ہندوئوں اور یہودیوں کا مسلمانوں پر ظلم وستم

Subcontinent History

Subcontinent History

تحریر: میر افسر امان
ہندوئوں اور یہودیوں کی مسلمانوں پر ظلموستم میں مما تاریخ ِ قدیم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آریا وسط ایشیا سے ہجرت کر کے جب برصغیر میں آئے تو ہندوستان کی سرزمین کے نام سے اپنے آپ کو ہندو قوم قرار دیا۔ کیونکہ قدیم وقت سے یہ رواج چلا ہوا ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے یہ تو بعد میں اسلام نے بتایا کہ قوم کا وطن سے بننے والا تصور نامکمل ہے۔قوم وطن سے نہیں بلکہ مذہب سے بنتی جیسے مسلمان قوم۔ شاعرِاسلام علامہ اقبال نے اس کی تشریع اس طرح کی:۔ اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر۔۔۔خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ عاشمیۖ آریائوں نے پھر رفتہ رفتہ برصغیر کی قدیم مقامی آبادی دراوڑوں پر ظلم وستم کیا۔

ان کو زمینوں اور گھروں سے بیدخل کر کے ان پر قبضہ کر لیا۔ جب سونے کی چڑیا ہندوستان کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا تو ان کے نفس کے اندر اپنی بڑائی اور کبریائی کی شیطانی صفت پیدا ہوئی۔ پھر انہوں نے ہندوستان کے معاشرے میں چھوت چھات کا نظام قائم کیا اور اللہ کو انسان کے جسم سے تشبیع دے کر کہاکہ برہمن اللہ کے سر سے پیدا ہوا ہے۔ کہشتری اللہ تعالیٰ کے سینے سے پیدا ہوا ہے۔ ویش اللہ کے دھڑ سے پیدا ہوا ہے اور شودر اللہ کے پیروں سے پیدا ہوا۔ سب سے اونچا حکمران طبقہ برہمن کہلایا جس کو انسان کے سر سے تشبیع دی۔

اس شیطانی تقسیم میں قدیم آبادی دراوڑوں کو ہندو سماج میں سب سے نیچی قوم یعنی شودر بن کر رہنے پر مجبور کیا ان کو ظلم و ستم کر کے نیچے درجے کے کام کر نے پر مجبور کیا مثلاً سڑکوں پر جھا ڑواورلیٹرینوں کی صفائی وغیرہ جیسے کام کرنے پر مجبور کیا ان کی بستیاں عام ہندوئوں کی بستیوں سے دور رہیں ان کے پانی کے کنویں علیحدہ ہیں وہ مندر میں عبادت نہیں کر سکتے وہ ناپاک تصور کئے جاتے ہیں ۔چھوت چھات کا نظام صدیوں سے اب تک ہندوستان میںجاری و ساری ہے اب بھی شودر جو دلت کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کو کتا تک کہا جاتا ہے جیسے ہندوستان کی سابق آری چیف اور موجودہ مرکزی وزیر نے کہا تھا۔

Jews

Jews

اب ہم بات کرتے ہیں یہودیوں کی۔یہ صدیوں سے تتر بتر تھے ان کی دنیا میںکوئی بھی حکومت نہیں تھی۔ کبھی مسلمان کی اورکبھی عیسائیوں کی سلطنتوں میں رہے۔ ہر حکومت کے خلاف سازشیں کرتے رہے حتیٰ کہ اسی سازش کی بنیاد پر جنگ عظیم میں عیسائی ہٹلر نے ان کو اتنا قتل کیا کہ یہودی اس قتل عام کو ہولو کاسٹ سے یاد کرتے ہیں یہ مسلمانوں اور عیسائیوں،دونوں کے دشمن ہیں۔ یہودیوں نے ہمیشہ سودی کاروبار کیا جس سے انسانوں کا خون چونسا جاتا ہے۔ یورپ میں یہودیوں کے سودی نظام کی سفاکیت پر ایک ڈرامہ بھی اسٹیج کیا گیا تھا جس میں ایک سود خور یہودی ایک انسان کو پیسے نہ دے سکنے پر اس کا گوشت بھی کاٹ لیتا ہے۔سود خوری میں یہودیوں نے دنیا بھر میں خوب کمائی کی۔

سودخور یہودیوں عیسائی حکمرانوں کو قرض دے دے کر ان کو دوست بنا لیا تھا۔ ایک وقت آیا کہ جن رومیوں اور ایرانیوں سے مسلمانوں نے اقتدار چھینا تھا اب رومیوں نے واپس مسلمانوں حکمرانوں کی غفلتوں کی وجہ سے اقتدار واپس چھین لیا۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ”میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے۔۔۔ شمیشیر سناں اوّل طاوس و رباب آخر۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کو غالب قوموں نے غلام بنا لیا۔برطانیہ کے حکمرانوں کو یہودی قرض دیتے تھے اس کے عوض اور مسلمان دشمنی میں برطانیہ نے بلفور اعلان کے تحت یہودیوں کو فلسطین میں داخل ہونے اور حکومت قائم کرنے کا اختیار دیا۔

