پاکیزگی کردار کیسے ۔۔۔؟

Muslim Man

Muslim Man

تحریر : محمد صدیق مدنی
دامن کی طہارت اسلام کے اصول و قوانین کے مطابق فرض عبادات سے بھی اہم ترین ہے۔شریعت مطہرہ نے عورت کے سفر حج کے لیے محرم کی شرط بھی اسی لیے عائد کی ہے کہ کہیں پاکدامنی پر حرف نہ آئے۔اس پر مستزادیہ کہ شریعت کے بہت سے احکامات کی وجہ مثلاً پردہ،خلوت سے متعلقہ امور،عورت کے سفر کے متعلق ہدایات کی مشروعیت کی وجہ بھی یہی ہے کہ معاشرے میں امن، سکون،باہمی احترام و پاکیزہ تصورات کو فروغ ملے۔ آج ہمارے ہاں بہت سارے مسائل کی وجہ ہی شریعت کے مذکورہ احکام سے روگردانی ہے۔ پاکیزگیٔ کردار ایک ایسا مسئلہ ہے اگر کوئی اس کو ترک کر کے بے احتیاطی اور بدکرداری کے راستے پر چل پڑتا ہے تو یہ ایمان کے انوار اور ایمان کھونے اور ایمان ہاتھ سے جانے کا راستہ ہے۔ہم نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ ایمان کوئی پتھر نما شے ہے جو بس ہمارے اندر موجود ہے اس کو کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح قلب انسانی گناہوں کی وجہ سے زنگ آلود ہو کر انسان کو اس مقام تک لے جاتا ہے۔ جہاں قبول حق کی صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ اسی طرح کچھ گناہ ایسے بھی ہیں اور آج کل بہت عام ہیں جن کی وجہ سے انسان کا ایمان دل سے نکل جاتا ہے اور جب گناہ سے فارغ ہوچکے تب ایمان واپس آتا ہے۔ یہاں دو باتیں انتہائی قابل غور ہیں۔(١) انسان کو یہ معلوم نہیں کہ اس نے کب مرنا ہے اس کی اجل کب آنی ہے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسا ن کو ایسے گناہ کرنا تو درکنار ان کی طرف سے ذہن کو بھی پاک صاف و شفاف رکھنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی حالت میں مر جائے اور ویسے اپنے آپ کو مومن سمجھتا تھا لیکن دنیا سے بے ایمان چلا گیا اور ساری عبادت، اطاعت ،ریاضات بیکار گئی۔ایک کفن چور سے جب توبہ کا سبب پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے چہرے قبلے سے پھرے ہوئے تھے اس کی وجہ یہ ہے ان کا خاتمہ ایمان پر نہ ہوا تھا۔

ہماری عبادات تو ویسے بھی کسی کام کی نہیں۔ بس اسی تمنا اور آرزوں میں اعمال صالحہ بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں کہ خاتمہ ایمان پر ہو جائے لہذا ہر لمحہ ہوشیار اور ایسے گناہوں سے مجتنب رہنا چاہئے۔(٢) کسی بھی شے کی ایک اصلی حالت ہوتی ہے اور دوسری حالت وہ ہوتی ہے جو نقص و عیب کے بعد ہو مثلا ایک آدمی وہ ہے جس کا قلب صحیح سلامت ہے اور ایک وہ ہے جس کا (بائی پاس) دل کا آپریشن ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ علاج کے ذریعے سے صحیح ہونے والا دل تو کسی وقت بھی جواب دے سکتا ہے ورزش کی بھی زیادہ ضرورت ہے۔ کھانے میں احتیاط بھی اس کے ساتھ ساتھ ہے اور دیگر بدپرہیزیوں سے بھی بچنا ہے۔ اس مثال کو سمجھنے کے بعد یہ سمجھ لیں کہ اگر (معاذ اللہ) کوئی کسی ایسے گناہ میں مبتلا ہوگیا اوراپنی پیشانی حیات کو داغدار کر بیٹھا تو اس کا ایمان بھی اسی طرح سے کمزور رہے گا اور زائل ہونے کا خدشہ ہر وقت رہے گا۔ (سوائے اس کے کہ توبة نصوحا کرے) توبہ کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بار گناہ کرتے وقت سوچے کہ یار توبہ کر لیں گے بلکہ توبة نصوحا کی علامت یہ ہے کہ جب اس گناہ کا تصور کرے تو دل میں کسی طرح کی لذت و سرور نہ پائے بلکہ اس کو کراہت محسوس ہو یہی کامل اور صادق توبہ ہے۔ حدیث ِپاک میں ایسے ہی گناہوں کا تذکرہ آرہا ہے؟ عن ابی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ ۖ لایزنی الزانی حین یزنی وھو مومن ولا یسرق السارق حین یسرق و ھو مومن ولا یشرب الخمر حین یشربھا و ھو مومن ولا ینتھبنھبہ یرفع الناس الیہ فیھا ابصارھم حین ینتھبھا و ھو مؤمن ولا یغل احدکم حین یغل وھو مؤمن فایاکم ایاکم (متفق علیہ) و فی روایة ابن عباس ولا یقتل حین یقتل وھو مؤمن حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ زانی زنا کے وقت مومن نہیں ہوتا ۔چور جب چوری کرتا ہے اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا ۔اور کوئی شخص جب شراب پیتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا۔ اور ڈاکو مال چھینتے وقت لوگ جب ترسی ہوئی نگاہ سے مال کو دیکھ رہے ہوتے ہیں مومن نہیں ہوتا ۔اور خائن خیانت کرنے کی حالت میں مومن نہیں ہوتا لہذا ان برائیوں سے بچو ان سے بچو۔

حضرت ابن عباس کی روایت میں یہ بھی ہے کہ قاتل کسی کو ناحق قتل کرتے ہوئے مومن نہیں ہوتا( مشکو ٰة۔ باب الکبائر) آپ نے حدیث مبارکہ ملاحظہ کی کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کر کے اپنا محاسبہ کریں اور اگر کبھی ہم سے کوئی برائی سرزد ہوئی ہے تو توبہ کریں اگر اب تک محفوظ ہیں تو الحمد للہ استقامت کی دعا کریں۔ایک قابل فکر نقطہ : جیسا کہ سابقہ وضاحت ہوچکی کسی انسان کو اپنی اجل کا وقت معلوم نہیں ہے اور یہ بات بھی ملاحظہ فرمائیں کہ جو شخص جو کچھ کرتے ہوئے جس حالت میں مر یگا اسی حالت میں قیامت کے دن اٹھایا جائے گا اب ذرا سوچیں اگر وہ مر گیا اس کو اٹھایا ہی قیامت کے دن نافرمانی خدا کرتے ہوئے گیا تو بعد کا انجام کیا ہوگا۔ چنانچہ ایک روایت میں یہ بات یوں سمجھائی گئی کہ ایک شخص اپنا گدھا تلاش کرتے ہوئے فوت ہوگیا تو جب سو سال کے بعد اس کو اٹھایا گیا وہ گدھا ہی تلاش کر رہا تھا۔ تو ذرا کانپیں، لرزیں اپنے انجام کی فکر میں دو آنسو ہی آنکھوں سے نکال لیں۔ذیل میں ہم حدیث پاک میں مذکور برائیوں کے متعلق دیگر روایات کو بھی ذکر کرتے ہیں تاکہ ہم ان حرام کاموں سے ایسی ہی نفرت کرنے لگیں جس طرح مردار سے کرتے ہیں۔ جتنا گیا گذرا آدمی بھی ہو وہ مردار سے دور بھاگتا ہے۔ نفرت کرتا ہے تو بس یہ بات اپنے پلے باندھ لیں کہ اللہ کی حرام کردہ ہر شے مردار ہی ہے خواہ وہ ظاہری شکل میں نفس کو پسند ہی کیوں نہ ہو۔

