خیر البشر علی حیدر

Hazrat Ali

Hazrat Ali

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
قریش مکہ کے مظالم سے تنگ آکر رحمتِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے ۔ اہلِ مکہ مہاجرین مدینہ منورہ میں پر دیسی تھے اِس لیے رسول دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن مہاجرین اور انصار کو ایک جگہ کیا ۔ اور ان کے درمیان رشتہ مواخاة کا عظیم سلسلہ قائم فرمایا اِ س لیے پہلے مہاجرین ِ مدینہ منورہ میں بطور مہمان تھے لیکن اب ان سے رشتہ اخوت و یگانگت میں بندھ گئے ۔ اِس رشتہ کے بعد اِن کے دلوں میں ایسی بے مثال اور حقیقی محبت اور خیر خواہی پیدا ہو گئی کہ حقیقی بھائیوں میں بھی نہیں ہو سکتی تھی ۔ اِس عظیم موقع پر ایک نوجوان جاں نثار کو شافع دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ویسے ہی چھوڑ دیا اِن کا رشتہ کسی سے قائم نہ فرمایا ۔ یہ جاں نثار نوجوان تھوڑا سا آزردہ ہو گیا آگے بڑھ کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ۖ نے تمام اصحاب کے درمیان مواخوة قائم کر ائی ہے

لیکن میری مواخاة کسی سے بھی نہیں کرائی ‘سر تاج الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفقت سے مسکرائے اور اس جانثار نوجوان کا ہاتھ محبت سے پکڑ لیا اور شفقت بھری نظروں سے اُسے دیکھتے ہو ئے فرمایا تم میرے بھائی ہو اس دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی رسول اللہ ۖ کی زبان مبارک سے یہ سن کر نوجوان فرطِ مسرت سے بے قابو ہو گیا ہجرت کی شب مکہ سے روانگی کے وقت رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسی نوجوان کو اپنے بستر مبارک پر استر احت کا حکم دیا اور خود حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ سوئے مدینہ چل پڑے کفار مکہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاشانہ اطہر کا گھیرا کر رکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کر دیں گے(نعوذباللہ ) اِس ہولناک رات میں اِس نوجوان کا موت کے خوف سے بے نیاز ہو کر محو استراحت ہو نا اِس بات کاعملی ثبوت ہے کہ یہ نوجوان آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کر تا تھا

پوری زندگی ہر لمحہ سائے کی طرح رحمت دو جہاں کے ساتھ لگا رہا کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا دے اِس عظیم جا نثار خوش بخت نوجوان جن کو محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا اور آکرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور جن کی نسبت کو اِس نسبت سے تشبیہ دی جو حضرت موسٰی کو حضرت ہارون سے تھی سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن ابی طالب تھے ۔ سیدنا علی کی ولادت ١٣ رجب ٣٠ عام الفیل بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دس سال پہلے جمعة المبارک کے دن مکہ مکرمہ خانہ کعبہ کے اندر ہو ئی یہ سعادت صرف اور صرف آپ کے حصے میں آئی ۔ حضرت ابو طالب کی تنگدستی دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا بوجھ ہلکا کر نے کی تجویز سوچی کہ جب حضرت علی تھوڑے بڑے ہو ئے تو ان کو اپنی کفالت میں لے لیا گویا وہ 5سال سے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن اقدس سے وابستہ ہو گئے اور آغوش ِ نبوت میں پر ورش اور تربیت پائی۔

Islam

Islam

نبوت کے بعد جن چار نفوس قدسی کو سب سے پہلے اسلام کا شرف حاصل ہوا اِن میں سے ایک حضرت علی تھے ۔ آپ کا اسم گرامی علی ہے مشہور القاب حیدر۔ مرتضٰی اور اسد اللہ ہیں کنیت ابو الحسن اور ابو تراب تھی ابو تراب کیونکہ محبوب خدا نے کہا تھا آپ اِس لیے اس کو بہت عزیز جانتے تھے کیونکہ یہ عطیہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی ۔ حسب نسب کے لیے اتنا کافی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی چچا حضرت ابو طالب بن عبدالمطلب کے فرزند تھے والدہ کا نام فاطمہ بنتِ اسد بن ہاشم تھا اِس طرح حضرت علی ماں باپ دونوںطرف سے ہاشمی تھے ۔ حضرت ابو طالب نے قریش کے مقابلے میں شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جس طرح پرورش کی سرپرستی اور حمایت میں تن من کی بازی لگا دی وہ تاریخ اسلام کا ایک روشن و عظیم باب ہے اِسی طرح حضرت علی کی والدہ نے بھی حضور پر نور کی نہایت محبت اور خلوص سے سر پرستی اور پر ورش کی