اس وقتسے یہودیوں نے فلسطین کی قدیم آبادی جو ٢٥٠٠ سال سے فلسطین میں رہ رہی تھی جو پہلے غیر مسلم عرب تھے بعد میں مسلمان ہو گئے تھے سے زمینیں چھین لیں ان کو گھروں سے نکال دیا ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلا دیے ان کو دنیا میں تتربتر کر دیا گیا۔فلسطین میں دنیا بھر سے یہودی آ آ کر آباد ہو رہے ہیں۔اور قدیم آبادی پر ظلم ستم کے پہاڑ توڑے گئے جن میں صابرہ اور شکلیہ کے مہاجر کیمپوں کی داستان ساری دنیا جانتی ہے۔

Al-Aqsa Mosque

Al-Aqsa Mosque

قدیم آبادی پر ظلم وستم کرنے میں ہندوئوں اور یہودیوں میں ہی مماثلت ہے۔ فلسطین کے اندر بیت المقدس میں مسلمانوں کی تیسری بڑی عبادت گاہ مسجد اقصیٰ ہے ۔یہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل بھی ہے۔شروع میں مسلمان اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔اسی مسجد اقصیٰ سے ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیا کو نماز پڑھائی تھی وہاں سے ہی وہ آسمانوں پر گئے تھے۔ یہودی مسلمانوں کی مقدس مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرکے اور اسے گرانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔اس میں مسلمان نمازیں پر آنسو گیس،حواس گم کرنے والے بم اور اسٹیل کوٹڈ ربرکی گولیاں چلاتے ہیں اس ظلم کی وجہ سے ہزاروں مسلمان شہید ہو چکے۔اس تک یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

اب بھارت کے ہندوئوں کی بات کرتے ہیں انہوں نے بھارت میں مسلمانوں کی مسجدوں کے خلاف مہم چلائی ہوئی ہے بادشاہ بابر کے زمانے کی بنی ہوئی قدیم مسجد جس کا نام بابری مسجد ہے جس کو انتہا پسندہندوئوںنے شہید کردیااوربھارت میں کسی بھی مسجد کو بخشنے کے لیے تیار نہیں۔کیا یہ بھی یہودیوں اور انتہا پسند ہندوئوں میں مسلمانوں پر ظلم ستم کی مماثلت نہیں؟ قرآن ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ سود اللہ اور رسولۖ کے خلاف جنگ ہے جبکہ یہودی سود خوری میں ساری دنیا میں مشہور ہیں۔

پوری دنیا میں سود خوری کا بنکنگ کا نظام ان کے ہاتھ میں ہے یہ اپنا سود وصول کرنے کے لیے انسان کا گوشت بھی کاٹ لیتے ہیں۔ یہی حال ہندوئوں کے معاشرے کا ہے ان میں بھی سودخوری عام ہے۔ اس سے سود خور کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اورغریب غریب تر ہوتا جاتا ہے آج بھارت کی ساٹھ فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔کروڑوں لوگوں کے لیے لٹرین کا انتظام نہیں۔ممبئی جیسے شہر میں لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر رات گزارتے ہیں۔

United Nations

United Nations

یہ انسانیت پر ظلم نہیں تو کیا ہے۔ایک طرف انتہا پسندی کر کے یہودیوں نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ فلسطینیوں کے حق میں پاس شدہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کر رہے اورظلم ستم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے تمام عیسائی حکومتیںیہودیوں کے ظلم ستم پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور مسئلہ فلسطین ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ سارے فلسطین کو یہودیوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے ان تک راشن بھی نہیں پہنچنے دیتے ۔انسانی حقوق کی تنظیموں کو فلسطین میں داخل نہیں ہونے دیتے لاکھوںفلسطینی شہید ہو چکے ہیں نہتے فلسطین گولے مارتے ہوئے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے سامنے غولیلوں سے چھوٹے چھوٹے پتھر پھینک کر یہودیوں کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

یہی حال ہندوستان میں کشمیریوں کا ہے وہ بھی ٦٨ سال سے کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں ان کے گھروں کو گن پائوڈر پھینک کر خاکستر کر دیا گیا ان کے باغات کے درختوں کو کاٹ کر فوجی چھائونیاں بنا لی گئیں ہیں۔ہزاروں کشمیریوں کو لا پتہ کر دیا گیا ہے۔ کشمیر میںکئی اجتمائی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ قید میں بند کئی کشمیری نوجوانوں کو اذیتیں دے دے کر ہمیشہ کے لیے اپاہچ کر دیا گیا۔کشمیریوں کی بزرگوں کے مزاروں کو گن پائوڈر چھڑک کر جلا کر دیا گیا ہے۔ ان تمام مظالم کے ساتھ کشمیریوں کے حق ِ خوداداریت میں اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پرعمل نہیںکر رہا۔ ہندو بھی انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر میں داخل نہیں ہونے دیتے ۔

قارئین!یہودیوں اور ہندوئوں کی مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کی کن کن مماثلتوں کی بات کی جائے۔لگتا ہے ہندو بھی بنی اسرائیل ہی ہیں جواللہ کی دھتکاری ہوئی قوم ہے اسی لیے اللہ کے نام لیوا مسلمانوں پر ایک جیسا ظلم و ستم روا کر رکھا ہے۔مسلمان حکمران تو خواب غفلت میں سور رہے ہیںاورکچھ مفاد پرستی میں مبتلا ہیں۔ اللہ ہی ان سے مظلوم مسلمانوں کا بدلہ لے گا۔

Mir-Afsar-Aman

Mir-Afsar-Aman

تحریر: میر افسر امان