Islam

Islam

زنا، بدکاری اسلام ایسا آفاقی اور عالمگیر دین ہے جو نہ صرف احکام صادر کرتاہے بلکہ ان احکام کے پس پردہ حکمتوں کے بیان کے ساتھ ساتھ احکام پر عمل کے لئے عملی طریقہ کار بھی وضع کرتا ہے تاکہ اس حکم شرعی پر عمل ہو جائے۔(١) اللہ تعالی نے نہ صرف زنا سے منع کیا ہے بلکہ ہر اس راستے کو مسدود کیا ہے جو اس فعل شنیع تک لے جانے والا ہو۔ ارشاد باری ہے ولا تقر بو الزنی انہ کان فاحشہ و ساء سبیلا(بنی اسرائیل)۔ زنا کے قریب بھی نہ جائو کیوں کہ یہ بہت بے حیائی والا کام ہے اور بہت برا راستہ ہے۔ آیت طیبہ سے واضح ہوا کہ جو اسباب بھی گناہ، بدکاری تک لے جانے والے ہوں سب ہی حرام ہیں، مثلا مخلوط تعلیم حاصل کرنا، گانے، فلمیں، ڈرامے سننا، معاشقوں پر مشتمل ڈائجسٹ و ناول پڑھنا غیر محارم کو بنظر شہوت دیکھنا یہ سب حرام ہیں کیوں کہ یہ گناہ تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔نوٹ:۔ مرد کے لئے تو غیر محرم عورت کو دیکھنا سوائے ضرورت کے منع ہے اور عورت کو اگر شہوت پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو حرام ہے ورنہ نہیں ہاں تقوی کا اعلی مرتبہ ہے کہ نہ دیکھے۔(٢) اس جرم شنیع پر اللہ تعالی نے سزا مقرر کی ہے تاکہ انسان کا نفس کنٹرول میں رہے اور سزا کے ڈر سے گناہ سے اجتناب کرے اور یہ سزا بالکل فطری معاملہ ہے جس طرح دنیاوی قوانین توڑنے پر سزائیں مقرر کی جاتی ہیں اور کوئی ذی شعور ان کو برا نہیں سمجھتا بلکہ ان کو سراہتا ہے محض اس لئے اس میں ساری انسانیت کا فائدہ ہے بعینہ اسی طرح اللہ تعالی کے قانون کی پابندی میں بے حد فوائد اور توڑنے میں بے شمار نقصانات ہیں۔ مثلا بدکاری سے نسب کا مختلط ہو جانا، اگر کسی کا فعل منظر عام پر آگیا تو دو خاندانوں میں قتل و غارت تک نوبت پہنچ جانا، کاری کے نام پر قتل ۔

زنا سے پیدا شدہ اولاد کی نعشیں کچرے کے ڈھیروں اور جھولوں سے ملنا وغیرہ۔ان سب برائیوں کے روکنے کے لئے ضروری تھا کہ کوئی قانون ہو جس کے ڈر سے لوگ ان برائیوں سے باز رہیں۔ آج یا تو قانون ہے ہی نہیں اگر ہے تو نافذ نہیں جس کی وجہ سے اغوا کر کے زنا، ریپ کے واقعات عام ہیں اور آج بھی اسلامی قوانین کا کماحقہ نفاذ ہمیں امن مہیا کرسکتا ہے ورنہ امن، سکون، حقوق ایک خواب ہی ہوسکتے ہیں۔ اگر زنا کا راستہ کھول دیا جائے تو پھر انسان و جانور میں فرق ہی باقی نہیں رہتا کہ کون، کب، کس کے پاس جارہا ہے اتنا معیار سے تو نہ گریں کہ ہم انسان کہلانے کے قابل بھی نہ رہیں۔(٣) بدکاری کی اخروی سزا۔معراج کی رات حضور علیہ السلام کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے سامنے تازہ گوشت رکھا ہوا ہے اور دوسری ہنڈیا میں کچا اور سڑا ہوا گوشت ہے وہ اس جلے سڑے اور کچے کو کھا رہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھاتے آپ نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو جبریل امین نے کہا کہ یارسول اللہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی پاکیزہ حلال بیویوں کو چھوڑ کر دوسری حرام عورتوں سے راتیں گزارتے تھے اور برائی کے مرتکب ہوتے تھے اسی طرح یہ عورتیں وہ ہیں جو اپنے خاوندوں کو چھوڑ کر دوسرے مردوں سے رنگ رلیاں مناتی تھی اور بدکاری کی مرتکب ہوتی تھی۔( تفسیر ابن کثیر) کس قدر ذلت و رسوائی کی سزا ہے اور اس رسوا کرنے والا کام کی طرف جانا ہی کیوں ہے جب کہ اللہ تعالی کے حلال طریقے سے اپنی حاجت پوری کرنے کا انتظام نکاح کی شکل میں فرما دیا ہے اور جو اپنے آپ کو زیادہ قوی محسوس کرے تو اس کو چار تک بیویوں کی اجازت عنایت فرمائی ہے۔

آج یہ بات بھی قابل فکر ہے کہ اگر شوہر ویسے ہی ناجائز طور پر اپنا منہ کالا کرتا ہے بیوی کو خبر بھی ہو وہ برداشت کرتی رہتی ہے جب کہ اگر وہ جائز طریقے سے نکاح کرنا چاہے تو سو رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں حالانکہ خاوند سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کو آخرت کے عذاب سے بچایا جائے اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ شوہر کو اجازت دے دی جائے کہ اگر کسی کی طرف وہ مائل ہے اس سے نکاح کر لے یہی کمال ہمدردی اور وفاداری ہے۔ اسی طرح مجموعی طور پر نکاح کو مشکل بنا دیا گیا ہے ہمیں بھی نکاح کو آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ (٤) بدکاری اگر کسی معاشرے میں عام ہو جائے تو وہاں ایک طرف تو عزت دار آدمی کا جینا حرام ہو جاتا ہے تو دوسری طرف وہ معاشرہ اللہ کی جانب سے اجتماعی عذاب میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔ پانچ برائیوں پر پانچ سزائیں حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ ١)جب کسی قوم میں خیانت آتی ہے تو اللہ تعالی ان کے دلوں میں (دوسروں) کا رعب ڈالتا ہے ۔ (٢)اور جس قوم میں زنا پھیل جائے وہاں موت کی کثرت ہو جاتی ہے ۔ (٣)جو قوم ناپ تول میں کمی کرے اس کی روزی کم کر دی جاتی ہے۔ (٤)جس قوم میں ناحق فیصلے ہوں وہاں خونریزی مسلط ہو جاتی ہے ۔
(٥)اور جو عہد کو توڑے ان پر دشمن مسلط ہو جاتا ہے۔( مشکوٰة /باب تغیر الناس)

