حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

Hazrat Umar Farooq

Hazrat Umar Farooq

تحریر: وسیم بٹ
سید نا عمر فاروق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب صحابہ میں سے ہیں اور بارگاہی الہی میں آپ کے تمام افعال مقبول ہیںاس حد تک جب ابتدا میں حضرت عمر مشرف بہ اسلام ہوئے تا جبرائیل علیہ السلام نے رسول خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عر ض کیا اے سید ناعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمان والے آج حضرت عمر کے مشرف بہ اسلام ہونے پر آپ کو مبارکباد دیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بدوں کی ہم نشینی میں راحت و سکون ہے یعنی گوشہ نشینی دو طریقے سے ہوتی ہے ایک حلقت سے کنارہ کشی کرنے سے اور دوسرا تعلق قطع کرنے سے اعراض عن الخلق یعنی خلقت سے کنارہ کشی کی صورت یہ ہے کہ بندہ ن سے منہ موڑ کر خلوت میں بیٹھ جائیاور ظاہری طور پر ہم نشینیوں کی صحبت سے پرہیز ہو جائے اور اپنے اعمال کے عیب دیکھنے سے خود میں آرام ملے اور لوگوں کے ملنے جلنے کو بچائے اور اپنی برائیوں سے ان کو محفوظ رکھے۔

مگر خلقت سے تعلق قطع کرنے کی صورت یں یہ ہے کہ دل کی کفیت یہ ہو کہ وہ ظاہر سے کوئی علاقہ نہ رکھے ۔ جب کسی کا دل خلقت سے نقطع ہو گیا تو کسی مخلوق سے یہ خدشہ و اندیشہ نہیں رہتا کہ ان کے خیال سے اس کے دل پر غلبہ پا سکے۔اس وقت یہ شخص اگرچہ خلقت کے درمیاں ہوتا ہے لیکن حقیقت میں جدا ہوتا ہے ، اور اس کے ارادے ان سے منفرد ہوتے ہیں، یہ درجہ بہت بلند اور بعید از خطرات ہے اور اس مقام پر سید نا عمر فاروق فائز تھے۔

آپ بظاہر یہ خلقت کے دوران حکومت و خلافت پر متمکن تھے لیکن آپ کا دل عزت و تنہائی سے رحت پاتا تھا آپ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان عمر کے سائے سے دور بھاگتا ہے حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کیا اس نے وہ کچھ کیا جو اللہ چاہتا ہے اگر قیامت نہ ہوتی تو تم وہ کچھ دیکھتے جو تمہارے گھمان سے با لکل مختلف ہوتا ۔ اس کے بعد آپ نے ایک اینٹ اٹھا کر فرمایا کہ کاس میں یہ اینٹ ہوتا کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا کاس میں کچھ بھی نہ ہوتا۔

Rights

Rights

صوفیا حضرت عمر کو اپنے لیے نمونہ اور نشانے راہ سمجھتے ہیں جسا کہ وہ پیون دلگے کھدر کے کپڑے پہنتے ترک شہوات فرماتے مشکوک چیزوں سے اجتناب فرماتے اور ہر معاملے میں وقار اور شرافت کا اظہار فرماتے حق واضع اور ثابت ہونے کے بعد لوگوں کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے ۔ باطل کو مٹانے والے تھے حقوق کے اعتبار سے اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے تھے طاعات کو اختیار کرنے میں شدت برتے اور ممنوعہ چیزوں سے اجتناب میں سختی سے کاربند رہتے تھے ۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ میں چار چیزوں میں عبادت کو موجود پایا ہے 1۔ اللہ کے فرائض کی ادئیگی 2۔ الہ کی منع کی گئی چیزوں سے اجتناب 3۔ فقط اللہ سے ثواب پانے پانے کی خاطر امر باالمعروف 4۔ اللہ کے غضب ست بچنے کیلئے نہی عن المنکر ، حضرت عمر فاروق ایک روز سورة اذالشمسکو پڑھ رہے تھے اور جب و اذا الصوف نشرت ،، اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گیں،، پر پہنچے تو بے ہوش ہو کر گر پڑے اور بہت دیر تک زمین پر تڑپتے رہے۔

