مجبوری

Helplessness

Helplessness

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
مجبوری بظاہر یہ ا یک چھو ٹا سا لفظ ہے لیکن اپنے اندر کر ب و بے بسی کا ا یک جہا ن سمو ئے ہو ئے ہے مجبو ر وہ ہو تا ہے جس کا بس نہ چلے وہ اپنے ھی اندر گھٹ کر ر ہ جا ئے کہ کر وں تو کیا کر و ں؟جب معاشرے سے ا نصا ف ا ٹھ جائے تو پھر مجبو رو ں کی تعداد میں اضا فہ ہی ہو تا ہے اور آج ہما رے معا شر ے میں ہر سطع پر یہ مجبو ری پا ئی جا تی ہے جس کا جہا ں بس چلتا ہے وہ دو سرے کی مجبو ری سے فا ئدہ ا ٹھا لیتا ہے دو سرے کا حق د با لیتا ہے حا لا نکہ ا یک مسلمان دوسرے مسلما ن کا سہارا ہو تا ہے لیکن یہا ں ہم خود اپنی بنیا د یں کھو دنے میں لگے ہو ئے ہیں۔۔۔ میں اچھی بھلی اخبا ر میں سیٹ ہو ئی تو مجھے ا کھاڑ پھینکا گیا اور کسی نے یہ نہ سو چا کہ کمٹمنٹ بھی کو ئی چیز ہو تی ہے اور عو رت تو جہا ں بیٹھتی ہے اپنا گھر بنا لیتی ہے۔

دل د کھتا ہے ایسے ر و یو ں سے۔ حساس د ل تو اپنے ارد گرد سے ہی د کھ چن لیتا ہے زرا سی دیر کو سڑک پے رکو تو گا ڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی ایسے نظا رے د یکھنے کو مل جا تے ہیں کہ رو ح تڑ پ جا تی ہے۔۔ ا یک آدمی جس نے ڈیڈھ دو سال کا بچہ ا ٹھا یا ہو ا تھا چہر ے سے ہی بھو ک ٹپک رہی تھی سو کھا مد قوق سا بچہ کند ھے سے لگا ئے وہ مجبو ر نظر و ں سے چند لمحے اد ھر ا د ھر دیکھتا رہا سڑک کنا رے سجی تکہ پیس کی د کا نیں فرو ٹ چا ٹ کے ٹھیلے، پھل فرو ٹو ں کی ر یڑ ھیا ں، جوس اور فا لو دے کی د کا نیں، اور ان پر کھا تے پیتے لو گ۔۔۔ آ خر وہ چھو ٹے چھو ٹے قدم ا ٹھاتا گا ڑی کے قر یب آ یا بخدا ا سکی آ واز نہیں نکل رہی تھی لیکن لر ز تے ہو نٹو ں سے اس نے اپنے بچے کی بھو ک کی کہا نی سنانے کی کو شش کی میں نے ا سے در میا ن میں ہی ٹو ک کر پیسے د یئے کہ مجھ میں ایسی کہا نیا ں سننے کی تا ب نہیں میں اتنا بڑا جگرا نہیں ر کھتی اور خدا نے چہرہ شنا سی کی ا تنی صلا حیت تو دی ہے سمجھ آ جا تی ہے یہ نشئی ہے یا مجبو ر، یہ عا دی بھکا ری ہے یا مجبوری میں اپنی انا اور خود داری کو قتل کر کے ہا تھ پھیلا نے والا اور ا یسی با تو ں سے میں ا تنی خو فزدہ ہو تی ہو ں کئی دن میں ڈ ھنگ سے کھانا نہیں کھا سکی کہ کتنے بھو کے ہو نگے جن کو ا یک و قت کا کھا نا نصیب نہیں ہو گا وہ بھو ک سے کس طر ح کر و ٹیں بدل بدل کر رات گزا رتے ہو نگے ان کے بچے کس طرح بلکتے ہو نگے۔ ار بو ں کھر بو ں ڈ کا رنے وا لے اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ انھیں یہ چلتے پھر تے لا شے نظر ہی نہیں آتے ۔

Assembly

Assembly

یہ صا حب ا قتدار لو گ صا حب دل کیو ں نہیں ہو تے شا ئد ان کے دلو ں پر مہر لگ چکی ہے جو جا تے جاتے بھی اسمبلی سے اپنی مرعات کے بل پاس کروا لیئے اپنی اولادو ں تک کا مستقبل د یکھا کل ہو نہ ہو کس نے دیکھا ہے لیکن حر ص کی انتہا دیکھیں ان کو عوام کی تکا لیف سے کو ئی غر ض ہی نہیں کوئی غور کرے تو ا یک لمحے میں ا نسان پہچا نے جا سکتے ہیں وہ جو پیشہ ور ہیں جھو لیا ں بھر نو ٹ عوام کی جیبو ں سے نکلوا کر گھر جاتے ہیں رات کو مر غ مسلم کھا تے ہیں اور صبح حلوہ پو ری کا نا شتہ کرتے ہیں ایسوں کو ہم لوگ رک کر بھیک دیتے ہیں اور جو مجبور ما نگ نہیں سکتے ا نکی طرف ہم د یکھنا بھی گوا رہ نہیں کر تے کہ ا ن کا بھی دل چا ھتا ہو گا یہ سا ری نعمتیں کھا نے کو۔۔۔۔ لیکن حیف ہے ایسی قو م پر جس کی شادی بیا ہ کے بچ جانے والے کھانے ڈ سٹ بنو ں تو جا تے ہیں کسی انسان کے پیٹ میں نہیں۔۔۔ کس کس طر ح کے ریت رواج نکا ل لیئے گئے ہیں ۔

