حرم کعبہ

Kaaba

Kaaba

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
رات کا شاید آخری پہر رخصت چاہ رہا تھا اور میں مکہ شریف کے آرام دہ ہو ٹل کے ٹھنڈے کمرے میں نرم گداز بستر پر سو رہا تھا کہ اچانک میرے کا نوں میں سرگو شی ہو ئی یہاں آکر بھی ہم سے دور ہو اور پھر میرے خوا بیدہ اعصاب بیداری میں ڈھلتے چلے گئے’ میں اٹھا وضو کیا اور بر ق رفتاری سے حرم کعبہ کی طرف دوڑا’ اُس حرم کعبہ کی طرف جہاں رات کی سیا ہی نے داخل ہو نے کی کبھی جرا ت نہ کی ‘جہاں صدیوں سے صرف اجا لوں کا ہی راج ہے اور روز محشر تک روشنیاں اور نور کے فوارے اِسی طرح پھو ٹتے رہیں گے میرا ہو ٹل باب عبدالعزیز کے عین سامنے تھا۔

میں باب عبدالعزیز سے گزر کر حرم شریف کے روشن صحن میں داخل ہو رہا تھا نیند بیداری اور نشہ سرور سے میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے اچانک فجر کی اذان سے فضا ئوں میں روح پرور ارتعاش سا بر پا ہوگیا روح بلالی کی شیرینی میں ڈوبے عطر بیز کلما ت میری روح اوربا طن کے عمیق ترین گوشوں میں نشے سرور کے دریا بہا نے لگے اذان کے کلما ت سے میرے با طن کے اندھیروں میں سینکڑوں نو رانی چراغ جلنے لگے میرے جسم کے پور پور میں لرزش سی طا ری ہو نے لگی اللہ کی کبریائی کا اظہا ر چاروں طرف جا ری تھا اذان کے مشکبو کلما ت کی پھوار جا ری تھی اذان بلا لی نے عجب سماں باندھا ہوا تھا صبح کا وقت اذان کے الفاظ حرم کعبہ کے در و دیوار سفیدو سبز نو ر میں نہا ئے مینا ر غلا ف کعبہ سے ٹکراتے الفاظ دیوانہ وار دلوں کو مسحور کر رہے تھے اور جب میری نظر خا نہ کعبہ پر پڑی تو ہمیشہ کی طرح میں نشے مستی میں غر ق ایسی کیفیت کہ الفاظ ساتھ نہ دے سکیں ‘روشنیوں میں ڈوبے صحن حرم کے درمیان میں خالق کائنات کے سیا ہ پو ش گھر کا جا ہ و جلا ل اچانک مجھے لگا خا لق کائنات کا نور آسمان سے اتر کر حرم کعبہ میں پھیل گیا ہے خدا کا پیما نہ رحمت خو ب چھلک رہا ہے چاروں طرف خدا کے کرم کی صدائیں جا ری ہیں۔

ما نگ لے جو مانگتا ہے یہ دعائوں کی قبو لیت کا وقت ہے یہ گنا ہوں کی بخشش کا وقت ہے ‘خدا کی رحمت مو سلا دھار بر سات کی طرح بر س رہی ہے اور گنا ہ گا روں کے گنا ہ خوب دھل رہے ہیں اِس خیال کے ساتھ ہی میری آنکھوں میں بھی سیلا ب کروٹیں لینے لگا اور پھر یہ خیا ل کہ اے پروردگار تو دلوں کے نہاں خانوں میں دبی ہو ئی خوا ہشوں دعائوں سے بھی خوب واقف ہے تو اُن خیالوں سے بھی واقف ہیں جو ابھی ہمارے دلوں میں نہیں آئے اے ماں سے زیا دہ شفیق رب ہم تو دعا مانگنے کا طریقہ بھی نہیں جا نتے تو بہتر جانتا ہے’ میں نشے میں ڈوبا خا نہ کعبہ کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں ایک نماز کا ثواب دیگر مسا جد میں ایک لا کھ نمازوں سے بھی بڑھ کر ہے کچھ دوست حساب لگا تے ہیں کہ مسجد الحرام میں ایک نماز کی فضیلت پچپن سال چھ ماہ بیس دن کی نمازوں کے برا بر بنتی ہے اِسطرح ایک دن کی پا نچ نمازوں کا ثواب دوسو ستر سال نو مہینے دس دن کی نمازوں کے برا بر ہے اِس تصور کے ساتھ ہی جسم و روح میں خو شی اورخو شبو کے قافلے اترنے لگتے ہیں اور بیت اللہ کے صحن میں عقیدت مندوں کے ریلے رنگ و نور کے سیلا ب میں لہروں کی طرح اٹھ رہے تھے یوں لگ رہا تھا جیسے آسمان کے سارے ستا رے رنگ و نور کے سیلاب کے ساتھ حرم کعبہ کے صحن میں حرم کعبہ کو بو سے دینے اُتر آئے ہیں کعبہ کا صحن بقعہ نور بناہوا تھا کعبہ کے درو دیوار میں فروزاں لا کھوں بر قی قمقموں اور فانوسوں کی دلکش سحر انگیز روشنی کعبہ کی طرف لپک لپک کر جا رہی تھی برآمدوں کی چھتوں پر انتہا ئی طا قت ور سر چ لا ئیٹس دہکتے سورجوں کی کی طرح لگ رہی تھیں بلند و با لا مینا روں میں سفید اور سبز روشنیوں کے ملا پ نے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی روشنی چاروں طرف پھیلا رکھی تھی سفید اور سبز رنگ کے نور نے انتہا ئی دل آویز نو ر کا سماں باندھا ہوا تھا حر م کعبہ زمین سے آسمان تک رنگوں روشنیوں میں نہا یا ہوا تھا کعبہ کا حرم دیوانوں سے بھرا ہواتھا اُن کے سالوں کے خوا بوں کی تعبیر کا دن تھا۔

