پتہ نہیں کب۔۔۔؟

Dead Body

Dead Body

تحریر : پروفیسر مظہر
پتہ نہیںکب ارضِ گلستاںمیں برگِ سبزپر طائرانِ خوش الحان کاڈیرہ ہوگا، پتہ نہیںکب دشتِ کرب پرابرِ نیساںکا سایہ ہوگا ، پتہ نہیںکب فہم وادراک کے شناوراربابِ حل وعقداِس قوم کانصیبہ ٹھہریں گے اورپتہ نہیں سیاسی ”بگلابھگتوں”سے کب جان چھوٹے گی ۔پتہ نہیںکب کراچی کی روشنیاںلوٹیں گی ،بی ایل اے کے دہشت گردوںکو نشانِ عبرت بنایا جائے گا،فرقہ واریت کوجَڑ سے اکھاڑاجائے گا ،نَس نس میںسمائے لسانیت کے زہرکو عزمِ صمیم کی جراحی سے صاف کیاجائے گااور مہنگائی کے ”قارونوں”کوبیچ چوراہے لٹکایاجائے گا۔پتہ نہیںسُکھ کی چند سانسوںکوترسی خلقِ خُدا کی دعائیںکب مستجاب ہوںگی اورپتہ نہیںکب یہ قوم بلوغت کی وادیوںمیں قدم رکھے گی کہ فی الحال توہم وہ سدھائے ہوئے بندرہیں جوکبھی ایک اورکبھی دوسرے کی ڈُگڈگی پرناچ ناچ کے نڈھال ہوچکے ۔ہمیںتو بس یہی آتاہے کہ کبھی ”آوے ای آوے ،جاوے ای جاوے”کے نعرے اورکبھی سڑکوںپر ٹائرجلا کرلوڈ شیڈنگ کااستقبال۔

اب کی بارتابشِ آفتاب نے تاب وتواںچھین لی ۔سورج نے وہ جلوے دکھائے کہ کشتوںںکے پشتے لگ گئے ،مردہ خانوںمیں جگہ باقی نہ بچی ۔صرف کراچی میںتین دنوںمیں ساڑھے چارسو سے زائد افرادلقمۂ اجل بنے اورتین ہزارسے زائدافراد کا”ہیٹ سٹروک”کا علاج ہوا لیکن حکمرانوںکے پاس ایک ہی جواب کہ ماہِ مقدس کے پہلے ہی روزے پربجلی کی کھپت میںاچانک چار ہزارمیگاواٹ کااضافہ ہوگیاجس نے لوڈشیڈنگ کے سارے نظام کوتَلپٹ کرکے رکھ دیا۔کیازندہ قوموںکایہی وطیرہ ہوتاہے کہ گرفتارِبلا ہونے تک خوابِ غفلت میں رہیں؟۔ سچ تویہی ہے کہ ہمارے پاس الفاظ کی وہ سواریاںہی نہیں

جن پر اپنے” ممدوحین کی شان” کوسوار کرکے فضاؤںمیں بکھیر سکیںپھربھی تمام ترنیک تمنائیں حکمرانوںکے ساتھ۔ ترقی کاسفر بجا، میٹرواور گرین لائین منصوبے بھی سرآنکھوںپر لیکن بصدمعذرت کیافرق ہے پیپلزپارٹی کے گزشتہ اورنواز لیگ کے موجودہ دورِحکومت میں؟۔ راجہ رینٹل نے کہاتھا دسمبر 08ء تک بجلی کابحران ختم ہوجائے گالیکن پورے عہدِ حکومت میںبحران پہلے سے فزوںتر ،خادمِ اعلیٰ نے بھی مختلف اوقات میںچھ ماہ سے دوسال کاوقت دیا۔ دوسال کاعرصہ بھی گزرچکالیکن خادمِ اعلیٰ کانام اب بھی میاںمحمد شہبازشریف ۔سچ کہاہے چودھری نثاراحمد نے کہ حکومت کااصل مقابلہ سیاست دانوںسے نہیںلوڈشیڈنگ سے ہے لیکن یادرہے ککہ قوم میںتاب وتواںباقی نہیں۔

Load Shedding

Load Shedding

اگرلوڈ شیڈنگ کے عفریت پرقابو نہ پایاجا سکاتو دسمبر 17ء دور، بہت دور،آمدہ بلدیاتی انتخابات میںہی نتیجہ سامنے آجائے گا۔اگر کوئی یہ سمجھتاہے کہ عابدشیر علی یاخواجہ آصف لوڈشیڈنگ کے عفریت پرقابو پالیںگے توغلط ،بالکل غلط۔اُن کی نیتوںپر شک نہیںلیکن ”لائین لاسز”اور بلوںکی وصولی اُن کے بَس کاروگ نہیں۔اب جب کہ سیاسی وعسکری قیادت کے تعلقات اپنی رفعتوںکو چھورہے ہیںاور افہام وتفہیم کی ایسی فضاء کہ یقین نہ آئے ، توکیوں نہ واپڈاکو کرپشن سے پاک کرنے کی ذمہ داری بھی فوج کے سپردکر دی جائے ۔آخر 1998ء میںبھی توواپڈاکرپشن کے خاتمے کے لیے فوج ہی کا سہارالیا گیاتھا۔ عابدشیر علی صاحب دوسالوںمیں دس ہزارمرتبہ بلوںکی عدم ادائیگی اور لائین کاسز کارونارو چکے لیکن معاملہ بدستوروہیں۔

