سندکفن

Sund e Kafan

Sund e Kafan

تحریر : شاہ بانو میر

تاریخ اسلام کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس وقت جب جہالت کا دور تھا جاہلانہ رسم و رواج پر مبنی ناچ گانا اور دیگر قبیح رسومات جہلاء کّرو فر کے ساتھ مناتے تھے۔ وہیں اسلام کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر تھا اور مختلف معروف علمائے کرام کی زیرنگرانی بڑے بڑے مدارس میں علمی مجالس کی سنہری دھوپ اہل علم پر چمکتی تھی ان کے علوم و فنون کی اپنی شان و شوکت تھی تعلیم کا الگ اعلیٰ معیار تھا۔ دنیا بھر سے سفر کی صعوبتوں کو جھیلتے کئی مہینوں کا سفر طے کر کے تشنہ لب علم کے شیریں مشروب سے حلق تر کرتے۔ قرآنی علوم پر مہارت حاصل کرنے والے طالبعلم جو گھر بار تج کے دن رات کسمپرسی کے عالم میں سال ہا سال عسرت و تنگدستی کی زندگی گزارتے کہ زندگی کو علم کے نور سے درخشاں بنائیں وہ اللہ اور اس کے نبیﷺ کی محبت میں ہر تنگی ترشی کو ہنس کر سہ جاتے اور نگاہیں اپنی کامیابی پر مرکوز رکھتے۔

یہ طالبعلم بہت خاص ماحول میں تزکیہ نفس کے مراحل سے گزارے جاتے تھے ۔ دین اسلام کے بڑے بڑے استاذہ کرام جن کا ساتھ انہیں صرف علم نہیں بلکہ روح کی مکمل غذا بھی دیتے ۔ رب کی درست پہچان ایمان کا بلند ترین درجہ جو مکمل دیانتداری کے ساتھ سکھایا جاتا کہ اتنے بلند مرتبہ ہوتے ہوئے بھی عاجزی انکساری کا پیکر دکھائی دیتے ۔ تعلیم کی تکمیل تک مدرسے کے دن رات ان کو دنیا نکال کر دین اور عرفان عطا کر دیتے ۔ کئی سال کی سخت محنت کے بعدجب وہ مختلف علوم کو مکمل کر لیتے تو ادارہ ان کے اعزاز میں دستار بندی کی رسم کا انعقاد کرتا اور علم کی سند پر اب عمل کی مہر لگا دیتا ۔ جس میں کئی انداز سے علماء ان سے علم کی جانچ کرتے سوال و جواب کا سلسلہ بھی ہوتا کہ طالبعلم کی علمی صلاحیت کو سر عام جانچا جا سکے۔

اس تقریب میں حکام بالا اور شہر کے شرفاء کو نامور علماء کو اور دیگر اہم شخصیات کو باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے ۔ اور ضیافت میں خاص اہتمام کیا جاتا ۔ اس دعوت میں کامیاب طالبعلموں کو ان کے استادوں کی نسبت سے پکار کر کامیابی کا اعلان کیا جاتا اور مستقبل کیلئے دعاؤں کے تحفے دے کر عملی زندگی میں نئے استادوں کی جماعت کومیدان عمل میں اتارا جاتا ۔ پاکستان میں ایسی تقریبات کی تشہیر تو درکنار ان کا ذکر بھی نشر و اشاعت کے اداروں میں سنائی نہیں دیتا ۔ کئی دہائیوِں سے ہمسایہ برادر اسلامی ملک افغانستان میں استمراری طاقتوں کے ظلم و ستم کا لامتناہی دور ابھی تک چل رہا ہے ۔ افغانستان میں انسانی زندگی کو روند کر بارود کی چادر اوڑھا کر مایوسی کا مسکن بنا دیا گیا تھا ۔ مگر زندگی وہ بھی مومن کی اس میں مایوسی تو کفر ہے یہی وجہ ہے کہ ماضی کو جھٹک کر نئے حوصلے نئے جزبوں کے ساتھ کئی سال سے نئی پود کو محنت کر کے علوم قرآنی پڑھائے جا رہے تھے تکمیل ہونے پر ان کی دستار بندی کی جا رہی تھی یہ موقعہ کیسی خوشی کا تھا اس کا انداذہ تنگدستی اداسی اور تباہ حال ملک میں نئے مستقبل کی تعمیر کرنے والے ہی لگا سکتے تھے۔

