سیرت و شہادت مراد رسول ۖسیدنا حضرت عمر فاروق

 Hazrat Umar Farooq

Hazrat Umar Farooq

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی

عمر کے ایمان سے اسلام کو شوکت ملی
اہل ایمان کوسکونِ قلب کی دولت ملی

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔تواے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہونگے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھرجوکچھ تم حکم فرمادواپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اورجی سے مان لیں”۔(سورة النساء آیت٦٥) اس آیت کریمہ کے شان نزول یہ ہے کہ دوآدمی سرکارمدینہ راحت قلب وس ینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس اپنا کیس لے گئے۔

سرکارمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کا فیصلہ کردیاجس کے خلاف فیصلہ ہواتھا اس نے کہاہمیں حضرت عمر کے پاس بھیجورسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاہاں پس چلے حضرت عمر کی طرف جب حضرت عمر کے پاس آئے جس کے حق میں یہ فیصلہ ہواتھا اس نے کہااے ابن خطاب آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے حق میں فیصلہ کیاہے اس نے کہاہمیں حضرت عمر کی طرف بھیجودوآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آپ کی طرف بھیج دیاحضرت عمر نے جس کے خلاف فیصلہ ہواتھاسے کہاکیاایسی ہی بات ہے؟ اس نے کہاہاں !پس حضرت عمر نے کہابس اپنی اپنی جگہ بیٹھومیں آکے تمہارافیصلہ کرتاہوں ۔آپ تلوارلیکران کی طرف نکلے جس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہاتھاہمیں حضرت عمر کی طرف بھیج دو۔اس کاسرقلم کردیادوسرابھاگ کررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس پہنچااس نے عرض کیارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خداکی قسم حضرت عمر نے میرے ساتھی کوقتل کردیااوراگرمیں بھی جلدی سے نہ نکلتا تومجھے بھی قتل کردیتے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایامیں تویہ گمان نہیں کرتاکہ حضرت عمر مومنین کے قتل کی جرأت کریں ؟اس پراللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت “فلاوربک لایومنون”الایہ نازل کردی پس رسول اللہۖ نے اس بندے کاخون باطل قراردے دیااورحضرت عمر کواس جرم سے بری قراردیا۔(بحوالہ تفسیردرمنثورج٢،تفسیرابن کثیرج١۔تفسیرفتح القدیر)
جانشین رسول ،امام العادلین ،امیرالمؤمنین،ناصردینِ مبین،فاتح اعظم سیدُناعمرفاروق کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے تیرہ ١٣برس بعدمکة المکرمہ میں ہوئی آپ کانام ”عمر”لقب”فاروق”کنیت”ابوحفص” ہے۔آپ کے والدکانام خطاب اوروالدہ کانام حنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ ہے ۔آپ کاشمارعشرہ مبشرہ صحابہ کرام میں ہوتاہے ۔عشرہ مبشرہ وہ صحابہ کرام جنہیں آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کی حیات میں ہی جنت الفردوس کی بشارت دی تھی آپ کاخاندان اپنی ذاتی وخاندانی وجاہت کے اعتبارسے نہایت ممتازاوربلندمرتبہ کاحامل تھا۔آپ کاسلسلہ نسب آٹھویں پشت میں حضورنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے جاملتاہے۔آپ کاسلسلہ نسب ” عمربن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوئی ہے”۔آپ کاحلیہ مبارک،عادات ،رہن سہن بلکہ زندگی کاہرایک پہلوحضورنبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمکے اسوۂ حسنہ کانمونہ تھا۔روایات میں آپ کاحلیہ مبارک کچھ یوں ہے ۔”گندمی رنگ،سفیدی اورسیاہی کاامتزاج،جس میں ہلکی سرخی نمایاں تھی،رخسارزیادہ بھرے ہوئے نہ تھے ،داڑھی مبارک گھنی،درازقدجوہزاروں آدمیوں میں بھی نمایاں نظرآئے ،جسم دبلاپتلاچال میں متانت ،سرمبارک کے بال ہلکے ،شخصیت میں ایسارعب کہ جودیکھے وہ متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکے ”۔