سیاسی جماعتوںکی توکچھ مجبوریاںہوتی ہیںاوروہ ایک حدسے آگے جابھی نہیںسکتیںلیکن یہاںیہ معاملہ آن پڑاکہ پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے ہو بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینامسلمہ حقیقت کہ” لاتوںکے بھوت باتوںسے نہیںمانتے ” اِس لیے اِن ”بھوتوں” کوبھی فوج کے سپردکر دینے میںہی عافیت ہے ۔اگر نیتوںمیں فتورنہ ہوتو فرشتے بھی آسمانوںسے مددکے لیے اترآتے ہیں۔ ہمیںسپہ سالارکی نیت میںکوئی شک ہے نہ اُن کے عزم بالجزم پہ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وہ کام جوکسی اورکے بس کاروگ نہیںتھا ،فوج کی سربراہی میںرینجرز نے کردکھایا۔ آج کراچی میںبلاامتیاز کرپشن کے مگرمچھوںکو پکڑاجا رہاہے اورکوئی دن جاتاہے جب کرپشن کاابرِسیاہ تاب چھَٹ جائے گااورکراچی ایک دفعہ پھرروشنیوں کے شہرمیں ڈھل جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ مافیازکے سرپرستوںکی راتوںکی نیندیںحرام ہوچکیں۔ محترم آصف زرداری توگزشتہ چھ ماہ سے اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات کی گہرائی کومحسوس کررہے تھے لیکن اُن کاخیال تھاکہ شایدمعاملہ ایم کیوایم تک ہی محدودرہے گا لیکن جب پندرہ جون کوسندھ بلڈنگ کنٹڑول اتھارٹی کے ڈی جی منظورقادر کاکا کے دفترپر رینجرزنے چھاپہ ماراتواپنے گرد شکنجہ کستادیکھ کرزرداری نہ صرف پھَٹ پڑے بلکہ بازاری زبان پراتر آئے اوریہاں تک کہہ دیا ”ہمیںتنگ نہ کیاجائے ورنہ اینٹ سے اینٹ بجادیںگے”۔

Rangers

Rangers

حالانکہ فوج یا رینجرزنے نہ توزرداری صاحب کے معاملات میںبراہِ راست دخل اندازی کی اورنہ ہی سندہ حکومت کوتنگ کیا۔ یہ تواپیکس کمیٹی میں طے ہوچکا تھاکہ مافیاز کی سرپرستی کرنے والوںکوبھی گرفتارکیا جائے گا۔جن 26 افرادکی فہرست ڈی جی رینجرزکی طرف سے سندھ حکومت کودی گئی وہ سبھی کسی نہ کسی حوالے سے بھتہ خوروں ،ٹارگٹ کلرز، دہشت گردوں، کالعدم تنظیموںاور لینڈمافیا کی سرپرسی ہی میںملوث تھے لیکن زرداری صاحب کے حکم پرسندھ حکومت نے اِن کے خلاف ایکشن لینے یاانکوائری کرنے سے صاف انکارکر دیاجس پررینجرز حرکت میںآئی اوراِن لوگوںکی گرفتاریاں شروع کردیں۔

اب پتہ نہیںکیوں وزیرِاعلیٰ سندھ یہ کہہ رہے ہیںکہ رینجرزاپنے اختیارات سے تجاوزکررہی ہے ۔ اول تویہ اختیارات سے تجاوزہے ہی نہیںاورجو ایکشن بھی لیا جا رہاہے وہ آئین وقانون کے دائرے میںرہ کرہی لیاجا رہاہے لیکن اگریہ اختیارات سے تجاوز ہے بھی توقوم کودل کی گہرائیوںسے منظورکہ کوئی توہے جو کرپشن کے مگرمچھوںپر ہاتھ ڈالنے کی سکت رکھتاہے ۔ ویسے بھی ڈی جی رینجرزنے جوکچھ کہاوہ نیانہیں ،یہ سب کچھ توسپریم کورٹ 2013ء میںکہہ چکی البتہ عمل درآمداب شروع ہوا۔ شنیدہے کہ ایف آئی اے نے سندھ حکومت کے سات صوبائی وزراء ، چار سابق وزراء ، پیپلزپارٹی کے آٹھ اراکینِ قومی اوربیس صوبائی اسمبلی کے علاوہ سندھ حکومت کے 100 سے زائد بیوروکریٹس کے ملک سے باہرجانے پرپابندی لگادی ہے

امیگریشن حکام کویہ ہدایت کردی ہے کہ اگریہ لوگ ملک سے زبر دستی باہرجانے کی کوشش کریںتو انہیںگرفتار کرلیا جائے ۔یہ وہی لوگ ہیںکہ جوزمینوںپر قبضے اورجرائم پیشہ گروہوںکی سرپرستی میںملوث ہیں۔ دوسری طرف اِن لوگوںنے ضمانت قبل ازگرفتاری کے لیے عدالتوںسے رجوع کرلیا ہے ۔اگر یہ سب سچ ہے توآمدِبہار کی اُمید کی جاسکتی ہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر مظہر