Pakistan

Pakistan

اہل پاکستان ذرا غور فرمائیں آج ہم ان سارے مسائل میں مبتلا ہیں لیکن ان کے جو اسباب ہیں، جو گناہ ہم اجتماعی طور پر کر رہے ہیں کیا ہم نے ان کے خلاف کوئی تحریک چلائی؟ کبھی ان برائیوں کے سدباب کے لئے کوئی اقدامات کئے ؟کبھی ان گناہوں کو اپنی ذات سے دور کرنے کی کوشش کی؟ لوگوں میں ان گناہوں سے نفرت پیدا کرنے کے لئے اقدامات کئے؟ آج ہم بدامنی، دہشت گردی، قحط سالی، بے روزگار، مہنگائی، غربت، قتل و غارت کے عذاب میں پس رہے ہیں لیکن ار باب اقتدار کے نزدیک حدیث میں مذکور گناہ جو عذاب کے اسباب ہیں وہ کوئی مسئلہ ہی نہیں، بلکہ اجتماعی طور پر گناہ کا ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ کوئی گناہ سے بچ ہی نہ سکے۔ لہذا آیئے آقا کریم کے فرمان کی روشنی میں ہر شخص اپنے کردار کا جائزہ لے۔ اگر دانستہ یا نادانستہ طور پر ہم کسی گناہ میں ملوث ہیں تو فی الفور توبہ کریں، اور گناہوں کی سیاہی کو آنسوئوں سے دھویں پھر اس مہربان کے کرم کی رم جھم بارش کا نظارہ دیکھیں۔غلط سوچ ہم میں سے ہر کوئی سوچتا ہے کہ یار کیا ہوا اتنے سارے لوگ بداخلاقی و بدکرداری میں ملوث ہیں اگر میں نے بھی گناہ کر لیا توکیا ہو جائے گا؟ تو سنیے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ایک شخص ساری قوم کے لئے باعث سزا اور عذاب اور کبھی باعث راحت ہوتا ہے؟ چنانچہ منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں قحط سالی ہوئی اور آپ نے قوم کو دعا کے لئے اکٹھا کیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ موسیٰ اس مجلس میں ایک بہت ہی بدکار، فاسق و فاجر شخص موجود ہے جب تک وہ اٹھے گا نہیں بارش نہ ہوگی؟جب موسیٰ علیہ السلام نے اعلان فرمایا: جو شخص ایسا تھا اس کا دل نرم ہوگیا قلب پر رقت طاری ہوگئی؟ ندامت ہوئی، اللہ تعالی سے وعدہ کیا کہ الہیٰ آج رسوائی سے بچالے اب کبھی گناہ نہ کروںگا یہ آوازیں چونکہ اس کے قلب کی گہرائیوں اور سچائیوں سے نکل رہی تھی۔

اللہ تعالی نے قبول فرمالی اور بارش شروع ہوگئی؟ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کیا کہ باری تعالی بندہ تو یہاں سے کوئی نہیں اٹھا بارش کیسے ہوگئی؟ جواب آیا کہ اے موسی جس بندے کی وجہ سے بارش نہیں ہو رہی تھی اب اسی کی وجہ ے بارش نازل کر دی ہے۔ ذرا غور فرمایئے کہ ایک ہی بندہ جب عاصی، نافرمان، دھتکارا ہوا تھا، مردود تھا اس کی وجہ سے بارش روک لی گئی تھی اور وہی جب توبة نصوحا کر کے مقبول ہوگیا تو اسی کے سبب سے بارش عطا کر دی گئی۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ ساری خرابیاں، بے برکتی کے مناظر، پیچیدگیاں میرے ہی گناہوں کی شامت سے ہیں اور ہر کوئی یہی سوچے اور اپنی خرابیوں کو چھوڑے اور توبة نصوحا کرے تو پھر اس غفور کا عفو و درگزر بھی دیکھیں اور اس کی عنایات بھی ملاحظہ کریں۔زنا کی مختلف صورتیں؟ العینان زنا ھما النظر و الاذنان زناھما الاستماع واللسان زناہ الکلام والید زناھا البطش والرجل زناھا الخطا والقلب یھوی و یتمنی و یصدق ذلک الفرج و یکذبہ ( رواہ مسلم بحوالہ مشکوة المصابیح) آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے، زبان کا زنا باتیں کرنا، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے، پائوں کا زنا چلنا ہے دل (نفس کی اتباع کی وجہ سے) خواہش و تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔مفہوم حدیث :عام طور پر جب تک کوئی گناہ کے آخری مرحلے تک نہ پہنچے اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتا نہ گناہ کہتا ہے لیکن جو اسباب بھی گناہ کی آخری منزل تک پہنچانے والے ہوں وہ سب بھی گناہ ہوتے ہیں جیسا کہ فقہ کا اصولہے مقدمة الواجب واجب، واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے مقدمة الحرام حرام حرام کا مقدمہ بھی حرام ہے۔

(نوٹ)!اعضا کے زناکا جو ذکر حدیث میں ہوا وہ فریقین کے لئے ہے۔ آج ہم عورتوں کی آواز سننے کے لئے مضطرب اور بے چین رہتے ہیں اور گھنٹوں گھنٹوں باتیں کرتے رہتے ہیں جس میں ہمارا سرمایہ ضائع ہو رہا ہے راتوں کی نیندیں ختم ہوچکی ہیں۔ صبح انتہائی مشکل سے اٹھ کر دفتر یا جہاں پہنچنا ہے پہنچ پاتے ہیں نہ نماز کی فکر، نہ اپنی صحت و شباب کی فکر بس کانوں کو شہوت بھری باتوں سے محظوظ کرتے رہیں باقی جو ہوتا ہے ہو۔ نظر کے زناکے متعلق روایت میں ہے کہ نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے (المستدرک علی الصحیحین) دوسری روایت میں ہے کہ ایک نظر کے بعد اگر دوسری پڑ گئی اس کا وبال تم پر ہوگا۔ لمحہ فکریہ:۔ پھر مقامِ غور ہے کہ آج ہم جن اعضا (کان، زبان وغیرہ) کی شہوت کی تسکین کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں کل قیامت میں یہی ہمارے خلاف گواہی دیں گے ۔ چنانچہ ارشاد باری ہے اس دن ان لوگوں کے خلاف ان کے ہاتھ، ان کی زبانیں ان کے پائوں ان باتوں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے۔ سورة النور میرے بھائیو اپنے اوپر ترس کھائو۔ زندگی نعمت ہے گناہ کے راستے پر چل کر اس کو وبال جان نہ بنائو آج ہی آنکھیں کھولو کل فائدہ نہ ہوگا۔ پائوں بتائیں گے کہ فلانی جگہ یہ چل کر گیا تھا زبان بتائے گی فلاں فلاں شہوانی باتیں اس نے کی تھی کان بتائیں گے یہ یہ باتیں اس نے سنی تھی اور اعضا کی گواہی ایسی ہوگی کہ جس کو رد کرنا ممکن ہی نہ ہوگا۔زمین کی گواہی حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے آیت طیبہ یومئذ تحدث اخبارھا کی تلاوت فرمائی اور پوچھا اتدرون ما اخبارھا کہ جانتے ہو زمین کی خبریں کیا ہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں؟ آ پ نے ارشاد فرمایا کہ زمین کی خبریں یہ ہیں کہ زمین ہر مرد و عورت کے خلاف اس کام کی گواہی دے گی جو اس نے زمین پر کیا ہوگا اور زمین کہے گی فلاں مرد یا عورت نے فلاں فلاں دن، فلاں مہینے فلاں سال یہ کام کیا تھا (ترمذی صفتہ القیامة) ذرا غور فرمایئے ہمارے ہر طرف کیمرے لگے ہوئے ہیں مووی بن رہی ہے بس ایک ہی راستہ ہے کہ جرائم اور گناہوں سے رک جائیں۔