وہ اپنے ایام خلافت میں نہ رات کو سوتے اور نہ دن کو بلکہ کبھی بیٹھے بیٹھے غنودگی ہو جاتی آپ فرماتے تھے کہ اگر میں رات کو سوتا ہوں تو آپکو کھوتا ہوں اور اگر دن کو سوتا ہوں تو رعیت کو کھوتا ہوں کونکہ کہ مجھ سے ان کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ حضرت عمر فاروق کی یہ حالت تھی کہ ان کے چہرہ مبارک پر آنسوئوں کے جاری رہنے سے دو سیاہ خط بن گئے تھے امیر المومین حضرت عمر فرماتے تھے کہ ہم حلال کے نو حصے چھوڑتے ہیں اس ڈر کے کہیں حرام کے ایک حصہ میں گرفتار نہ ہو جائیں ۔ حضرت زید بن اسلم سے حضرت عمر اعظم میں ہے کہ ایک رات آپ عوام کی خدمت کیلئے نکلے تو آپ نے ایک گھر یں دیکھا کہایک گھر میں دیکھا چراغ جل رہا تھا ایک بوڑھی خاتون اون کاتتے ہوئے یہ اشعارپڑھ رہی ہے۔

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

،، ترجعہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ کے تمام ماننے والوں کے طرف سے سلام ہو اور تمام پاکباز متقین کی طرف سے بھی، آپ راتوں کو اللہ کی یاد میں کثیر قیام اور سحری کے وقت آنسو بہانے والے تھے ہائے افسوس اسباب موت مقصود ہیں کاس مجھے یقین ہو جائے کہ روز قیامت مجھے حبیب کا وصال نصیب ہو گا یہ اشعار سن کر حضرت عر فاروق کو اپنے آقا کی یاد تڑ پاگئی جس پر وہ زارو قطار رو پڑے۔

اور دروازے پر دستک دی خاتون نے پوچھا کون آپ نے کہا عمر بن خطاب خاتون نے کہا رات کے ان اوقات میں عمر کو یہاں کیا کام آُ نے فرمایا اللہ تجھے جزائے خیر عطا فرمائے دروازہ کھولا آپ اندر بیٹھ گئے اور کہا کہ جو اشعار تو پڑھ رہی تھی ان کو دوبارہ پڑھ اس نے جب دوبارہ اشعار پڑھے تو آپ کہنے لگے اس مسعود مبارک شعر میں مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے کہ کا ش ہم دونوں کو آخرت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات نصیب ہو اور اے معاف کرنے والے عمر کو معاف کر دے۔ بقول قاضی منصور پوری حضرت عمر اس کے بعد چند دن تک صاحب فراش رہے۔
درد منہ عشق را داروبجز دیدار نیست

Fear Allah

Fear Allah

ایک بار حضرت عمر نے اپنے خلافت میں ایک مشک پانی سے بھری ہوئی اپنی پشت پر رکھ کر کسی غریب مسلمان کے دروازے پر آواز دی کہ دروازہ کھولو بہشتی پانی بھرے گا لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کیا کر رہے ہیں آپ خلیفہ المسلمین ہیں اپکو سقہ بننے کی کیا ضرورت پیش آئی ارشاد فرمایا میرے نفس میں خیال گزرا کہ عمر کے پاس قیصر و کسری کے وفود آتے ہیں پس میں نے اپنے نفس کا یہ وعلاج کیا ہے کہ تاکہ نفس کا مزاج درست ہو جائے ، حضرت عمر کو جب خنجر لگا ور شہادت کا وقت قریب آیا تو اتنے میں حجرت صہیب حاضر ہوئے اور رو کر عرض کرنے لگے واہ عمر واہ حبیبیا واہ تو اس پر فرمایا اے صہیب میری تعریف مت کر اگر حق تعالی مجھے کسی عمل پر اجر نہ دیں صرف برابر چھوڑ دیں تو بھی اس کو غنیمت سمجھوں گا۔

تحریر: وسیم بٹ