دِل کی لگی میں نیند نہ آئی تو رو پڑے

دِل کی لگی میں نیند نہ آئی تو رو پڑے
بزمِ تصورات سجائی تو رو پڑے
بِچھڑے ہوئوں کی یاد جو آئی تو رو پڑے
ساقی نے اپنے دستِ سخاوت سے دوستو
اِک بوند آج ہم کو پلائی تو رو پڑے
اے یارِ خوش دیار تیری یاد کی قسم
دِل کی لگی میں نیند نہ آئی تو رو پڑے
سارے جہاں کے زخم تو ہنس ہنس کے سہہ لئے
اِک چوٹ تیرے ہاتھ سے کھائی تو رو پڑے
اِس دشتِ بے اماں کی مسافت میں چار سُو
غم کی گھٹا حیات پہ چھائی تو رو پڑے

Sahil Munir

Sahil Munir

ساحل منیر