Evil

Evil

بدکاری کی وجہ سے کئے جانے والے دیگر خطرناک گناہ: یہ بات صحیح ہے کہ اسلامی اقدار کے زوال پذیر ہونے اور نیکی کا ماحول نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے گناہ معاشرے میں پنپ چکے ہیں اور ان کو کوئی برا ہی نہیں سمجھتا لیکن پھر بھی نیکی کے مدہم سے اثرات کی وجہ سے چند چیزیں ایسی ہیں، چند گناہ ایسے ہیں جن کے منظر عام پر آنے سے لوگ کتراتے ہیں۔ آج کے اس معاشرے میں گناہ چھپانے کے بے پناہ ذرائع اور راستے موجود ہیں لیکن پھر بھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بدکاری کی وجہ سے عورتیں حاملہ ہو جاتی ہیں اب اپنے ایک گناہ کو چھپانے کے لئے دوسرا اس سے بھی بڑا گناہ کرتی ہیں اگر ابتدائی مرحلہ مین معلوم ہوچکا تو اسقاط کرا دیا اگر معلوم نہ ہو سکا ولادت ہی ہوگئی تو پھر مار کر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے اور بدکاری کرنے والے لوگ زنا کے ساتھ بہت بڑے فعل شنیع قتل کے مرتکب بھی ہو جاتے ہیں اور اس طرح کچروں کے ڈھیروں سے نعشیں ملنے کے واقعات آئے روز اخبارات کی زینت بن رہے ہیں؟ ایڈز بدکاری کا نتیجہ ہے اللہ تعالی کی حکم عدولی کی سزا دنیا میں ایڈز کی شکل میں مل رہی ہے اور تاحال ایڈز لاعلاج مرض ہے اگر دریافت ہو بھی گیا تو بے شمار لوگ تو ایڈز کی وجہ سے پہلے ہی مر رہے ہیں اور پاکستان میں بھی ایڈز کے مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ان سطور کے لکھے جانے سے ایک سال قبل رجسٹرڈ تعداد تقریبا ایک لاکھ تھی۔ اگرچہ (این جی اوز) اور محکمہ صحت والے کہتے ہیں نشے سے بھی ایڈز ہوتا ہے

استعمال شدہ سرنج سے بھی اور وہ یہ زیادہ واضح نہیں ہونے دیتے کہ سب سے بڑا سبب بدکاری ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔ اور اسلام کی حقانیت دیکھیے کہ ساری دنیا کے ڈاکٹرز بیک زباں ہو کر کہہ رہے ہیں جنسی بے راہ روی سے دور رہ کر ہی ایڈز سے بچا جاسکتا ہے۔ آپ فیصلہ کریں کہ چند لمحات کی شہوانی لذت کی خاطر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا کچھ کر نہ سکیں۔ فعال زندگی نہ گزار سکیں کیا ایسا کرنا چاہئے؟عالمی یوم ایڈز: عالم یوم ایڈز منانے والے ہی ایڈز پھیلانے کے ذمہ دار ہیں کیوںکہ وہ بدکاری کے اسباب دور کرنے کی بات نہیں کرتے بلکہ عورتوںکو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کے درپے ہیں ادھر سے زہر کھلا رہے ہیں اور دوسری طرف سے دوائی۔ایسے میںدوائی کہاں اثر کرے گی۔ بدکاری سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریاں: (١) آتشک علامت یہ ہے کہ عضو تناسل یا ہونٹ یا زبان یا پپوٹوں پر زخم بن جاتے ہیں یا ورم آجاتا ہے آتشک کی وجہ سے مزید خطرناک امراض شل ہونا، اور اندھا پن وغیرہ بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ (٢) سیلان یا سوزاک (علامات) پیشاب کے وقت درد یا سخت جلن ہونا اور مردوں کو پیشاب کے راستے سے پیپ آنا، عورتوں کو رحم اور پیشاب کی نالی سے پیپ آنا یا درد محسوس ہونا۔سوزاک کی وجہ سے بعض اوقات پیشاب کی نالی میں زخم ہو جاتے ہیںجس کی وجہ سے پیشاب بند ہو جاتا ہے اورنتیجتاً جان بھی جاسکتی ہے۔ اگرسمجھ آجائے تو اتنا کافی ہے چند لمحاتی لذت کے لئے قیمتی زندگی کو دائو پر لگانا کونسی دانشمندی ہے؟

(٣) نامردی، کمزوری بہت سے نوجوان شادی کا نام سن کر اس لئے گھبراتے ہیں کہ ان کے سامنے ماضی کی ساری غلط کاریاں ہوتی ہیں ظاہر ہے بدکاری سے اعضاء کی قوت تباہ، جسم لاغر، نظام ہضم تباہ، حافظہ خراب، نسیان کی بیماری، احساس کمتری قوت ارادی کی کمزوری اور دیگر کئی پیچیدیگیاں جنم لیتی ہیں اور اگر شادی کر لے، حالانکہ شادی کے لائق نہیں تھا تو عورت نفرت کرنے لگتی ہے پھر یا تو عورت دوسروں سے تعلقات بنائے گی ظاہراً اسی کے ساتھ رہے گی یا پھر نوبت طلاق تک پہنچے گی فاعتبروا یاولی الابصار اے عقل والو عبرت حاصل کرو۔ معاشرتی نقصانات نسب میں اختلاط اور نسل کا ضیاع ہوتا ہے، عزت و آبرو کی پامالی ہوتی ہے، خاندان کی وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے اور آدمی بے حیائی کی دلدل میں پھنس رہتا ہے اور مردانگی، عزت و شرافت کو کھو بیٹھتا ہے جہاں بچے آزاد، بے سر و سامان، عورتیں آبرو باختہ، لوگوں کو دعوت گناہ دینے والی اور مرد بدکردار ہو ںوہاں تباہی کے علاوہ اور کیا ہوگا۔بے غیرتی کا پیدا ہونا بدکاری کا عادی شخص ایک اہم فضیلت غیرت سے خالی ہو جاتا ہے یاد رہے انسان کی فضیلت اس کے اوصاف کی وجہ سے ہی ہے اور بے غیرتی اسلام کی نظر میں اتنی قبیح چیز ہے کہ غیرت نہ ہونے کی وجہ سے خنزیر کو حرام قرار دیاکہ کہیں اس کا کھانے والا بھی بے غیرت نہ ہو جائے اسلام نے اس کے کھانے کو قطعا منع اور اسے نجس العین قرار دیا۔ اور غیرت کے ختم ہونے کی وجہ اور صورت ظاہر ہے کہ جو شخص دوسروں کی عزت پر ہاتھ صاف کرسکتا ہےدوسروں کی بہن، بیٹی، بیوی کو اپنی ہوس نفس کا شکار کرسکتا ہے۔ اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ وہ اپنی بیٹی،بہن،بیوی کو کسی اور کے ساتھ آتے جاتے گھومتے پھرتے دیکھے۔ چنانچہ کئی بے غیرت ایک دروازے سے خود برائی کے مراکز میں داخل ہوتے ہیں اور دوسرے سے ان کی کوئی عزیزہ۔ لھذا اگر غیرت قائم رکھنی ہے تو پھر بدکرداری سے بچنا ہوگا اور پیچھے بھی ذکر کیا گیا کہ اگر انسان سے غیرت ہی چلی گئی تو وہ انسان ہی کیا رہا۔

Hazrat Muhmmad PBUH

Hazrat Muhmmad PBUH

ایک شخص کو حضور علیہ السلام کی عمدہ نصیحت ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں لیکن میری ایک کمزوری ہے کہ میں زنا نہیں چھوڑ سکتا آقا کریم علیہ السلام نے بڑے پیار سے اس سے پوچھا کہ کیا تو زنا اپنی بہن سے کرنا چاہتا ہے؟ اس نے کہا نہیں آپ نے پوچھا اپنی بیٹی سے؟ اس نے کہا نہیں آپ نے دریافت فرمایا اپنی ماں سے؟ اس نے کہا نہیں؟ آپ نے انتہائی شفقت سے فرمایا کہ دیکھو جس سے تم زنا کرو گے وہ بھی تو کسی کی ماں، بہن،بیٹی ہوگی نا؟ پھر آقا کریم اس کو سمجھاتے بھی رہے اور اپنی نگاہ سے اس کے باطن کو صاف بھی فرماتے رہے حتی کہ اس شخص نے غیر مشروط طور پر ایمان قبول کیا اور زنا کا خیال بھی اس کے دل سے محو ہوگیا۔ آج بھی اگر ہم اسی زاویہ سے سوچنے لگیں شاید نفس کا بے لگام گھوڑا قابو میں آجائے۔ایک انتہائی جامع حدیث پاک لایؤمن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ تم میں سے کوئی بھی شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے؟ اللہ اللہ یہ حدیث اتنی جامع ہے کہ زندگی گزارنے کے سارے آداب اس میں سمٹ آئے ہیں؟ ذرا سوچیے کہ کیا ہم اپنی بہن، بیٹی ،بیوی سے اس فعل شنیع ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں ان کو اس معاملے میں مبتلا ہوتا ہوا پسند کرتے ہیں؟ با غیرت ہونے کی صورت میں جواب یقینا نفی میں ہوگا؟ تو پھر دوسروں کے ساتھ کیوں اس معاملے کو برداشت کرتے ہیں؟ دوسرے کی بہن، بیٹی کو اس فعل پر اکسانے ،مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کو کیوں پسند کرتے ہیں۔ امید ہے دماغ کی بند گرہیں کھل گئی ہوں گی اور حقیقت حال واضح ہوگئی ہوگی۔

انجام پر نظر رکھنے والا کامیاب ہے امام ابن جوزی نے اس حوالے سے بہت عمدہ نصیحت فرمائی ہے اس کو یہاں نقل کرنا مفید ہوگا۔ جو شخص کسی کام کی ابتدا میں اس کے انجام کو نگاہ بصیرت سے دیکھ لیتا ہے وہ اس کی خیر حاصل کر لیتا ہے اور اس کے شر سے محفوظ رہتا ہے جو انجام میں غور نہیں کرتا حس اور خواہش اس پر غالب آجاتی ہے اور کسی شے سے اس نے سلامتی چاہی وہی اس پر آفات لاتی ہے اور جس شے سے راحت کی امید باندھی وہی اس کے لئے مشقتوں کا سامان بنتی ہے۔ اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ آپ نے زندگی میں یا تو اللہ کی اطاعت کی یا معصیت کی نہ تو اب وہ لذت موجود ہے جو معصیت میں حاصل ہوئی اور نہ ہی وہ مشقت موجود ہے جو طاعت میں ہوئی تھی۔ قارئین ! کھلا یہ کہ گناہ میں حاصل ہونے والی چند لمحاتی لذت کو نہیں بلکہ اس پر جو سزا دنیوی و اخروی ملنے والی ہے اس کو سوچیں ممکن ہے آپ اس طرح نفس و شیطان کے مکر سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں ۔ آگے امام لکھتے ہیں کیاتجھے معلوم نہیں کہ ہر گناہ اپنے نتیجہ اور انجام سے مربوط ہے لہذا سلامتی چاہتا ہے تو پہلے اپنے انجام کو سوچ اور ظاہر کی خواہشپر نہ جا ندامت اٹھا ئے گا۔

غیرت کے نام پر قتل اور غیرت کا قتل قابل فکر بات یہ ہے غیرت کے نام پر قتل پر تو قانون سازی ہو رہی ہے اس کے خلاف میڈیا میں بڑی باتیں کی جاتی ہیں یہ سب کچھ درست سہی لیکن غیرت کا قتل کہ عورتیں خود دعوت دے رہی ہیں۔ چوراہوں پر، اسٹاپوں پر ،پارکوں میں افسوس اس غیرت کے قتل کو کوئی برا نہیں سمجھ رہا، نہ کہہ رہا ہے اور نہ اس کے خلاف کوئی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ غیرت کا قتل یہ بھی ہے کہ ہم بنا سنوار کر اپنی بہنوں، بیٹیوں کو گھر سے باہر، اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں ذرا سوچیں کہ اگر ہمیں کوئی آکر کہے کہ ذرا اپنی بہن، بیٹی کی تصویر تو دکھا دو ہم غصے سے سرخ ہو جائیں گے لیکن جب ہم خود ان کو نمائش کے لئے بھیجتے ہیں کیا ان کو کوئی نہیں دیکھتا؟ پھر ہماری غیرت کہاں سو جاتی ہے۔لہذا غیرت مند مسلمان بنیں کیوں کہ اللہ تعالی بھی غیور ہے۔