ر یسٹو رانو ں میں بو فے سسٹم میرے خیا ل میں سب سے برا سسٹم ہے ھما رے رشتہ دار اسلام آباد کے ایک ر یسٹوران میں ا فطا ر ڈنر کے لیئے گئے وہاں پر ہیڈ پندرہ سو تھا انکے ساتھ بچے کھلا نے وا لی لڑ کیا ں بھی تھیں اب ظا ہر ہے وہ نو کرا نیو ں پر پر ہیڈ سینکڑوں رو پے کیو ں خر چ کرتے وہ با ہر بیٹھی رہیں وہ اندر ڈنر کر تے رہے پیسے حلال کرنے کے لیئے خوب ٹھو نس ٹھو نس کر کھایا پھر بھی قلق رہا کہ ا تنے پیسوں میں تو پچاس بندے کھانا کھا سکتے تھے جبکہ مارے ہراس کے اوور کھانے سے بیمار الگ ہو تے ہیں کہ پیٹ تو آ خر اپنا ہو تا ہے یو ں اس سسٹم نے بہت سی برا ئیو ں اور بیما ر یو ں کو جنم دیا ہے و یسے تو ہما رے معا شرے میں رواج پا نے والا ہر سسٹم قو م کو مزید مسا ئل اور تنز لی کی طرف د ھکیل رہا ہے گھر و ں میں کھانا بنانے کا رواج ختم ہو رہا ہے با ہر کھا نا اب عیا شی نہیں سٹیٹس کے ز مر ے میں آ تا ہے

Clinic

Clinic

اس سٹیٹس کو بر قرار رکھنے کے لیئے لو گ حرام حلال کی تمیز کھو بیٹھے ہیں دیکھا جا ئے تو وہ بھی مجبور ہیں کیا کر یں کا سوا لیہ نشان ا نکے سا منے بھی منہ کھو لے کھڑا ہو تا ہے لیکن یہ مجبو ری پھیلا ئی ہو ئی کس کی ہے یہ سو چنا سب کی ا جتماعی ز مہ داری ہے یہ سو چنے کا کسی کے پاس ٹا ئم نہیں۔ اسکی ایک مثال دوں ایک ڈاکٹر کے کلینک پر آئی مر یضہ جو غا لبا پورے دنو ں سے تھی اس کو لیڈی ڈا کٹر بری طرح سے جھاڑ رہی تھی کہ تم لوگ پہلے پرواہ نہیں کرتے ہو پھر کچھ ہو جائے تو ڈا کٹرو ں کے گلے پڑ تے ہو اپنی حا لت د یکھی ہے خو ن کی اتنی کمی ہے بس بچے پیدا کر نے کا شو ق ہوتا ہے تم لوگو ں کو۔۔۔ ٹا نگ برابر نسخہ اس کے سا منے پٹخا کہ یہ پھل فروٹ دودھ جوس انڈے گو شت وغیر ہ کے ساتھ یہ میڈ یسن لینی ہیں لیکن ڈا کٹر صا حبہ یہ سب چیز یں۔۔

وہ عورت منمنا ئی بھئی دیکھو یہ تمہا را ھیڈک ہے میرا نہیں اور پا نچ سو فیس نکا لو۔ اس نے کا نپتے ہا تھو ں سے نو ٹ نکا ل کے دیا اور ٹھنڈی سا نس بھر کے ا ٹھ گئی باہر میا ں کو نسخہ پکڑ ایا تو وہ آ پے سے با ہر ہو گیا کہ پا نچ سو ڈا کٹر کو پکڑا آئی ہے اب دوائیا ں کہاں سے لوں چلو آ گے لگو۔۔۔ میں نے ڈا کٹر سے کہا یہ بے چا رے ایسی چیز یں کہا ں سے کھا ئیں اب تو بڑے بڑے امیر کہلانے وا لو ں کو یہ چیزیں بھا ری پڑنے لگی ہیں بڑے ا طمنان سے بو لیں تو ہم کیا کر یں؟ آپ ا یسے مر یضو ں سے فیس نہ لیں یا تھو ڑی لیں اتنا تو کر سکتی ہیں ؟ کیوں ہم نے کو ئی ٹھیکہ لیا ہوا ہے پھر اتنے بے شما ر غر یبوں کو کو ئی کہا ں تک پا لے یہ تو حکو مت کی زمہ داری ہے ہم بھی تو مجبور ہیں ایک ڈا کٹر کا سٹیٹس کیا ہو تا ہے آپ کو پتہ ہے اور سٹیٹس کی اس مجبو ری پر کڑ ھتی میں گھر آ گئی!۔۔

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر: مسز جمشید خاکوانی