حجاب

Hijab

Hijab

تحریر: ایمن ہاشمی
٤ ستمبر کوحجاب ڈے منایا گیا۔مگر ضرور ت دن منانے کی نہیں اس پر عمل کرنے کی ہے۔حجاب آجکل تو ا س کا تصو رہی معدوم ہو چکا ہے۔مگر کبھی یہ عورت کا اصل زیور سمجھا جاتا تھا۔عو ر ت جس کے معنی ہیں(چھپی ہو ئی چیز)۔اس کے بغیر نا مکمل سمجھی جا تی تھی۔مگر آجکل یہ زیو رصرِ ف محفل میلاد یا کسی کے ہا ں قر آن خو ا نی کی حد تک مخصوص اور محد ود کر دیا گیا ہے۔آج جب دنیا بھرکے مختلف مُمالک میں حجا ب ڈے منا یا جا تا ہے، افسوس کے ہمیں آج بھی ا سکی اہمیت کا اند ازہ نہیں ہو پا یا۔پہلے پہل و ا لد ین گھر و ں میں ا س کی اہمیت بیا ن کر کر کے اپنی بچیوں کے دل میں اس کا شو ق اجا گر کر تے تھے مگر اب تو بچہ خو د بھی چا ہے تو ما ئیں اسکو منع کر دیتی ہیں۔ابھی کچھ دن پہلے کی با ت ہے کہ میں اپنی ایک دوست کے ہا ں ڈ نر پر گئی تھی۔

اسکی چھو ٹی بہن بازار جانے کے لیے اپنی ماما سے کپڑے مانگ ر ہی تھی ۔ مجھے حجاب میں دیکھ کر اپنی ماما سے ضد کرنے لگی کہ ماما مجھے بھی ایمن آپی جیسا حجاب لے کر دیں۔اس پر اُسکی ماما کا جو ا ب سن کر تو میں گہرے سُمند ر میں ڈو ب گئی وہ بولیں اس طر ح کی چیز یں آپ پر سو ٹ نہیں کر ے گی۔جا ئو سیف میں تمہا ر ی پینٹ شر ٹ ہینگ کی ہو ئی ہے وہ پہن کر چلی جا ئو۔یہ سب بہت ا و لڈ فیشن ہے ۔مجھے یہ سن کر حیر ا نی کے سا تھ سا تھ دکھ بھی ہو اکہ جب ما ئیں ہی او لا د کو یہ تہذیب سکھا ئیں گی تو آنے وا لی نسلو ں پرتو گلہ کر نا بنتا ہی نہیں ہے۔

Hijab

Hijab

سوائے پاکستان کے آج بھی دُوسرے ممالک میرا مطلب و یسڑن ممالک میں حجاب مسلمان عورت کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔وہ بھی تو عورتیں ہی ہے جو مغر بی ممالک میں رہ کر بھی حجاب پر لگنے والی پابندی پر سب کچھ بھول بھال کر سراپا ئے احتجاج بنی ہوئی تھی ۔ وہ وہا ں رہ کر بھی اپنا اصل گئو ا نا نہیں چا ہتی تھی ۔ اپنی شنا خت کھو نا نہیں چا ہتی تھی۔اپنا تشخص مٹتے ہو ئے نہیں د یکھنا چا ہتی تھیں۔عو ر ت ہو نا او ر پھر مسلما ن ہو نا انکے لیے سب سے ا ہم ہے اور ایک ہم ہے کہ ایک اسلا می مملکت میں ر ہنے کے با و جو دکو نسا ر نگ خو د پہ طا ر ی کیے ہو ئے ہیںکہ جس سے اپنی پہچا ن تک بھو ل گئے ہیں۔

تعلیمی مید ا ن میں تو عورت نے ترقی کی سو کی مگر اس سے تین گنا زیادہ ترقی فیشن میں کی ہے اور فیشن بھی ا یسا جو نما ئش بنا دے۔اس (چھپی ہو ئی چیز) کا بر قعہ آج بھی ا و ڑ ھا جا تا ہے مگر جسم کو چھپا نے کے لیے نہیںبلکہ وا ضع طو ر پر د یکھا نے کے لیے۔پر د ے کے نا م پر بے پر د گی کا جیسا ا ظہا ر پا کستا ن میں د یکھنے کو ملتا ہے شا ئد ہی کہیں د یکھنے کو ملے۔

Islam

Islam

پردے کے نام پر بھائی، بیٹے ،گھر بار ہر چیز قربان کر دینے والی وہ بھی حواا کی بیٹیاں تھی اور آج پردے کو مذاق بناد ینے والی یہ بھی بناتِ حوا ہیں۔ ہم نے ایک اسلامی ملک میں پیدا ہو کر بھی اسلام کی پاسداری نہیں کی۔بھلا یہ کیسی حسرت ہے جو اقوام مغرب سے پہلے ہم پر آ گئی۔حجا ب ڈے کے حو ا لے سے کم از کم میں یہ چا ہو ں گی کہ کو ئی بھی بے حجا ب عو ر ت چا ہے وہ کسی کی ما ں ہے، چا ہے وہ کسی کی بہن ہے یا بیٹی ہے ایسے دن پر ایک د و سر ے کو مبا ر ک دے کر پر دے کی مز ید تذ لیل مت کر یں مز ید مذ ا ق مت ا ڑ ا ئیں ۔ اور پیا ر ے نبی ۖ کا فر ما ن بھی یہی ہے کہ دو مو قعو ں پر ا للہ کے فر شتے ہنستے ہیں۔ جب بے نما زی کا جنا ز ہ پڑ ھا یا جا تا ہے اور د و سر ا جب بے حجا ب عو ر ت کو کفن پہنا یا جا تا ہے۔

اپنے اس برقعے کی وجہ سے گلیوں،بازاروں میں لڑکوں اور غیر مردوں کی ہنسی تو انکو سننے کو ملتی ہی ہے مگر اپنی ز ند گی کے اس آخر ی دن پر تو یہ عو ر تیں خو د کو ر سو ا ہو نے سے تو بچا لیں۔کہ فر شتے بھی آپ پر طنز یہ ہنسیںکہ کیا یہ ایسی ا مت ِآ خرالز ماں ہے ۔ کیا یہی ملتِ خا تم ا لنبین ہے۔ اور خد ا ہی ہے جو ہما ر ے حا ل پر ر حم کر نے وا لا ہے۔
بے پر د گی میں ڈو ب گیا ہے جہا نِ حسن
یا ر ب تو روزِحشر کا جلد ی نز و ل کر
اللہ پاک ہمیں حجاب کرنے کی توفیق دے اور ا متِ نبی کی د ختر ا ن کو عریانیت سے بچائے۔ (آمین)۔

Ayman al Hashemi

Ayman al Hashemi

تحریر: ایمن ہاشمی