وہ خود کو سنوار کر اب اگلی نسل کو سنوارنے کا ارادہ کر کے میدان عمل میں اترنا چاہ رہے تھے طاغوتی سوچ کو کہاں یہ گوارہ تھا کہ وہ اللہ کو اس کے ذکر کو اس کے نام کو یوں بڑہتا دیکھے اور برداشت کر لے ۔ وہی کیا جو ماضی میں ہوا کبھی حفاظ کرام کا قتل عام کیا گیا
کبھی ہزاروں لاکھوں قرآنی نسخے نذر آتش کئے گئے مگر ہوا کیا؟ سینوں میں قرآن یہی قاری تو ہے مسلمان کل 100 کے قریب حفاظ کو شہید کر دیا گیا حفاظ کی یہ شھادت کیا لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ سادہ سی تقریب اور دستار بندی میں تقسیم اسناد کا پروگرام یہ تباہ حال سرزمین پر معصوم سی خوشی بھی گوارہ نہیں؟ کیوں؟ نئے کپڑے پہن کر جو ماں کی دعائیں لے کر گھر سے گئے وہ خون آلود لہو رنگ پوشاک اوڑھے واپس لوٹے سفید کفن ملا سند میں
سوگوار مائیں ابھی تک بے یقینی کی کیفیت کا شکار گُم سُم آنکھیں پھاڑے دروازے کو تک رہی ہیں جہاں سےہنستے مسکراتے انہیں رخصت کیا تھا ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہےکہ جسم کا ایک حصہ بارود سے جلا کر راکھ کیا جائے اور باقی جسم سُن ہو کر روزمرہ امور سر انجام دے؟
کشمیر فلسطین افغانستان آگ میں جلائے جا رہے ہیں اور ہمارے وہی شب و روز
کیا ہم ایک ہی امت کے امتی ہیں؟
سلسلہ رک نہیں رہا نہ رکے گا
خون کا ذائقہ انسان کو آدم خور بنا دیتا ہے
کیا ہم سب اگلا نوالہ بننے کیلیۓ تیار ہیں؟
چاند چہرے خاک میں ملا دیے گئے
کڑی محنت کے بعد جب ثمر پکا تو شجر کو ہی جڑ سے کاٹ پھینکا؟
زبانیں خاموش قلم افسردہ تھکن کا شکار
میڈیا پرسٹر پٹر انتہا پسندی کے رونے رونے والی”” مخصوص بِھیڑ”” آج اس ظلم پر کس بِل میں گُم ہے؟
ماؤں کے لعلوں کے جسموں کے بارود نے چیتھڑے اڑا دیے
دینی تعلیمات سے منور ہ مسلمان بچے اپنے ملک میں انتہاء پسندی کے اندھیرے قرآن سے دور کرنے کیلیے میدان میں نکلنے کو تیار تھے
یہ دہشت گرد نہیں تھے
یہ مجاہدین نہیں تھے
یہ کہیں مطلوب نہیں تھے
ان بے قصور عام شہریوں پر ایسا ظلم اور اس پر ایسی مجرمانہ خاموشی
اتنی بے حسی
اتنی بے رحمی
اتنی سفاکیت؟
اپنوں کی یہ سرد مہری جیسے منجمند برف سرد احساسات سے بنے وجود پوری دنیا میں زندہ لاشیں بن گئے ہوں۔

زندگی کے پیچھے اتنا دوڑتے ہیں کہ آخر میں قبر میں جا سوتے ہیں جب موت ہی منزل ٹھہری تو زندہ اور باشعور با عمل غیور زندگی کے ساتھ کیوں نہ جئیں غیرت اور زندہ احساس کے ساتھ؟ آج صف ماتم صرف افغانستان کے گھروں میں نہیں بلکہ گریہ وزاری دنیائے اسلام کے گھر گھر میں ہونی چاہیت تھی کہ تاریخ نے پہلی سند کفن کی صورت دیکھی۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر