افق کا چہرہ لہو میں تر ہے زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے

kulbhushan Yadav

kulbhushan Yadav

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
دھرتی ماں کا وجود ایک مرتبہ پھر لہو میں تر کر دیا گیا ارض پاک پر اک قیامت پھر سے گزر گئی لشکر یزید ایک بار پھر سے منظم ہو کر متحرک ہوا اور مادر وطن کے بدن کو اسکی اولاد کے لہو میں نہلا دیا گیا یکے بعد دیگرے کوئٹہ ،چمن ،اور پارا چنار میں چار دھماکے ہوئے اور انسانی اعضا و جوارع وجود مادروطن پر اس طرح بکھر گئے جیسے کسی نئی قبر پہ پھولوں کی چادر چڑھا دی گئی ہو ۔آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے جس کے سبب دہشتگرد بڑی آسانی کے ساتھ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو رہے ہیں بیگناہ اور معصوم جانوں کے ساتھ اس طرح بربریت سے پر سلوک کرنے والے کم از کم کسی بھی طور پر مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ انسان کہلانے کے مستحق ہیں ۔دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حامل میری ماں دھرتی آخر بار بار کس کی ایماء پہ اور کس کی مدد سے لہو میں تر بتر ہو رہی ہے کیا ہم اسقدر کمزور ہیں کہ دشمن سے بے خبر ہیں یا اس کے پیچھے کوئی دشمن کی ڈھال بن کر ارض پاک کو لہو لہو کروانے پر تلا ہوا ہے۔

ادھر کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان چلا ادھر ارض پاک دھماکوں سے گونج اٹھی جب کلبھوشن نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کو فنڈنگ باقاعدہ طور پر انڈین را کرتی ہے ہزاروں بے گناہ لوگوں کو اس نے مروایا ہے تو پھر اس کو پھانسی کے پھندے پر لٹکانے میں اتنی تاخیر کیوں کی جا رہی ہے یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایسے شخص کو معاف کر دینا مادر وطن کے ساتھ غداری کے مترادف ہو گا اور میری پاک دھرتی کی پاک آرمی کلبھوشن کو کبھی معاف بھی نہیں کرے گی بد ترین اور مکار دشمن کسی بھی صورت معافی کا حق دار نہیں ہے اور جبکہ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ہندوستان ہمارا کھلا دشمن ہے تو اسکے پالتو خونخوار کتے کلبھوشن کو معافی تو ایک طرف بلکہ چھوٹی سے چھوٹی سزا پھانسی ہے جو کہ اسکی معافی کے برابر ہے ورنہ ایسے درندے کو زندہ رکھتے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اسکی آنکھوں کے سامنے اسکے جسم کے ٹکڑے کتوں کو ڈال دینے چاہیئں تا کہ اس جیسے بے شمار بھیڑیئے عبرت پکڑیں اور اسی طرح ہر اس درندے کا حال کیا جائے جو مادر وطن کی کوکھ اجاڑنے والوں کا دست راست بنا ہوا ہے جب تک اس پاک دھرتی سے وہ ضمیر فروش انسانیت سے نابلد بھیڑیئوںکو چن چن کر سزا نہیں دی جاتی تب تک دہشت گردی کا کلی طور پر خاتمہ ناممکن ہے۔

ہندوستان وہ بزدل دشمن ہے جو ذرا سی تکلیف سے بوکھلا اٹھتا ہے خود تو اسقدر بزدل ہے کہ ایک کرکٹ میچ کے ہارنے پر واویلا شروع کر دیتا ہے اور پھر کلبھوشن تو اس کا حاضر سروس نیوی کا آفیسر ہے۔ پارا چنار میں میری ماں دھرتی کے جگر کو پارہ پارہ کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جب تک اندر کے لوگ ساتھ نہ دیں بیرونی دشمن کبھی بھی اور کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہو سکتا ۔کسی ماں کا اگر ایک جوان بیٹا مارا جائے تو اس ماں کی دنیا اندھیر ہو جاتی ہے اور جس ماں کے ایک ہی دن میں سو سے زائد جگر گوشے اس کے وجود پر ہی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیئے جائیں وہ ماں کیونکر سکون پائے گی اس ماں کو تبھی سکون ملے گا جب اسکے دشمن ملیا میٹ ہوں گے اور یہی چاہتی ہے ماں دھرتی کے اسکے تمام دشمن صفحہء ہستی سے مٹ جائیں مادر وطن کی خوشنودی کے لئے ہر فرزند ارض پاک کا اولین فریضہ ہے کہ اسکے ظاہر اور پوشیدہ دشمن سبھی کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر واصل جہنم کر دیں وہ دشمن خواہ ہندوستان سے ہو خواہ افغانستان سے ہو اور چاہے اسی ماں دھرتی کا کوئی ناہنجار اور ناخلف بیٹا ہی کیوں نہ ہو سب کا خاتمہ اب ضروری ہو گیا ہے۔

اس سے پیشتر بھی میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ خواہ کوئی مذہبی لبادہ اوڑھ کر ماں دھرتی کو نقصان پہنچا رہا ہو اسے واصل جہنم کرنا بہت ضروری ہے وہ چاہے اقتدار کی مسند پہ براجمان ہو اسکا وجود مٹانا ہو گا بیشک وہ کسی سرکاری عہدے پر فائز ہو کر ملک دشمن عناصر کی مدد کر رہا ہو اسے بھی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے ہی میں ماں دھرتی کی بقا ہے مگر یہ تمام کام محض لکھ دینے سے یا مذمتی قراردادوں سے ممکن نہیں جب تک بلا تخصیص سزایں نہیں دی جاتیں تب تک دشمن پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ مادر وطن میں تخریبی کارروائیاں کرتے رہیں گے ۔نا تو اسلام میں کہیں یہ ہے کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے کوئی بخشش کا سرٹفیکیٹ ملتا ہے اور نہ ہی انسانیت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ انسانیت کو خون میں نہلا کر آپ بڑے اور معتبر انسان کہلاتے ہو معصوم انسانوں کا خون کرنا تو کھلی شیطانیت ہے ۔رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال ماہء صیام کے آخری عشرے میں جب خداوند لم یزل اپنے بندوں کی مغفرت بانٹ رہا ہے عین اسی وقت شیطان کے چیلے اور نسل شمر و یزید اک نئی کربلا وارد کر رہے ہیں ۔ اتنی بڑی تعداد میں مادر وطن کے فرزندوں کو بے حس اور بے ضمیر بھیڑیا صفت لوگوں نے موت کی وادی میں دھکیلا ہے کہ عید الفطر کی خوشیاں یوم عاشور جیسے غم میں ڈھلتی ہوئی محسو س ہوئیں ۔ میری دھرتی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی وزیر اعظم کے خلاف قدم اٹھائے یا کچھ کہہ دے تو محترم وزراء کی ایک فوج ظفر موج پورے جاہ و جلال سے بیانات داغنے میں مصروف عمل نظر آتی ہے پھر وہ عشق وزیر اعظمی میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ انہیں یہ تک یاد نہیں رہتا کہ وہ عدلیہ کے خلاف زبان کھول رہے ہیں یا ملکی سرکردہ اداروں کے خلاف مگر جب وطن عزیز میں کوئی ایسا سانحہ ہوجائے تو یک سطری مذ متی بیان دینے کو ہی وہ اپنے فرض کی ادائیگی تصور کرتے ہیں۔

حالانکہ وہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزراء ہیں نہ کے ایک خاندان کی بادشاہت کے وزیر یا خادمین خاص ۔اب پاک سرزمین کے رکھوالے پاک فوج کے جیالے دھرتی ماں کی لاج کی حفاظت کے لئے پالے جوانوں کے ساتھ ساتھ ہر محب وطن پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ ماں دھرتی کی کوکھ کو مزید اجڑنے سے بچانے کے لئے اپنے فرض کو نبھاہیں اور وزیر داخلہ چوہری نثار علی خان کو بھی چاہئے کہ (ن) کو ذہن عالی سے اتار کر پاکستان اور اسکے قانون کی بالادستی اور اس پر عملداری کو بھی ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی کی بجا آوری کو اپنا شعار بنائیں بلا شبہ ان کی ذات ایک مکمل اور محب وطن پاکستانی کا پرتو ہے پھر بھی ان سے درخواست ہے کہ ہر دشمن وطن کو پہچانیں خواہ وہ صف دشمناں میں سے ہو یا لباس یاراں میں خواہ اسکا تعلق کسی بھی مذہبی جماعت یا سیاسی پارٹی سے کیوں نہ ہو مادر وطن کا دشمن کسی بھی صورت فرزندان وطن کا دوست نہیں ہو سکتا بالخصوص ہندوستان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والا تو ارض پاک کا دشمن ہی متصور ہوگا ۔چوہدری صاحب آپ اس پاک دھرتی کے داخلہ امور کے پاسدار ہیں یعنی اس ارض پاک پر کوئی باہر سے داخل ہو کے تباہی کا ذمہ دار یا اندر سے کوئی میر جعفر اس کا قلع قمع آپ پر واجب ہے وہ بے شک آپ ہی کی پارٹی میں شامل کیوں نہ ہو یا کسی بھی عہدے پر متمکن کیوں نہ ہو اب ماں دھرتی کا کوئی بھی دشمن مقدمہ چلانے یا جیل میں رکھنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ اسکے ٹکڑے کر کے فی الفور کتوں کے آگے ڈالنے سے ہی مسئلہ حل ہو گا۔

آج کوئی وزیر اعظم کی اولاد کے بارے میں صرف بیان دیتا ہے تو کابینہ اپنے ترکش سنبھال کر اسکے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں وہ وزیر اعظم کی اولاد کی ہلکی سی کوفت کو بھی قومی مسئلہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور ماں دھرتی کی اولاد کو کوئی دھماکے سے اڑا دے فقط مذمت زدہ بیان دینا کافی سمجھتے ہیں حالانکہ وزیر اعظم کی اولاد صرف وزیر اعظم کی ہی اولاد ہے اور ماں دھرتی کے فرزند جو جرم بے گناہی میں مارے گئے وہ ہر پاکستانی کے بھائی بیٹے اور بزرگ ہیں (اگر آپ سمجھیں تو ) ان کے خون کو بھی ہم لوگ پس پشت ڈال دیتے ہیں انکے قاتلوں کو کیوں ایک مذمتی بیان تک محدود کر رکھا ہے ہم نے ؟کلبھوشن کی سزا پہ فوری طور پر عملدرامد اب بہت ضروری ہے اسکے علاوہ جس جس ذہن میں اس دھرتی کے حصے بخرے کرنے کی سوچ بسی ہوئی ہے انکی کھوپڑیوں میں سے وہ مغز ہی اڑا دیں اللہ جانتا ہے میری دھرتی ماں آپ پر فخر کرے گی اگر ایسا کر دیا گیا تو ساری دنیا عید کے چاند پر بحث کر رہی تھی مگر مجھے چاند دکھائی نہیں دے رہا تھاجس گھر کے صحن میں بیک وقت سو کے قریب میتیں پڑی ہوئی ہوں وہاں عید کا تصور تو کیا شائبہ بھی نہیں ہوتا آج جب میں آسمان کی جانب چاند دیکھنے کے لئے نظر اٹھاتا ہوں تو آنکھوں کے سامنے پورے آسمان پر کوئٹہ ،چمن،اور پارا چنار کے معصوم اور بے گناہ شہید وں کا لہو بکھرا ہوا نظر آرہا ہے اور ایک صدا بار بار میری سماعتوں سے ٹکرا رہی ہے کہ اگر تیرے جوان بیٹے کی میت تیرے آنگن میں پڑی ہوئی ہو تو کیا تجھے عید کی خوشیاں سوجھیں گی؟مگر کتنی حیرت کی بات ہے کہ جناب وزیر اعظم پاکستان نے سانحہ پارا چنار کے شہیدوں کی تعزیت تک کرنا گوارا نہیں کی جبکہ دوسری طرف انہیں چین میں لینڈ سلائڈنگ کا دلی افسوس ہوا ہے۔