Sahaba

Sahaba

ایک صحابی کی غیرت کا واقعہ ایک صحابی گھر واپس آئے تو دیکھا کہ ان کی اہلیہ گھر کے دروازے پر کھڑی ہیں۔غصے سے ان کے ہاتھ میں جو تلوار ، نیزہ تھا سونت لیا۔ اہلیہ نے کہا اندر جاکر دیکھیں تو سہی کہ میں کیوں باہر آئی ہوں ۔ اندر جاکر دیکھا کہ ایک سانپ وہاں موجود ہے سانپ پر وار کیا سانپ نے آپ پر حملہ کیا اور آپ شہید ہو کر امر ہوگئے اور ہمیں یہ سبق دے دیا کہ غیرت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے؟ بدکاری سے بچنے پر عظیم بشارتیں عرش الہی کا سایہ سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے پوچھا اے اللہ حظیرة القدس (جنت) میں کون تیرے قرب میں رہے گا اور اس دن کون تیرے عرش کے سایے میں ہوگا جس دن تیرے عرش کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی آنکھیں کبھی زنا کی طرف نہیں اٹھی وہ اپنے مال میں سود کے طلبگار نہیں ہوتے اور وہ اپنے فیصلوں پر رشوت نہیں لیتے یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے خوشخبری اور اچھا ٹھکانا ہے( شعب الایمان بیھقی) دوسری روایت میں سبعة یظلھم اللہ فی ظلہ یوم لاظل الاظلہ الخ و منھم ورجل دعتہ امرة ذات منصب و جمال فقال انی اخاف اللہ( ترمذی زھد) حضور علیہ السلام نے فرمایا سات خوش نصیب لوگ ہیں جن کو قیامت میں اللہ تعالی اپنے عرش کے سایہ میں جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں سے ہی ایک وہ شخص ہوگا جس کو کسی مال و جمال والی عورت نے دعوت گناہ دی اور اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں یعنی جو آدمی محض اللہ کے خوف سے گناہ کی دعوت کو ٹھکرائے گا وہ عرش الہٰی کے سایہ میں ہوگا اور غور کیا جائے تو مردانگی ہی یہی ہے کہ کوئی بلائے بھی گناہ پر قادر بھی ہو لیکن انسان حقارت اور نفرت سے ٹھکرا دے اور مردار کی طرح اس عمل شنیع سے نفرت کرے۔

قیامت کے دن سائے کی اہمیت مذکورہ بشارتوں کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے قیامت کے دن کی ہیبت اور گرمی کا انداز حدیث پاک سے کیجئے؟اذا کان یوم القیامة اد نیت الشمس من العباد حتی تکون قید میل او میلین حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل (یا فرمایا) کہ دو میل کی مسافت پر ہوگا۔ سورج کی گرمی کی شدت کی کیفیت قال قتصھرھم الشمس فیکونون فی العرق بقدر اعمالھم منھم من یاخذہ الی عقبیہ و منھم من یاخذہ الی رکبتہ و منھم من یاخذہ الی حقویہ و منھم من یلجمہ الجماما (ترمذی، کتاب صفتہ القیامتہ والرقائق ) فرمایا کہ سورج انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے ان کو پگھلا کر رکھ دے گا (جس طرح پانی برف کو پگھلا دیتا ہے) اور لوگ اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ کسی کا پسینہ اس کے ٹخنوں تک، کسی کا گھٹنوں تک اور کسی کا کمر تک اور کسی کا اس کے منہ تک ہوگا۔ دوسری روایت کے مطابق آدھے کانوں تک لوگ پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے غورکریں ذر ا اپنی جان کی ہمت کو دیکھیں ۔اور پھر اتنے پسینے کو، سورج کی اتنی قربت کو، ہم تو اب جب کہ سورج(جو زمین سے14کروڑ96لاکھ کلو میٹر کی مسافت پر ہے)کی گرمی برداشت نہیں کرسکتے۔ لہذا ایک طرف اس گرمی کو رکھیں اور ایک طرف چند لمحات کی ناجائز لذت کو یقینا سمجھ میں یہی آئے گا ہم نے گناہ کو ٹھکرا کر عرش الہٰی کاسایہ حاصل کرنا ہے اور ہم میں گرمی محشر برداشت کرنے کی ہمت و سکت نہیں اور عہد کر لیں کہ ہم نے گناہ کا خیال تک بھی دل میں نہیں آنے دینا۔ پھرہی ہم عرش الہٰی کے سایہ کے مستحق ہوسکتے ہیں ۔اور یہ احادیث طیبہ سن کر تو ہمیں مچل اٹھنا چاہئے کہ مولی کی طرف سے اتنی کرم نوازیاں ہیں تو پھر ہم محنت کے لئے تیار کیوں نہیں؟ جب ہمیں تھوڑی سی کوئی شے ملنے کی توقع ہو تو کس قدر مشکلیں برداشت کرتے ہیں۔ تو کیا خیال ہے قارئین اتنے بڑے انعام کی خاطر اگر حیوانی و شہوانی جذبات قربان کرنے پڑیں کیا ہی خوبصورت، سستا سودا ہے؟

اور یوں سمجھ لیں کہ دیا مفت میں ہی جارہا ہے بس تھوڑی سی قیمت لی جارہی ہے۔ ہم سستا سودا، سستی مارکیٹ تلاش کرتے ہیں نا، لیکن دنیا کے لئے۔ اور اب امید ہے کہ ہم آخرت کے لئے بھی سستے سودے کیا کریں گے۔ وہاںکا سودا تو دیرپا ہوگا یہاں کے سودے کی اس کے مقابلے میں کیا وقعت؟ آپ سمجھ گئے نا میری بات بس اللہ تعالی سے سودا یہ ہے اس کی اطاعت کریں اس کے فرمان پر عمل کریں پھر اس پر ملنے والے کرم کی بارشیں ملاحظہ کریں۔ اس کے علاوہ دیگر ایسے اوصاف (جو عرش الہٰی کے سایے کا باعثبنیں گے) جاننے کے لئے رسالہ سایہ عرش کن کن کو ملے گا) شائع کردہ مکتبة المدینہ کا مطالعہ فرمائیں۔ ایمان بچانے اور اللہ کی ناراضگی سے بچنے پر دنیا میں کرم کی رم جھم بارش: بنی اسرائیل کا ایک عبادت گذار حسن و جمال میں بھی بے مثال تھا اور عبادت کے سبب سے اس کی آنکھوں کے درمیان نور چمکتا رہتا تھا اور اس کا رنگ خوبصورتی میں یاقوت کی طرح تھا ایک دن وہ اپنا سامان بیچنے کی غرض سے نکلا تو اس کو ایک کنیز نے دیکھ لیا اس نے اپنی مالکہ کو بتایا کہ ایک نوجوان جو انتہائی خوبصورت ہے وہ یہاں سے گزرا ہے مالکہ نے کہا اس کو بلائو تاکہ اس کو دیکھ بھی لیں اور اس سے کچھ خرید بھی لیں۔ جب وہ اندر گیا تو دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی انتہائی بیش قیمت جواہرات سے مرصع ہے اور انتہائی عمدہ لباس پہن رکھا ہے اور انتہائی خوبصورت تخت پر بیٹھی ہوئی ہے۔ نوجوان نے کہا کہ کچھ لے لویا مجھے جانے دو تو وہ خاتون اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگی تاکہ وہ اس کی طرف مائل ہو لیکن نوجوان نے پھر اپنا جملہ دہرایا کہ کچھ خریدیں یا مجھے جانے دیں۔ یہاں تک کہ عورت نے اپنی ناجائز خواہش کا اظہار کیا اس نے جواب میں کہا کہ میں نے اللہ کی کتاب انجیل پڑھی ہوئی ہے جس نے انجیل پڑھی ہوئی ہو وہ کیسے اللہ کی نافرمانی کرسکتا ہے

