بات ہے۔۔۔۔ایک شادی میں شرکت ضروری تھی۔تمام ضروری تیاریاں کین۔ٹائم پر ہال میں پہنچنا ضروری تھا کہ حکومتی اقدامات کے باعث وقت پر ہال کی بتیاں گل کر دی جاتیں ہیں چاہے دلہا دلہن سٹیج پر کھڑے ہی کیوں نہ رہ جائیں۔ابھی راستے میں تھے۔موبائل پر نیوز اپ ڈیٹ پر نظریں تھم سی گئیں !
“گلشن اقبال پارک میں خودکش دھماکہ “”

اتوار کی شام ایسٹر کا تہوار اور وہ تمام معصوم لوگ ایک چھٹی کا دن کھلی فضا میں گذارنے کی غرض سے پارکوں کا رخ کرتے ہیں اس امر سے قطعی انجان کہ شاید کہیں موت تعاقب میں ہو۔۔۔وہ پھول سے معصوم بچے جو نہ جانے کتنی ضد کر کے چھٹی منانے نکلے ہوں گے کب جانتے ہوں گے کہ ان کی ننھی سی جان کو یہ عذاب جھیلنا ہو گا۔۔۔ اگر وہ جانتے تو کبھی گھر سے نکلنے کی ضد نہ کرتے جو کہ آج کل کے حالات میں سب سے محفوظ پناہ گاہ ہے۔

Crying Women

Crying Women

ایک لمحے کے لئے دل رنج سے بھر گیا۔۔۔اس احسس کو لئے ہال پہنچے۔۔ ایک بے حسی کی فضا تھی۔ اکثریت کے چہروں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ انہیں نہیں معلوم ان کے ہم وطنوں پر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کہیں اولاد ماں باپ سے محروم ہوئی تو کہیں ماں باپ اپنی اولاد کو اپنے سامنے دم توڑتا دیکھتے رہے۔۔رسومات ہوتیں رہیں۔کھانے کی رسم بھی پورے آبوتاب کے ساتھ ادا کی گئی جن میں ہ بھی شامل تھے کچھ احساس اور کچھ بیحسی کے ساتھ۔۔۔جو نہیں ہونا چاہیے تھا اس کی سفاکی اپنی جگہ مگر اپنے اقدامات کو مستحسن قرار دینا اور بڑھا کر بیان کرنا ایک حکومتی رویہ بن چکا ہے۔بے آواز لہجے اور بے احساس تاثر کے ساتھ عوام کے دکھ میں شریک ہونے کا عزم اب شاید کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔

اس کا حاصل کیا ؟ کیا یہ نقصان پورے کیے جا سکیں گے جو لوگوں کی زندگیوں میں اک خلا چھوڑ گئے ہیں ؟ کیا کبھی اس ملک میں وہ وقت بھی ہوگا جب لوگ اس احساس کے ساتھ رہ سکیں گے کہ ہم یہاں محفوظ ہیں ؟ کیا کبھی ایسا ہوگا کہ لوگ اپنی خوشیوں کو انسانیت کے دکھ پر ترجیح دیں ؟ بے حسی شاید شعار بن چکی ہے مگر ابھی بھی انسان کا اپنے ہمنفسوں کے لیے ایثار اور مدد کا جذبہ دیکھ کر دل مردہ میں جان پڑ گئی۔ بلا تفریق سب کے لیے کام کرنے اور خون کے عطیات کے ڈھیر لگا دینے والی یہ قوم اپنے احساس انسانیت سے یہ پیغام دے رہی تھی جو دھند میں کرن تھی !

Relationship

Relationship

یہ رشتے احساس کے قائم رہیں سدا
جدا رہ کر بھی نہ رہیں انجان کبھی
ہے وطن عزیز ہمیں عزیزتر بہت
دل سے نکلے دعا نہ ٹوٹے مان کبھی

تحریر : ارم فاطمہ