سانحہء احمد پور شرقیہ کے ہلاک شدگان کے لئے نواز شریف صاحب اپنا دورئہ لندن ادھورا چھوڑ کر تعزیت کے لئے جا سکتے ہیں مگر پارا چنار کے شہیدوں کی تعزیت کرنا انہیں بار محسوس ہو رہا ہے کیا کہنے جناب قربان جائوں آپکی سیاست اور حب الوطنی کے یکے بعد دیگرے دو خود کش دھماکوں کی بھینٹ چڑھ جانے والے شہداء کا آخر قصور ہی کیا ہے ؟ فقط یہ قصور تھا کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمائیت میں یوم القدس منا رہے تھے کیا یہ جرم ہے ؟پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانا کوئی عیب ہے کیا ؟مردہ باد امریکہ ، مردہ باد اسرائیل کہنا گنائہ عظیم ہے کیا ؟پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب اور مسالک کے لوگ پاکستان کے شہری ہیں سرکار دوعالم ۖ کا فرمان ہے کہ مظلوم کی حمائیت کرو خواہ وہ کسی بھی قوم اور کسی بھی مذہب کا ہو اور ظالم سے بیزاری اختیار کرو خواہ وہ بھی کسی قوم ،مذہب رنگ یا نسل کا ہو ۔لہٰذا پارا چنار کے شہیدوں کی تعزیت نہ کرنا کچھ معنی خیز سا لگتا ہے اسے میں قاتلوں کی حمائت کہوں یا مجرمانہ خاموشی یا پھر حکومت خود فر قہ واریت کو ہوا دے رہی ہے۔ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانا حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے وہ قاتل کوئی انڈین لابی ہو یا مذہبی شرپسند تنظیم اس کا قلع قمع کرنا گورنمنٹ آف پاکستان کا فرض عین ہے ۔ کوئٹہ، چمن ،اور پارا چنار کے شہداء حکمرانوں سے اپنی بے گناہی سے پر شہادتوں کی وجہ پوچھتے ہوئے یہ سوال کر رہی ہیں کہ ہمیں وطن کے ساتھ محبت کا یہ صلہ مل رہا ہے کہ ہمارے قاتل آزاد پھر رہے ہیں اور آپ کے لب صلے ہوئے ہیں آپ اس وجہ سے ہی شائید تعزیت کے دو بول بھی نہیں بول رہے کہ کہیں قاتل آپ سے خفا نہ ہو جائیں ؟ستائیس رمضان سے لے کر آج تلک جب بھی آسمان کی جانب نگاہ اٹھاتا ہوں تو ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے بقول شاعر ۔۔۔

افق کا چہرہ لہو میں تر ہے ۔۔۔۔ زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے

آج ایک ہفتے بعد وزیر اعظم پاکستان کو فرصت ملی اور پارا چنار کے شہداء کے لئے دس ،دس لاکھ اور زخمیوں کے لئے پانچ پانچ لاکھ ان کے لواحقین کو دینے کا اعلان کر دیا ارے بندئہ خدا پیسے بانٹنے کی بجائے امن قائم کرنے کو اولیت دو ان کی دل جوئی کے لئے خود چل کر پارا چنار جائو اور ان لوگوں کی دل جوئی کے ساتھ ساتھ انہیں محب وطن پاکستانی ہونے کا یقین دلائو ہر دہشتگرد کا خاتمہ اپنا فرض منصبی جانو دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں کو اپنی اولاد کی حثیت دو اور یہاں بسنے والوں کو گزند پہنچانے والوں کو اپنا دشمن جانو خواہ وہ مودی ہو یا کوئی موذی۔ظالم کے ظلم پر خاموش رہنا بھی دراصل ظالم کی حمائت ہی ہوتا ہے اس لئے ہر پاکستانی کا دشمن حقیقت میں پاکستان کا دشمن ہے۔

M.H BABAR

M.H BABAR

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile ;03344954919
Mail;mhbabar4@gmail.com