فضا ئل ومنا قب
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب حضرت عمرفاروق اسلام لائے تومشرکین نے کہاآج ہماری طاقت آدھی ہوگئی اس وقت حضرت عمر کے حق میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (تفسیرمظہری ،درمنثور)ترجمہ”اے غیب کی خبریں بتانے والے اللہ تمہیں کافی ہے اوریہ جتنے مسلمان تمہارے پیروہوئے۔(الانفال)
حضرت ابوسعیدخدری سے مروی ہے کہ حضورنبی کریمصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمنے ارشادفرمایا”میرے صحابہ کوبُرامت کہواگرتم میں سے کوئی احدپہاڑکے برابربھی سوناخرچ کردے توپھربھی وہ ان کے سیربھریااس سے آدھے کے برابربھی نہیں پہنچ سکتا(بخاری)حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا”جس نے میرے صحابہ کوگالی دی تواس پراللہ تعالیٰ کی ،تمام فرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت ہے”۔حضرت ابوسعیدخدری سے روایت ہے کہ حضورنبی کریمصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمنے ارشادفرمایا”ہرنبی کے لئے دووزیرآسمان والوں میں سے اوردووزیرزمین والوں میں سے ہوتے ہیں ۔سوآسمان والوں میں سے میرے دووزیر،جبرائیل ومیکائیل ہیں اورزمین والوں میں سے میرے دووزیرابوبکراورعمر ہیں۔(ترمذی) حضرت عبداللہ بن حنطب سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمنے حضرت ابوبکراورحضرت عمر کودیکھاتوفرمایا:یہ دونوں (میرے لئے) کان اورآنکھ کی حیثیت رکھتے ہیں”۔(ترمذی) آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمکاارشادگرامی ہے ۔”اگربالفرض(میں خاتم النبین نہ ہوتااور) میرے بعدکوئی نبی ہوتاتووہ (حضرت)عمربن خطاب(رضی اللہ تعالیٰ عنہ)ہی ہوتے ۔(جامع ترمذی،مسندامام احمد)حضرت جابربن عبداللہ فرماتے ہیں ”میں نے امیرالمومنین حضرت سیدناابوبکرصدیق سے بڑھ کرکسی کورعایاکے حق میں بہتراورمہربان نہیں دیکھااورامیرالمومنین حضرت سیدعمرفاروق سے بڑھ کرکسی کوکتاب اللہ(قرآن پاک)کاعالم ،دین کافقیہہ ،حدوداللہ کانافذکرنے والااوررعب ودبدبہ والانہیں دیکھاہے۔(اسدالغابہ)