جب انہوں نے وفات پائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قمیض مبارک کا کفن پہنایا اور میت کے سرہانے کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا اے میری ماں اللہ آپ پر رحم کرے آپ میری ماں کے بعد ماں تھیں آپ خود بھوکی رہتی تھیں مگر مجھے کھلاتی تھیں آپ کو خود لباس کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آپ مجھے پہناتی تھی گویا حضرت علی کے والد اور والدہ ماجدہ دونوں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مربی اور محسن تھے حضرت علی صرف ابن عم مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہیں تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مواخاتی بھائی بھی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگر سیدة النسا حضرت فاطمہ الزھرہ کے شوہر بھی ۔قبول اسلام کے بعد حضرت علی نے بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کر دی ایک دن حضرت ابو طالب نے انہیں نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا بیٹا یہ کیا دین ہے جس پر تو چل رہا ہے

تو انہوں نے کہا اباجان میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لا یا ہوں اور ان کی تصدیق کی ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے ابو طالب نے کہا محمد تمھیں بھلائی کے سوا کسی چیز کی طرف نہیں بلائیں گے تم ان کے ساتھ لگے رہو ۔ نبوت کے بعد رسول اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو ہاشم کو کھانے پر بلایا تو چالیس آدمی مدعو تھے کھانے کے بعد سرور دو عالم ۖ نے جب دین کی دعوت دی تو سب خا مو ش رہے لیکن حضرت علی نے اٹھ کر عرض کی اگرچہ میری عمر کم ہے تاہم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دوں گا اس وقت آپ کی عمر تیرہ برس تھی فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی ان دس ہزار سرفروشوں میں شامل تھے جن کو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمر کابی کا شرف حاصل ہوا اور جن کے بارے میں سینکڑوں سال پہلے یوں پیش گوئی کی گئی تھی ۔ خداوند سینا سے آیا اور شعر سے ان پر طلوع ہوا کوہِ فاران سے وہ جلوہ گر ہوا دس ہزار قدوسوں کے ساتھ آیا اور اس کے ہا تھ ایک آتشیں شریعت تھی

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد کعبہ میں داخل ہو کر بتوں کو توڑا تو تانبے سے بنا ہوا سب سے بڑا بت رہ گیا کیونکہ یہ لو ہے کی ایک سلاخ کے ساتھ زمین میں پیوست تھا پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کے کندھوں پر چڑھ کر تو ڑنا چاہا لیکن وہ نہایت مضبوط ہونے کے باوجود حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کا بار نہ سہہ سکے اِس پر محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو اپنے شانہ اقدس پر چڑھا کر اس بت کو گرانے کا حکم دیا انہوں نے سلاخ اکھاڑ کر اس بت کو گرا دیا ۔ اسلامی تاریخ کے نامور سپوت حضرت علی کو خدا نے بہت سارے امتیازات اور اعزازات سے نوازا ہے ان میں سے کوئی ایک اعزاز دنیا بھر کی ناموری اور آخرت کی سر خروئی کے لیے کافی ہے۔

شیرِ خدا جنہیں برس ہا برس تک محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش نصیب ہوئی نو عمر لوگوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا جن کی پیشانی پر دور جہالت میں بھی بت پرستی کا داغ نہ لگا جو خدا کے آخری نبی کے چچا زاد بھائی ہیں ۔ آپ کی شادی اُس جگر گو شہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سے ہوئی جن کے احترام میں سردار الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو جایا کرتے تھے ۔ فتح خیبر کا عظیم اعزاز بھی آپ کا مقدر بنا ۔ جن صاحبزادوں میں ایک امام حسن ہیں جو اسلام اور امت کے وسیع تر مفاد اور اتحاد کے مسند اقتدار سے دستبردار ہو نے کا حوصلہ رکھتے ہیں

دوسرے شید الشہداء امام حسین ہیں جو آبروئے اسلام کی حفاظت اور ملتِ اسلامیہ کی وحدت برقرار رکھنے کے لیے حکمران وقت کے مد مقابل آنے کا جذبہ رکھتے ہیں علی جو ہر غزوہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش بدوش رہے جن کا شمار عشرہ مبشرہ اصحاب بدر احد شرکائے خندوق اور عظیم خلفائے راشدین میں ہو تا ہے علی جن کو ایک سے زائد بار زبان پیغمبر سے مومن اور جنتی ہو نے کی بشارت ملی آپ کے ہی کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا علی تمھاری ہڈیوں کے گودے تک ایمان بھرا ہے آپ کے ہی بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے اور میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے اور میں علی سے ہوں اور علی مُجھ سے ہیں۔

Prof Abdullah Bhatti

Prof Abdullah Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956