Muslim Women

Muslim Women

وہ عورت اس کو ایک الماری کی طرف لے گئی تو دیکھا کہ وہ سونے، جواہرات سے بھرپور تھی اس نے کہا کہ اگر میری بات مان لو تو یہ سب کچھ تمہارا ہوگا؟ (جب انسان پر نفس حاوی ہو تو پھر نفس کی بات پوری کرنے کے لئے انسان کیا کچھ کرتا ہے) نوجوان نے غسل کرنے کے لئے پانی مانگا اور غسل کیا اور اس سے کہا یا تو مجھے جانے دو یا میں اس چھت سے چھلانگ لگائوں گا۔ (اور چھت کی اونچائی اسی ہاتھ تھی) عورت نے کہا میری بات مانو ورنہ چھلانگ لگا دو۔ اس نے چھلانگ لگائی اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور ہوا کو حکم دیا کہ اس کو گرنے سے روکے وہ کچھ دیر ہوا میں کھڑا رہا اور اللہ تعالی نے حضرت جبریل علیہ السلام کو بھیجا کہ اے جبریل میرے بندے یوحنا کو سنبھالو وہ میرے خوف سے اپنے آپ کو ہلاک کر رہا ہے) جبریل علیہ السلام نے اس جوان کو آرام سے زمین پر پہنچا دیا؟اس طرح جان بھی بچ گئی اور ایمان بھی بچ گیا؟ قارئین غور فرمائیں کہ اللہ کی رضا کی خاطر اگر ایک بنی اسرائیل کا عابد گناہ سے بچنے کے لئے چھلانگ لگائے اور اللہ اس کی حفاظت فرمائے تو کیا خیال ہے اگر کوئی امت محمدیہ کا شخص اسی اخلاص و تقوی کا مظاہرہ کرے تو اس کا کیا مقام ہوگا؟ اور اس جوان کی یہ بات بھی قابل فکرہے (کہ جس نے انجیل پڑھی ہو وہ نافرمانی کیسے کرے) ہم تو ام الکتب قرآن کے وارث ہیں آج ہمیں بھی اسی کردار کا مظاہرہ کرناچاہئے اللہ کی رحمت تو اسی طرح کے مظاہرہ کھانے کے لئے تیار ہے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی راہ رو منزل ہی نہیں؟
بدکاری سے بچنے پر جنت کا وعدہ

حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا!جو شخص مجھے اپنے جبڑوں کے درمیان والی شئی (زبان) اور دو ٹانگوں کے درمیان والی شئی (شرمگاہ) کی ضمانت دے میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ مطلب یہ ہے جو شخص یہ ضمانت دے گا کہ وہ اپنی زبان کا غلط استعمال نہ کرے گا اور نہ ہی شرمگاہ کا تو میں اس کو جنت کی گارنٹی دیتا ہوں یہ ہمارے سیاستدانوں یا لیڈروں کی گارنٹی نہیں ہے تاجدار کائنات کی ضمانت یقینا پختہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ بھی نہیں۔ گناہ سے بچنے کی اھمیت: مذکورہ حدیث پاک میں زبان و شرمگاہ کا ذکر ہوا اور ان کو غلط استعمال سے روکنے پر جنت کی ضمانت دی گئی۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ گناہ سے بچنا کس قدر اہم ہے اور اس کی فضیلت کیا ہے۔ آج یہ بھی مسئلہ ہے کہ اگر کوئی عبادت میں محنت بھی کرتا ہے۔ عمل صالح کا وافر مقدار میں ذخیرہ بھی کرتا ہے لیکن گناہوں سے بچنے کا کوئی اہتمام نہیں حالانکہ گناہوں سے بچنا نیکی کرنے سے زیادہ اہم ہے اسی لئے ایک حدیث پاک میں ہے صحابی نے حضور علیہ السلام سے پوچھا کہ کونسی ہجرت افضل ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے رب کی ناپسندیدہ باتوں کو چھوڑ دو (مشکوٰة )۔ تو قارئین آج سے یہ عہد کرنا ہے کہ گناہ صغیرہ ہو کبیرہ اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

صوفیائے کرام کی اصطلاح ہے کہ پہلے تخلی پھر تحلی کہ پہلے نفس کوپاک کرو تزکیہ کرو پھر عبادت کا رنگ چڑھائو تو دیکھو کیسا لگے گا۔ بعینہ ایسے کہ اگر دلہن کو تیار کرنے، زیورات پہنانے سے پہلے غسل کرا کے اس کا میل کچیل دور نہ کیا جائے تو کیا زیور اچھا لگے گا؟ کتنے ہی مہنگے کپڑے پہنائیں کوئی خوبصورتی پیدا ہوگی۔ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا تو پھر آج سے گناہوں سے اجتناب کی تحریک اپنے من میں بپا کر دیں۔ اگر میری بات کا یقین نہ آئے تو کلمہ طیبہ پر غور کریں پہلے لا الہ کے ذریعے غیر خدا کے تصور کی نفی کر کے من کو، دل و دماغ کو صاف کیا جاتا ہے تاکہ الا اللہ کے ذریعے اثبات الوھیت اور خدا کو ماننے کا نور دل کو روشن کر دے اور من میں اللہ کی محبت پیدا ہو جائے امید ہے کہ جو بات سمجھانے کے کوشش کی ہے سمجھ گئے ہوں گے۔اگر نیکی کے ساتھ کردار کی پاکیزگی نہ ہوئی تو پھر نیکی کا رنگ، نور، فیض، فائدہ کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ بدکاری سے بچنے پر سارے گناہ بخش دیئے گئے۔: حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے حضور علیہ السلام سے سات سے بھی زیادہ مرتبہ سنی ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا وہ گناہوں سے نہ بچتا تھا ایک مرتبہ اس کے پاس ایک حاجت مند خاتون آئی۔ کفل نے اس کو ساٹھ درہم دیئے اس شرط پر کہ وہ اس کی خواہش پوری کرے جب وہ اس کے قریب ہوا اس کا بدن (خوف الہٰی سے) کانپ اٹھا اور وہ (چیخیں مار مار کر) رونے لگی کفل نے پوچھا کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ میں نے اس سے پہلے یہ گناہ کبھی نہیں کیا۔ لیکن ضرورت نے مجھے اس عمل پر مجبور کر دیا۔ کفل نے کہا کہ تو صرف مجبوری کی بنا پر ایسا کر رہی ہے اور اس سے پہلے تو نے ایسا نہیں کیا جا سارے درہمتیرے ہوگئے اور کہنے لگا اب اللہ کی قسم میں کبھی بھی یہ گناہ نہ کروں گا۔ اور وہ اسی رات مر گیا۔ صبح ہوئی تو اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالی نے کفل کو بخش دیا ہے۔ سبحان اللہ(ترمذی)

ALLAH

ALLAH

بدکاری سے بچنے والے کا مقام: حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں ایک نوجوان شخص تھا جو انتہائی عبادت گذار تھا وہ عشاء کی نماز پڑھ کر اپنے والد کے پاس آتا تھا اس کے راستے میں ایک عورت کا دروازہ تھا وہ اس نوجوان پر فریفتہ ہوگئی ایک رات جب وہ نوجوان اس کے پاس سے گزرا اس عورت نے اس کو بہت بہکایا اور وہ نوجوان اس عورت کے ساتھ داخل ہوگیا لیکن اس نوجوان کی زبان پر آیت طیبہ جاری ہوگئی جس کا ترجمہ یہ ہے بے شک جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اگر انہیں شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھو جاتا ہے تو وہ خبردار ہو جاتے ہیں اور اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں (سورة اعراف آیت ٢٠١)۔ پھر وہ نوجوان بے ہوش ہو کر گر پڑا وہ عورت اور اس کی لونڈی اس نوجوان کو اٹھا کر اس کے گھر کے دروازے پر چھوڑ آئی کافی دیربعد اس نوجوان کو ہوش آیا باپ نے پوچھا بیٹا کیا ہوا اس نے سارا واقعہ سنا دیا باپ نے پوچھا کہ اے بیٹے تم نے اس وقت کون سی آیت پڑھی تھی اس نے وہی آیت دہرائی جو کہ پہلے پڑھی تھی اور پھر بے ہوش ہو کر گر گیا گھر والوں نے اس کو ہلایا جلایا لیکن وہ مرچکا تھا۔ گھر والوں نے اس کو غسل دے کے دفن کر دیا جب یہ خبر حضرت عمر تک پہنچی تو تعزیت کے لئے تشریف لائے اور افسوس کا اظہار کیا کہ تم نے مجھے کیوں نہ بتایا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اس کی قبر کے پاس لے چلو۔ حضرت عمر اور آپ کے اصحاب اس کی قبر پر تشریف لے گئے حضرت عمر نے فرمایا اے نوجوان جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں تو اس نوجوان نے قبر کے اندر سے آواز دی اے عمر مجھے میرے رب نے دو بار دو جنتیں عطا فرمائی ہیں۔

( نعمت الباری شرح بخاری )مدرسہ عربیہ بحرالعلوم چمن کے ناظم تعلیمات حافظ محمد صدیق مدنی کا کہنا ہے کہ انسان کو یہ معلوم نہیں کہ اس نے کب مرنا ہے اس کی اجل کب آنی ہے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسا ن کو ایسے گناہ کرنا تو درکنار ان کی طرف سے ذہن کو بھی پاک صاف و شفاف رکھنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی حالت میں مر جائے اور ویسے اپنے آپ کو مومن سمجھتا تھا لیکن دنیا سے بے ایمان چلا گیا اور ساری عبادت، اطاعت ،ریاضات بیکار گئی۔ایک کفن چور سے جب توبہ کا سبب پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے چہرے قبلے سے پھرے ہوئے تھے اس کی وجہ یہ ہے ان کا خاتمہ ایمان پر نہ ہوا تھا۔ ہماری عبادات تو ویسے بھی کسی کام کی نہیں۔ بس اسی تمنا اور آرزوں میں اعمال صالحہ بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں کہ خاتمہ ایمان پر ہو جائے لہذا ہر لمحہ ہوشیار اور ایسے گناہوں سے مجتنب رہنا چاہئے۔ کسی بھی شے کی ایک اصلی حالت ہوتی ہے اور دوسری حالت وہ ہوتی ہے جو نقص و عیب کے بعد ہو مثلا ایک آدمی وہ ہے جس کا قلب صحیح سلامت ہے اور ایک وہ ہے جس کا (بائی پاس) دل کا آپریشن ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ علاج کے ذریعے سے صحیح ہونے والا دل تو کسی وقت بھی جواب دے سکتا ہے ورزش کی بھی زیادہ ضرورت ہے۔ کھانے میں احتیاط بھی اس کے ساتھ ساتھ ہے اور دیگر بدپرہیزیوں سے بھی بچنا ہے۔

اس مثال کو سمجھنے کے بعد یہ سمجھ لیں کہ اگر (معاذ اللہ) کوئی کسی ایسے گناہ میں مبتلا ہوگیا اوراپنی پیشانی حیات کو داغدار کر بیٹھا تو اس کا ایمان بھی اسی طرح سے کمزور رہے گا اور زائل ہونے کا خدشہ ہر وقت رہے گا۔ (سوائے اس کے کہ توبة نصوحا کرے) توبہ کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بار گناہ کرتے وقت سوچے کہ یار توبہ کر لیں گے بلکہ توبة نصوحا کی علامت یہ ہے کہ جب اس گناہ کا تصور کرے تو دل میں کسی طرح کی لذت و سرور نہ پائے بلکہ اس کو کراہت محسوس ہو یہی کامل اور صادق توبہ ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی زیارت جلیل القدر بزرگ حضرت سلیمان بن یسار اپنے ساتھی کے ساتھ حج کرنے جارہے تھے انہوں نے ایک جگہ قیام کیا اور ان کے ساتھی بازار سے کچھ لینے چلے گئے آپ چونکہ بہت ہی خوبصورت تھے ایک عورت کا گزر وہاں سے ہوا وہ عورت اپنا حجاب اتار کر آپ کے سامنے آگئی اور اپنی ناجائز خواہش کا اظہار کیا آپ نے ارشاد فرمایا کہ تجھے میری طرف ابلیس نے بھیجا ہے۔ اور آپ اس کے قدموں کے سر رکھ کر زار و قطار رونے لگے جب عورت نے یہ صورتحال دیکھی تو وہ چلی گئی جب آپ کے ساتھی آئے تو دیکھا آنکھیں رو رو کر پھولی ہوئی ہیں اور آواز بھی بند ہوگئی ہے تو پوچھا کیا بات ہے؟ فرمانے لگے ویسے ہی بچے یاد آگئے تھے۔ ساتھی نے حقیقت بتانے پر اصرار کیا تو آپ نے پورا قصہ سنا دیا یہ سن کر آپ کے ساتھ بھی زار و قطار رونے لگے آپ نے پوچھا کہ تم کیوں رو رہے ہو؟ تو انہوں نے عرض کی کہ آپ تو گناہ سے بچ گئے؟ لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو شاید نہ بچ پاتا؟ پھر دونوں کافی دیر تک روتے رہے؟ جب سلیمان بن یسار مکہ مکرمہ پہنچے طواف و سعی کی اور حجر اسود کے پاس آکر بیٹھ گئے اور آپ کی آنکھ لگ گئی؟ خواب میں دیکھا کہ انتہائی حسین و جمیل شخصیت جن کا بدن خوشبو سے مہک رہا ہے سامنے ہے سلیمان بن یسار نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ میں یوسف ہوں حضرت سلیمان نے پوچھا کہ یوسف صدیق جواب ملا کہ ہاں حصرت سلیمان نے عرض کی آپ کا اور بادشاہ مصر کی بیوی زلیخا کا قصہ بڑا عجیب ہے؟ حضرت یوسف علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا اور ابواء کے مقام پر جو عورت تمہارے پاس آئی تھی اس کا قصہ ہمارے قصے سے بھی عجیب ترین ہے۔ (احیاء العلوم) قارئین کرام ظاہراً عورت کے قدموں میں سر رکھ کر رونا دیوانگی لگتا ہے لیکن حقیقتا یہی مردانگی ہے؟ کہ اللہ کی نافرمانی نہ ہو ظاہری زینت آرائش ظاہر میں بڑا نظر آنے اور پجارو میں گھومنے سے آدمی بڑا نہیں بن جاتا درحقیقت بڑا وہی ہے جو اللہ کے ہاں بڑا ہے؟ اور اگر یہ دیوانگی اللہ کو پسند نہ ہوتی تو اللہ تعالی یوسف علیہ السلام کی زبانی حضرت سلیمان بن یسار کے واقعہ کو عجیب ترین نہ کہلواتا۔

Siddiq Madani

Siddiq Madani

تحریر : محمد صدیق مدنی