قبولِ اسلام
آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمنے جس وقت نبوت کااعلان کیااس وقت آپ کی عمرقریباًستائیس برس تھی ۔آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے جب توحیدکی دعوت دی توآپ نے ابتداء میں اس دعوت کوقبول کرنے سے انکارکردیا۔آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمنے اللہ عزوجل سے دعافرمائی ”یااللہ!عمربن خطاب یاعمربن ہشام دونوں یادونوں میں سے ایک کے ذریعے اسلام کی خدمت فرما”۔آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی دعاشرف قبولیت کوپہنچی اورحضرت سیدناعمرفاروق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔حضرت سیدناعمرفاروق چالیس مردوں اورگیارہ عورتوں کے بعداسلام لائے ۔آپ کے قبولِ اسلام سے پہلے آپ کے بہنوئی حضرت سعیدبن زید اورآپ کی ہمشیرہ حضرت فاطمہ بنت خطاب بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے ۔انہوں نے قبولِ اسلام کوخاندان کے دیگرلوگوں اورحضرت سیدناعمرفاروق سے چھپارکھاتھااسی طرح حضرت سیدناعمرفاروق کے خاندان کے ایک اورشخص حضرت نعیم بن عبداللہ بھی اسلام قبول کرچکے تھے ۔آپ اسلام قبول کرنیوالوں کے ساتھ نہایت سختی سے پیش آتے ۔ایک دن آپ اسی کیفیت میں نیام سے تلوارنکالے جارہے تھے کہ راستے میں حضرت نعیم بن عبداللہ سے ملاقات ہوئی ۔حضرت نعیم بن عبداللہ نے جب آپ کواس حالت میں دیکھاتوپوچھاکیوں عمر کہاں کاارادہ ہے ؟آپ نے کہامیں محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کوقتل کرنے کی غرض سے چلاہوں ۔حضرت نعیم بن عبداللہ نے حضرت سیدناعمرفاروق کی بات سن کرکہاکہ عمر!تمہیں تمہارانفس دھوکہ دے رہاہے تم کیاسمجھتے ہوکہ اگرتم نے محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کوقتل کردیاتوبنی عبدمناف تمہیں چھوڑیں گے ،تم زمین پرچلنے کے قابل بھی نہ رہوگے اورمحمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کوقتل کرنے سے پہلے اپنے گھرکی خبرلوتمہاری بہن اورتمہارے بہنوئی نے اسلام قبول کرلیااورانہوں نے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمکی پیروی اختیارکرلی ہے ۔حضرت سیدناعمرفاروق نے جب یہ بات سنی توراستہ بدل کراپنی بہن حضرت فاطمہ بنت خطاب کے گھرروانہ ہوگئے ۔آپ کی بہن اوربہنوئی کے گھراسوقت حضرت خباب بن الارت موجودتھے جوانہیں سورة طہٰ کی تعلیم دے رہے تھے حضرت سیدناعمرفاروق کے قدموں کی آہٹ سن کرحضرت سعیدبن زید نے حضرت خباب بن الارت کوگھرکے ایک کونے میں چھپادیا۔آپ گھرمیں داخل ہوئے اورپوچھاتم لوگ ابھی کیاپڑھ رہے تھے؟آپ کی بہن نے کہاکچھ بھی نہیں ۔آپ نے کہاکہ میں نے خوداپنے کانوں سے تم دونوں کوکچھ پڑھتے سناہے اورمجھے یہ بھی معلوم ہواہے کہ تم دونوں نے محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)کے دین کی پیروی اختیارکرلی ہے آپ نے یہ کہتے ہی اپنے بہنوئی حضرت سعیدبن زید کے منہ پرطمانچہ دے مارا۔حضرت فاطمہ بن خطاب شوہرکوبچانے کے لئے آگے بڑھی توآپ نے ان کودھکادے ماراجس سے ان کاسرپھٹ گیااورخون بہناشروع ہوگیا۔آپ کے بہنوئی نے آپ کے جلال کی پرواہ کئے بغیرکہاکہ ہاں !ہم نے اسلام قبول کرلیاہے اورآقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پردل وجان سے ایمان لے آئے ہیں ۔آپ نے جس وقت حضرت سعیدبن زیدکاسخت لہجہ اوربہن کابہتاہواخون دیکھاتوقدرے شرمندہ ہوگئے اورکہنے لگے اچھامجھے بھی وہ صفحات دکھائوجوتم پڑھ رہے تھے میں تمہیں پڑھ کرواپس کردوں گا۔حضرت فاطمہ بنت خطاب نے کہاکہ ان صفحات کوکوئی ناک شخص نہیں چھوسکتااس کے لئے پہلے تمہیں غسل کرناہوگاحضرت سیدناعمرفاروق نے غسل کیااوراپنی بہن اوربہنوئی سے اوراق کامطالبہ کیا۔آپ کی بہن نے خودسورہ طہٰ کی تلاوت شروع کی جب وہ اس آیت کریمہ پرپہنچیں ۔(ترجمہ)”بے شک میں ہی اللہ ہوں اورمیرے سواکوئی دوسرامعبودنہیں اسلئے تم میری عبادت کرواورمیری ہی یادمیں نمازپڑھاکرو”۔توحضرت سیدناعمرفاروق کی آنکھوں سے آنسونکل گئے اورکہنے لگے کس قدراچھااورعظمت والاکلام ہے ۔آپ بے اختیارپکاراُٹھے۔اشھدان لاالٰہ الااللہ واشھدان محمدرسول اللہ حضرت خباب بن الارت جوکہ گھرمیں چھپے ہوئے تھے انہوں نے جب آپ کی زبان سے یہ کلمات سنے توباہرنکل آئے اورکہنے لگے عمر !واللہ میں نے کل ہی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کویہ دعافرماتے ہوئے سناتھاکہ یاالٰہی !عمربن خطاب اورعمربن ہشام دونوںمیں سے ایک کے ذریعے دین اسلام کوتقویت پہنچااللہ پاک نے اپنے محبوبصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمکی دعاقبول فرمالی اوردین اسلام کوتمہارے ذریعے تقویت پہنچائی ۔آپ کے قلب پررقت طاری ہوئی اورحضرت خباب بن الارت سے کہنے لگے کہ مجھے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں لے جائو۔آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اس وقت کوہِ صفاکے نواح میں دارِارقم میں موجودتھے ۔ حضرت سید ناعمرفاروق دارِارقم روانہ ہوگئے ۔صحابہ کرام علہیم الرضوان نے جب عمرِفاروق کوآتے دیکھاتوآقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کواس بات کی اطلاع پہنچائی ۔حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چچاسیدناحضرت حمزہ جوکہ اسوقت آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پاس موجودتھے انہوں نے حضرت عمرفاروق کے متعلق سناتوفرمایاکہ عمرکوآنے دواگرتووہ بھلائی کے ارادے سے آیاہے تواسکے ساتھ بھلائی ہی ہوگئی اوراگرکسی برائی کے ارادے سے یہاں آیاہے تومیں اس کاسرقلم کردوں گا۔حضرت سیدناعمرفاروق جس وقت دارِارقم میں داخل ہوئے توآقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمنے آپ کادامن پکڑکرفرمایاعمر !کیاارادہ لے کرآئے ہو؟آپ نے عرض کیایارسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم !اسلام قبول کرنے کے لئے حاضرخدمت اقدس ہواہوں۔

آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمنے آپ کی با ت سن کرنعرہ تکبیربلندکیااورصحابہ کرام علہیم الرضوان نے جواب میں اللہ اکبرکانعرہ بلندکیاجس سے کوہِ صفاکی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔جب آپ نے اسلام قبول کیاتوابوجہل کے گھرجاکرفرمایامیں تمہیں بتانے آیاہوں کہ میں نے اسلام قبول کرلیاہے اوراگراب تم نے آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بارے میں کچھ غلط کیایاکہاتومجھ سے براکچھ نہ ہوگا۔آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعدآقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے عرض کیایارسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم !جب ہمارادین برحق ہے اورمشرکین باطل ہیں توپھرہم اس دین کوپوشیدہ رکھ کرکیوں عبادت کرتے ہیں آپصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مجھے اجازت دیجیے رب کعبہ کی قسم جس نے آپصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کودین حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے اسلام قبول کرنے سے پہلے میں کفریہ مجالس میں بھی اعلانیہ شرکت کرتاتھااب میں دین اسلام کی محافل کاخوب چرچاکروں گااوردیکھوں گاکہ کس میں اتنی جرأت ہے کہ وہ آپصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اورصحابہ کرام علہیم الرضوان کی طرف گندی نظروں سے دیکھ سکے ۔آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اجازت کے بعدآپ خانہ کعبہ میں تشریف لے گئے اورمشرکین مکہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایااے لوگو!جوشخص مجھے جانتاہے اسے خوب معلوم ہے اورجومجھے نہیں جانتااسے معلوم ہوناچاہیے میں عمربن خطاب ہوں اے مشرکین مکہ!میں نے اسلام قبول کرلیاہے اورآقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اطاعت اختیارکرلی ہے میں تمہیں آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کی دعوت دیتاہوں اگرتم نے اس دعوت کوقبول کرنے میں سستی دکھائی توعنقریب میری تلوارتمہاری گردنوں پرہوگی۔اس اعلان کے بعدآپ نے بیت اللہ شریف کاطواف کیااوربلندآواز سے کلمہ طیبہ کاوردجاری رکھا۔ابن سعدکی روایت ہے کہ جب حضرت سیدناعمرفاروق نے اسلام قبول کیااسکے بعدسے اسلام کوکبھی زوال نہ آیااورمسلمانوں کوکبھی رسوائی کاسامنانہ کرناپڑا۔