بیت اللہ کی تہجد اور فجر کی نماز دیوانوں نے برسوںاِس خوا ب کو دیکھ رکھا تھا اور آج اِس خوا ب کی تعبیر وہ جا گتی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے دیوانوں کو یقین نہیںآرہا تھا کہ کر ہ ارض کے سب سے خو بصورت منظر کا حصہ ہیں یہاں آنے کی یہاں سانس لینے کی نماز پڑھنے کی خواہش کس کے دل میں نہ مچلتی ہو گی لیکن قسمت جس کو یہاں لا تی ہے یہ یہاں آنے والا ہی محسوس کر سکتا ہے دیوانے کعبہ کے گرد ایک ہی مرکز کے مدار میں گر دش کر رہے تھے سب نے جھو لیاں پھیلا رکھی تھیں سب کے جسم کشکول بن چکے تھے اور جسم کا رواں رواں دعا میں ڈھل چکا تھا اِس طرح دیوانے صفا اور مروا کی مقدس پہا ڑیوں کے درمیان چل رہے تھے دیوانوں کے یہ قافلے صدیوں سے اِن مقدس پہا ڑوں کے درمیان اِسی طرح چل رہے تھے اور قیامت تک اِسی جو ش سے چلتے رہیں گے رب کا ئنات کو اپنے محبوب بندوں کے بعض اعمال یا ادائیں اِسطرح بھا تی ہیں کہ پھر وہ انہیں قیامت تک کے لیے عبا دت کا حصہ بنا دیتا ہے۔

صفا مروا کی پہا ڑیوں کے دوران چلتے دوڑتے سب کو ہی حضرت بی بی ہا جراں کی یا د آتی ہو گی پیا س سے بے حال حضرت اسما عیل کی پیاس اور ایڑیاں رگڑنے کا منظر یاد آتا ہوگاور پھر خلیل اللہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسما عیل کا خا نہ کعبہ کی دیواروں کو بلند کر نا اور پھر خا لق کا ئنا ت کو اپنے اِن محبوب بندوں کی ادائیں اِس طرح پسند آئیں کے اِن کو عمرے حج کا حصہ بنا دیا چاروں طرف لبیک اللھم لبیک کی صدائیں پھیل رہی تھیں میرے دل و دما غ میں عجیب سی ہلچل مچی ہو ئی تھی کر ہ ارض کے نیک ترین بند ے اپنے خدا کے حضور حاضری دینے آئے ہو ئے تھے اِن میں ایک سے بڑھ کر ایک انسان جو جب بھی ہا تھ اٹھا تا ہو گا تو در رحمت چھلک پڑتا ہو گا اور پھر نماز فجر کے لیے صفیں درست ہو نے لگیں میں بھی صحن کعبہ میں نماز کے لیے کھڑا ہو گیا خا نہ کعبہ نظروں کے عین سامنے’ آہ یہ سچ مجھے یقین نہیں آرہا تھا پھر نماز شروع ہو ئی قرآن پاک کے روح پرور کلمات اور پھر جب سجدے میں گئے تو خو شی سے میری آنکھوں سے آبشار اُبل پڑے۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956

ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org