ام المومنین حضرت عائشة الصدیقہ سے مروی ہے کہ جب حضرت سیدناابوبکرصدیق کے وصال کاوقت قریب آیاتوآپ نے حضرت سیدناعمرفاروق کوبطورِ خلیفہ نامزدکیاحضرت سیدناعلی المرتضیٰ اورحضرت طلحہ اس وقت سیدناابوبکرصدیقکے پاس تشریف لائے اوردریافت کیاکہ آپ نے کس کوخلفیہ نامزدکیاہے ؟آپ نے جواب دیاکہ میںنے عمر کوخلفیہ نامزدکیاہے دونوں صحابہ کرام نے بیک وقت پوچھاآپ!اپنے رب کوکیاجواب دیں گے؟فرمایاکیاتم مجھے اللہ پاک سے ڈراتے ہوبے شک میں اللہ اورعمر کوتم دونوں سے زیادہ جانتاہوں ،میں کہوں گاکہ میں لوگوں میں سے بہترین کوخلیفہ مقررکرکے آیاہوں ۔منصب خلافت سمنبھالتے وقت آپ کی عمرمبارک قریباًباون سال تھی ۔آپ نے منصب خلافت سمنبھالنے کے بعدسب سے پہلے فوجی معاملات اورعراق کی مہم کی جانب اپنی توجہ مبذول فرمائی اورحضرت خالدبن ولید کوکمانڈرانچیف کے عہدے سے ہٹاکرحضرت عبیدہ بن الجراح کوکمانڈرانچیف مقررکیا۔تاریخ اسلام میں کوئی بھی شخص حضرت سیدناعمرفاروق کے پایہ کافاتح نہیں ہوآپ کی فتوحات کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آپ کے دورخلافت میں چھتیس سوعلاقے فتح ،نو٩٠٠سوجامع مساجداور٤٠٠٠عام مساجدتعمیرہوئیں ۔آپ کے دورِ خلافت میں مفتوح علاقوں کاکل رقبہ بائیس لاکھ مربع میل ہے ۔آپ کے ساڑھے دس سالہ دورِ حکومت میں کئی بڑے علاقے اورملک فتح ہوئے ۔آپ کی بہترین جنگی حکمت عملی کے باعث مسلمان ملک عرب سے باہرنکل کرایک بڑے حصے پرقابض ہوئے اوراسلام کاجھنڈالہرایا۔خلافت کاآغازحضورنبی کریم کے دنیاسے ظاہراًپردہ فرمانے کے بعدحضرت سیدناابوبکرصدیق کے خلفیہ بنتے ہی شروع ہوگیاتھامگرانتظامی امورجن کے لئے محکموں کاقیام ضروری تھاوہ حضرت سیدناابوبکرصدیق کے دورِخلافت میں معرضِ وجودمیں نہ آسکے کیونکہ اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ حضرت سیدناابوبکرصدیق جب خلفیہ مقررہوئے تواس وقت مختلف فتنے برپاہوگئے جن میں نبوت کے جھوٹے دعویدار،منکرین زکوٰة وغیرہ جس کی وجہ سے حضرت سیدناابوبکرصدیق نے اُمت کی یکجہتی کے لئے ان کے خلاف جہادشروع کیااورآپ کے مختصردورِ خلافت میں ان تمام فتنوں کاسدِ باب کیاگیا۔حضرت عمرفاروق کے دورِخلافت میں مجلس شوریٰ قائم کی گئی ۔آپ نے ملک کوآٹھ صوبوں میں تقسیم فرمایاجن کے نام یہ مکة المکرمہ،مدینة المنورہ،شام،جزیرہ،بصرہ،کوفہ، مصراورفلسطین ہیں ۔صوبوں کے انتظامی امورکوچلانے کے لئے گورنرمقررکیے اورگورنرکی مددکے لئے دیگرعہدیدارمقررکئے گئے جن کی تفصیل یہ ہے ۔صاحب بیتُ المال (وزیزخزانہ) قاضی(جس کاکام ہرقسم کے مقدمات کافیصلہ کرناتھا)صاحب احداث(پولیس کااعلیٰ افسر)صاحب الخراج(محکمہ زکوٰة کاانچارج) کاتب دیوان (فوجی دفترکامنشی)کاتب(جوگورنرکی خط وکتابت کرتا)آپ کی جانب سے حکومت کے تمام عہدیداروں کوتنخواہ دی جاتی تھی تاکہ وہ حکومتی کام کے علاوہ کوئی اورکام نہ کریں ۔آپ کے دورِ خلافت میں بیت المال کاقیام ١٥ہجری معرض وجودمیں آیا۔حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری آٹھ لاکھ درہم لے کرحضرت عمرفاروق کی خدمت میں حاضرہوئے اتنی کثیررقم چونکہ فوری طورپرخرچ نہیں کی جاسکتی تھی اس لئے حضرت عمرفاروق نے اس رقم کواپنے پاس رکھ لیا۔حضرت عمرفاروق اس رات کوسونہ سکے بلکہ سوچتے رہے اتنی بڑی رقم کاکیامصرف ہوناچاہیے ۔ نمازِفجرکے وقت آپ کی بیوی نے آپ سے دریافت کیاکہ کیاوجہ تھی کہ آپ رات بھرسونہ سکے؟آپ نے فرمایاکہ میرے پاس لوگوں کی امانت موجودتھی اوراتنامال دین اسلام کے بعدکبھی بھی ہمارے پاس نہیں آیامجھے خطرہ تھاکہ کہیں میں مرجائوں اوریہ مال میرے پاس رہ جائے ۔اس کے بعدآپ نے صحابہ تمام اکابرصحابہ کواکٹھاکیااوران سے رائے طلب فرمائی کہ اس رقم کاکیاکرناچاہیے؟کیامیں لوگوں کوناپ تول کرکے ساری تقسیم کردوں ۔تمام اکابرصحابہ کرام علہیم الرضوان نے بیک زبان ہوکرکہاکہ ایسے مت کیجیے لوگ اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے اورمال کثیرہوتارہے گاآپ لوگوں کولکھ کردیجیے پس جب کبھی لوگ زیادہ ہوں اورمال زیادہ ہوتوآپ اسی تحریرکے مطابق ان کودیتے رہیئے گاآپ نے فرمایاکہ پھرمیں اس کی تقسیم حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خاندان سے شروع کروں گااوراس کے بعدحضرت سیدابوبکرصدیق کاخاندان اورپھرترتیب سے چنانچہ رجسٹرتیارکیاگیاجس میں بنی ہاشم ،پہلے،بنی مطلب دوسرے،بنی عبدشمس تیسرے،بنی نوفل چوتھے بنی عبدمناف پانچویں،بن عبدشمس چھٹے اوراسی طرح باقی ترتیب بنائی گئی ۔آپ نے بیت المال کے قیام کے بعدتمام صوبوں کے گورنروں کوہدایت کہ وہ اپنے مصارف کے لئے رقم نکال کربقایارقم اورمال مرکزی بیت المال کوروانہ کردیاکریں ۔ایک مرتبہ صدقے کے کچھ اونٹ بیت المال میں آئے حضرت سیدناعمرفاروق نے حضرت سیدناعثمان غنی اورحضرت سیدناعلی المرتضیٰ کوبلابھیجاتاکہ ان کے کوائف تیارکیے جائیں اس دوراب آپ خوددھوپ میں کھڑے ہوکران اونٹوں کے رنگ ،عمراورحلیہ لکھواتے رہے ۔آپ نے بیت المال کے لئے عمارت تعمیرکروائیں جن کومسجدوں سے ملحقہ رکھاگیاتاکہ مسجدوں میں ہروقت لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے چوری کاامکان نہ رہے بیت المال میں آمدنی کے ذرائع جووضع کئے گئے تھے ۔خراج بیت المال میں آمدنی کاسب سے بڑاذریعہ خراج تھااللہ پاک نے جس وقت اسلام کوملک عرب سے باہرفتح دینی شروع کی تولشکراسلام کے سپاہیوں نے تقاضاکیاکہ مفتوحہ علاقوں کی زمینیں ان میں تقسیم کردی جائیں آپ نے ان کی اس تجویزکوردکیااورحکم جاری کیاکہ زمینیں ان کے سابقہ مالکوں کے پاس ہی رہیں گی اوران پرٹیکس کانظام نافذکیاجائے گاجس پرزمینوں کے مالک سالانہ رقم کی ادائیگی کریں گے ۔بیت المال کی آمدنی کاایک اورذریعہ جزیہ تھا جولشکراسلام لوگوں کوامان دینے کے سلسلے میں وصول کرتاتھا۔مسلمانوں کی ملکیت میں جوزمینیں تھیںآپنے ان پرخراج کی بجائے عشرکانظام رائج کیاجس کے مطابق وہ اپنی پیدوارکادسواں حصہ بیت المال میں جمع کروانے کاپابندتھا۔

عشورکانظام جوآپ کی ایجادتھی ۔کوئی مسلمان تاجراپناسامانِ تجارت دوسرے ملک لے کرجائے گاتووہ پہلے اپنے مال کادس فیصدٹیکس اورجو دوسرے ممالک سے اپنے سامانِ تجارت فروخت کرنے والے تاجربھی اپنے مال کادس فیصدٹیکس بیت المال میں جمع کروائے گا۔زکوٰة، صدقات،مال غنیمت وغیرہ ۔آپ نے بیت المال کے اخراجات کے لئے مدارج مقررفرمائے جن کے تحت بیت المال کی رقوم کوخرچ کیاجاتارہا۔بنوہاشم کے ہرفردکے لئے سالانہ١٥٠٠ہزاردرہم ،حضرت سیدناعباس کے لئے سالانہ١٤٠٠ہزاردرہم ،اصحاب بدرکے لئے سالانہ ٥٠٠٠ہزاردرہم ،ہرانصاری کے لئے سالانہ ٤٠٠٠ہزاردرہم،مہاجرین حبشہ کے لئے سالانہ ٤٠٠٠ہزاردرہم ،اسامہ بن زید کے سالانہ ٤٠٠٠ہزاردرہم،حضرت عبداللہ کے سالانہ ٣٠٠٠ہزاردرہم،ازواجِ مہاجرین وانصارکے لئے سالانہ ٢٦٠٠سودرہم ،اہل مکہ کے لئے سالانہ ٨٠٠سودرہم،حضرت صفیہ بن عبدالمطلب کے لئے سالانہ٦٠٠٠ہزاردرہم ،ہرمعصوم بچے کاسالانہ وظیفہ١٠٠سودرہم بچے کابالغ ہونے پرسالانہ وظیفہ ٥٠٠سودرہم اس کے علاوہ تمام وہ لوگ جوکسی نہ کسی طرح حکومتی کام میں مددگارتھے اورحکومت کے ملازم تھے ان کی تنخواہیں بھی ان کے کام کے حساب سے مقررکی گئیں۔لوگوں کی تجویزپرآپ کے لئے بیت المال سے وظیفہ لینے کی تجویزپیش کی گئی تھی جووظیفہ حضرت سیدناابوبکرصدیق کے لئے مقررتھاآپ نے وہی وظیفہ اپنے لئے مقررکیا۔بعدمیں تمام اکابرصحابہ کرام علہیم الرضوان نے متفقہ طورپراضافہ کی منظوری دے دی ۔غیرمسلموں کے لئے وظائف مقررکئے گئے ۔آپ نے بیت المال کی اضافی رقم سے بہت سے تعمیرات بھی کروائیں جن میں سب سے اہم سڑکوں کی تعمیرہے تاکہ لوگوں کوآمدورفت میں آسانی ہواس مقصدکے لئے سڑکوں کاجال بچھایاگیا۔پُل تعمیرکئے گئے اورچوکیاں قائم کی گئیں ١٧ہجری میں حرمین شریفین کے درمیان سڑک کاکام مکمل ہواجہاں ہرمنزل پرایک فوجی چوکی قائم کی گئی سرائے بنائی گئیں ،ہرمنزل پرپانی کاانتظام کیاگیا،جس کے لئے کنویں اورچشمے تعمیرکئے گئے ۔آپ کے دورِ خلافت میں فتوحات کادائرہ وسیع ہوااورلوگ جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے توہرسال حج کرنیوالے زائرین کی تعدادمیں بھی اضافہ ہونے لگاجس کے باعث بیت اللہ شریف کی توسیع ناگزیرہوگئی آپ نے ١٧ہجری میں بیت اللہ شریف کے گردوبیش کے مکانات خریدکرگرادیئے اوراس جگہ کوبیت اللہ شریف کے صحن میں شامل کرکے چاردیواری تعمیرکروادی ۔اسی طرح ١٧ہجری میں مسجدنبویصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی توسیع کاحکم دیا۔قحط سالی میں پریشانی سے بچنے کے لئے غلہ کے گودام تعمیرکروائے جس میں سرکاری غلہ کومحفوظ رکھاجاتا۔آپ نے سیلابی پانی کوشہروں میں داخل نہ ہونے کے لئے دریائوں پربندتعمیرکروائے تھے ۔آپ نے مہمان خانوں کی تعمیرکروائی ۔ تاکہ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے مسافروں کوکسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔آپ نے باقاعدہ فوج کامحکمہ قائم کیاجس میں باقاعدہ لوگوں کوبھرتی کیاگیا ان کی تنخواہیں مقررکی گئیں تاکہ بوقت ضرورت اس بات کاانتظارنہ کرناپڑے کہ لوگ جمع ہوں اورجہادشروع کیاجاسکے ۔اس کے بعددیگرعلاقوں میں فوجی مراکزقائم کئے گیے اسلامی مملک کے مختلف حصوں میں چھاؤنیوں کی تعمیرکی گئی ۔آپ نے فوج کی آسانی کے لئے بہت سے انتظامات کیے ۔آپ نے اپنے دورِخلافت میں تعلیم کے لئے بھی باقاعدہ ایک محکمہ قائم کیا۔آپ نے نصاب ِتعلیم میں قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم اورحفظ قرآن ،عربی لغت اورعربی ادب کی تعلیم کوبصابِ تعلیم کاجزوبنایا۔رفتہ رفتہ جب نظام تعلیم چل پڑاتوآپ نے نظام تعلیم میں حدیث وفقہ کی تعلیم اورفن وکتابت کوبھی اس نصاب کاحصہ بنادیااس کے علاوہ ہرطالب علم کونیزہ باری،شمشیرزنی،تیراندازی،نشانہ بازی اورشہسواری کی تعلیم بھی دی جاتی تھی ۔آپ نے نظام تعلیم کوروانی سے چلانے کے لئے ان اساتذہ کابندوبست کیاجوکہ حفاظ تھے،مفسرتھے،محدث تھے ،فقیہہ تھے،ادیب تھے ،مجاہدتھے اورخاص کربارگاہ نبویصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے فارغ التحصیل تھے ۔آپ نے ان اساتذہ کی معقول تنخواہیں مقررکیں تاکہ وہ دلجمعی سے طلباء کوتعلیم دے سکیں ۔آزادعدلیہ کاقیام بھی آپ کے دورخلافت کابڑاکارنامہ تھا۔آپ نے اپنے دورِخلافت میں ہجری سال کاآغازکیا۔آپ نے اپنے دورخلافت میں دین کی اشاعت کے لئے بڑھ چڑھ کرکام کیا۔

شہادت
اللہ کے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا”مجھے جبرائیل امین علیہ السلام نے کہاہے کہ اسلام عمرکی موت پرروئے گا۔(حلیة الاولیاء جلد٢)
مدینہ منورہ میں مغیرہ بن شعبہ کاایک نصرانی غلام فیروزابولولورہتاتھاجوکہ نہاوندکے معرکہ میں قیدہوکرمدینہ منورہ میں لایاگیاتھا۔ایک دن فیروزابولولوامیرالمومنین حضرت سیدناعمرفاروق کی خدمت میں حاضرہوتااورکہتاہے کہ میراآقامجھ سے زیادہ محصول وصول کرتاہے ۔امیرالمومنین نے اس سے محصول کی رقم دریافت کی تواس نے کہاکہ دودرہم روزانہ ،امیرالمومنین حضرت سیدناعمرفاروق نے اس سے دریافت کیاکہ تم کام کیاکرتے ہو؟اس نے کہاکہ امیرالمومنین میں نقاشی اورنجاری کاکاکام کرتاہوں ۔آپ نے فرمایاکہ ان ہنروں کے آگے یہ رقم زیادہ نہیں ۔فیروزابولولونے جب یہ سناتووہ امیرالمومنین سے دل میں بغض رکھنے لگا۔ذی الحجہ ٢٣ہجری نمازفجرکے وقت جب تمام مسلمان مسجدنبوی میں نمازکے لئے جمع ہوئے توفیروزابولولوایک تیزدھارخنجرلے کرمسجدنبوی میں داخل ہوا۔امیرالمومنین حضرت سیدناعمرفاروق نمازفجرکے وقت تشریف لائے اورنمازکے لئے صفیں درست کروانے لگے ۔جب آپ صفیں درست کروانے کے بعدامامت کے لئے کھڑے ہوئے اورتکبیرکہہ کرنمازشروع کی توفیروزابولولواس دوران نمازیوں کی صفیں چیرتاہواتیزی سے آگے بڑھااور آپ پریکے بعددیگرے چھ وارکئے جن سے ایک وارزیرناف لگاجس سے آپ نڈھال ہوگئے ۔آپ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کوپکڑکرامامت کے لئے آگے کیااورآپ بے ہوش گئے ۔فیروزابولولونے حضرت سیدناعمرفاروق پرحملہ کرنے کے بعدبھاگنے کی کوشش کی اورجب لوگوں نے اسے پکڑلیاتوفیروزابولولو نے اپنے ہی خنجرسے خودکشی کرلی ۔نمازفجراداکرنے کے بعدامیرالمومنین سیدناعمرفاروق کوگھرلایاگیا۔آپ نے ہوش میں آتے ہی پوچھامیراقاتل کون ہے ؟آپ کوبتایاگیاکہ فیروزابولولو اوراس نے اپنے خنجرسے خودہی خودکشی کرلی ہے ۔آپ نے اللہ رب العالمین کاشکراداکیاکہ میراقاتل کوئی مسلمان نہیں ہے اس دوران طبیب کوبلایاگیاجس نے آپ کودودھ اورنبیذپلایاجوکہ زخم کے راستے سے باہرنکل آیا۔آپ کی حالت آہستہ آہستہ مزیدخراب ہونے لگی ۔آپ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر کواُم المومنین سیدتناحضرت عائشة الصدیقہ کے پاس بھیجاکہ وہ انہیں حضورنبی کریمصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اورحضرت سیدناابوبکرصدیق کے پہلومیں سپردخاک ہونے کی اجازت مراحمت فرمادیں ۔حضرت عبداللہ بن عمر جب اُ م المومنین سیدتناحضرت عائشة الصدیقہ کے پاس پہنچے اوران سے امیرالمومنین حضرت سیدناعمر فاروق کی خواہش کااظہارکیاتواُم المومنین سیدتناحضرت عائشة الصدیقہ نے فرمایایہ جگہ تومیں نے اپنے لئے رکھی ہوئی تھی لیکن میں حضرت سیدناعمرفاروق کی ذات کوخودپرترجیح دیتی ہوں اوریہ جگہ ان کوعطاکرتی ہوں ۔امیرالمومنین حضرت سیدناعمرفاروق کوجب بتایاگیاکہ اُم المومنین سیدتناحضرت عائشة الصدیقہ نے جگہ مرحمت فرمادی ہے توآپ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ عمر سے فرمایاکہ میرے سرکے نیچے سے تکیہ ہٹادوتاکہ میں اپناسرزمین سے لگاسکوں اوراللہ پاک کاشکراداکروں ۔آپ نے بوقت وصال اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر سے کہاکہ دیکھومیراوپربیت المال کاکتناقرض ہے ؟حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایاکہ چھیاسی ہزارآپ نے فرمایاکہ تم میراتمام مال فروخت کرکے بیت المال میں جمع کرادینااوراگریہ رقم ناکافی ہوتوپھراپنے مال سے اسکواداکرنااوراگرپھربھی ناکافی ہوتوبنی عدی بن کعب سے لے لینااوراگرپھربھی یہ قرضہ پورانہ ہوتوقریش سے قرضہ کی ادائیگی کاسوال کرنااوران کے علاوہ کسی سے نہ کہنا۔جب آپ کے وصال کاوقت قریب آیاتوصحابہ کرام کی ایک جماعت نے آپ سے خلفیہ کی نامزدگی کامطالبہ کیاآپ نے حضرت ابن عباس سے فرمایاکہ تم جاکر حضرت عثمان غنی ،حضرت علی المرتضیٰ،حضرت طلحہ بن عبیداللہ،حضرت عبدالرحمن بن عوف،حضرت زبیربن العوام اورحضرت سعدبن ابی وقاص کوبلالائو۔جب یہ صحابہ کرام علہیم الرضوان حاضرِ خدمت ہوئے توآپ نے فرمایاکہ میں خلافت کاامرتمہارے سپردکرتاہوں کہ حضورنبی کریمصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنے وصال کے وقت تم سب سے راضی تھی ۔اس لئے میں یہ امرتمہارے سپردکرتاہوں اورتم خودمیں سے ایک شخص کوخلیفہ مقررکرلو۔

آپ نے حضرت عبداللہ بن عمر کووصیت کرتے ہوئے فرمایاکہ بیٹا!جب میں مرجائوں تومیری آنکھیں بندکردینااورمیرے کفن میں میانہ روی اختیارکرنااوراسراف نہ کرناکیونکہ اگرمیں اللہ پاک کی بارگاہ میںمقبول ہوامجھے دنیاسے بہترکفن مل جائے گااوراگرمیں اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول نہ ہواتویہ کفن میرے پاس نہیں رہے گااورمجھ سے چھین لیاجائے گا۔میری قبرکوزیادہ لمبی اورچوڑی نہ کرناکیونکہ اگرمیں اللہ پاک کے نزدیک معتبرہواتووہ میری قبرکوحدنگاہ وسیع کردے گاورنہ میری قبرجتنی مرضی چوڑی ہووہ اتنی تنگ کردی جائیگی کہ میری پسلیاں ٹوٹ جائیں ۔آپ٢٦ذی الحجہ ٢٣ہجری کوزخمی ہوئے تھے ۔آپ کاوصال یکم محرم الحرام ٢٤ہجری بروزہفتہ کو ہوا۔(اِنّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن )وصال کے وقت آپ کی عمرمبارکہ قریباً63 برس تھی ۔آپ کوامیرالمومنین سیدناحضرت ابوبکرصدیق کے پہلومیں دفن کیاگیا۔آپ کوبیری کے پتوں میں ابلے ہوئے پانی سے تین مرتبہ غسل دیاگیا۔آپ کی نمازہ جنازہ حضرت صہیب رومی نے پڑھائی جوکہ نبی کریم رئوف رحیمصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے منبراورمزارکے درمیان ریاض الجنة میں اداکی گئی جبکہ حضرت سیدناعثمان غنی ،حضرت سیدناعلی المرتضی شیرخدا ،حضرت زبیربن العوام ،حضرت عبدالرحمن بن عوف اورحضرت عبداللہ بن عمر نے آپ کے جسم مبارکہ کوقبرمبارک میں اتارا۔ اللہ رب العزت ہم سب کے صغیرہ کبیرہ گناہوں کومعاف فرمائے بروزقیامت آقائے دوجہاں سرورکون ومکاںصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔آمین

Hafiz Kareem Ullah Chishti Pai Khel

Hafiz Kareem Ullah Chishti Pai Khel

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی